LOADING

Type to search

خانیوال (بگ ڈیجٹ) ڈی پی او خانیوال کے نام ایک فریاد — نسیم مائی کی چیخ، جو اب تک بے آواز ہے

Share this to the Social Media

خانیوال (بگ ڈیجٹ) خانیوال میں اگر آج بھی کسی غریب کے گھر میں سکون کی آخری سانس بچی ہوئی ہے تو اس کا ایک بہت بڑا سبب صرف ایک نام ہے: اسماعیل کھاڑک۔
ورنہ یہاں طاقت کی چکی اتنی بے رحم ہے کہ جس میں کمزور انسانوں کی ہڈیاں تو کیا، پورے خاندان پس کر رہ جاتے ہیں۔

چاہ نتھو والا کی نسیم مائی کی کہانی بھی اسی چکی میں پسنے والی ایک کہانی ہے۔ ایک ایسی ماں جو اپنی وراثتی زمین کے حق کے لیے کھڑی ہوئی تو پورا نظام اس کے خلاف صف آرا ہوگیا۔ اپنے قریبی رشتہ دار، اپنی ہی برادری کے لوگ، اور بدقسمتی سے کچھ پولیس اہلکار بھی—جن کا کام مدد کرنا تھا، مگر وہ طاقتور کے کہنے پر ظلم کا حصہ بنتے گئے۔

نسیم مائی اور اس کے تین بیٹوں کے خلاف مختلف تھانوں میں جھوٹے مقدمات کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ کسی انتقامی ڈرامے سے کم نہیں۔ کبھی پیرووال میں ایف آئی آر، کبھی کبیروالا میں کوئی نیا الزام، کبھی کسی جھگڑے کا پرانا کاغذ اٹھا کر نیا کیس بنا دیا جاتا۔
ایک کیس میں ضمانت ملتی نہیں کہ چند گھنٹے بعد اگلے ہی تھانے سے نئے مقدمے کا تحفہ گھر پہنچ جاتا۔
یہ مقدمات نہیں تھے—
یہ طاقتوروں کی طرف سے بھیجے گئے ’’خبردار‘‘ کے پیغام تھے۔

اور سچ یہی ہے کہ اگر اس پورے ضلع میں اسماعیل کھاڑک جیسا افسر موجود نہ ہوتا تو پتہ نہیں اب تک کتنے گھر اجڑ چکے ہوتے۔ کتنے غریب جھوٹے کیسوں میں جیلوں کی سلاخیں گن رہے ہوتے، کتنے بوڑھے ماں باپ تھانوں کے چکر لگاتے لگاتے مر جاتے، اور کتنی نسیم مائیاں انصاف کی تلاش میں روتے ہوئے گھر واپس لوٹتی رہتیں۔

یہ ہر طرف سے سننے میں آتا ہے کہ خانیوال کے طاقتور لوگ دل ہی دل میں بس ایک دعا کرتے ہیں—
’’یا اللہ! کسی طرح اسماعیل کھاڑک کا تبادلہ ہو جائے۔‘‘
کیوں؟
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ افسر ان کے مرضی کے مقدمے نہیں بنتا۔
یہ افسر ان کی سیاسی سفارشوں پر جھکنے والا نہیں۔
یہ افسر پسندیدہ تھانوں کی بندربانٹ نہیں کرنے دیتا۔
یہ افسر کمزور کی فائل پر بھی اتنی ہی توجہ دیتا ہے جتنی کسی ایم این اے کے فون پر۔

خانیوال کے ایسے بااثر لوگوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ’’ان کی مرضی کے بغیر تھانے نہیں چل رہے۔‘‘
ورنہ یہ لوگ صبح شام یہی بددعا کرتے ہیں کہ کھاڑک کا تبادلہ ہو تو ان کے لیے راستہ صاف ہو—
پھر جس کے خلاف چاہیں مقدمہ لکھوا دیں، جسے چاہیں اٹھا لیں، جسے چاہیں بلیک میل کریں، جسے چاہیں جھکنے پر مجبور کر دیں۔
پھر سیاسی طاقت کے زور پر ’’پسندیدہ تھانوں‘‘ میں اپنے لوگ بٹھا دیں،
اور پھر پورا ضلع ان کے لیے کھلی چراگاہ بن جائے۔

یہی وہ خوف ہے—
یہی وہ ڈر ہے—
جو اس وقت خانیوال کے طاقتور طبقے کے دل میں بیٹھا ہوا ہے۔
یہ خوف اسماعیل کھاڑک کا ہے،
جو آج بھی غریب کو کم از کم یہ اطمینان دیتا ہے کہ ’’یہاں کوئی ایک آدمی تو ہے جو ظلم کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے۔‘‘

نسیم مائی بھی اسی امید پر ہے۔
وہ اے ڈی ایس پی انویسٹیگیشن تک گئی، بریفنگ دی، ریکارڈ دیا… مگر وہاں نتیجہ صفر نکلا۔
اور وہ جانتی ہے کہ اب اگر کہیں انصاف کی آخری کرن باقی ہے تو وہ ڈی پی او کا در ہے۔
وہ دعا کرتی ہے کہ آج اس کی بات سنی جائے،
اس کے تین بیٹوں کی جھوٹے مقدمات سے جان چھڑے،
اور اس کی زمین کا مسئلہ قانون کے مطابق حل ہو۔

خانیوال کے عام لوگ بھی یہی مانتے ہیں کہ اگر آج اسماعیل کھاڑک جیسا افسر نہ ہوتا تو اس ضلع میں غریب کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ طاقتور اپنی مرضی کا تھانہ، اپنی مرضی کے ایس ایچ او، اپنی مرضی کی ایف آئی آر، سب کچھ نہیں کرا سکتے۔
ورنہ یہاں تو وہ زمانہ لوٹ آتا جب ’’بااثر‘‘ لوگوں کے لیے تھانوں کے دروازے صبح شام کھلے رہتے تھے، اور کمزور کے لیے صرف ایک راستہ رہ جاتا تھا— بھاگنا یا جھک جانا۔

نسیم مائی کی کہانی صرف اس ایک عورت کی نہیں۔
یہ پورے نظام کا آئینہ ہے۔
یہ اس سچ کا اعلان ہے کہ جب پولیس کا سربراہ انصاف پسند ہو تو پورے ضلع کے حالات بدل جاتے ہیں،
اور جب طاقتور کی مرضی کے مطابق پولیس چل رہی ہو تو پورا معاشرہ ظلم کا غلام بن جاتا ہے۔

میری گزارش صرف اتنی ہے کہ ڈی پی او صاحب اس ماں کی فریاد سنیں۔
اس کے بیٹوں کے جھوٹے مقدمات کی تہہ تک جائیں۔
ان سیاسی قوتوں کو روکیں جو اپنی خواہشات کے مطابق ایف آئی آر لکھوانا اپنا حق سمجھتی ہیں۔
اور ان پولیس اہلکاروں کو بھی بے نقاب کریں جو طاقتور کے اشاروں پر کمزور کو روندتے ہیں۔

اگر آج انصاف ہوا تو یہ صرف ایک گھر نہیں بچے گا—
پوری تحصیل کے کمزور لوگوں کے دل مضبوط ہوں گے۔
اور اگر آج بھی طاقتور جیت گیا،
تو پھر خانیوال کی تاریخ میں ایک اور ماں کا نام ظلم کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

اللہ کرے اس بار انصاف طاقتور کے ڈر سے نہیں،
سچ کی بنیاد پر ہو۔
اور اللہ کرے کہ اس ماں کی چیخ واقعی کسی تک پہنچ جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X