LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان مسلم لیگ( ن )کو ضمنی انتخابات میں عوام نے شاندارفتح سے” نواز ” دیا

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان مسلم لیگ ن نے مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں شاندارفتح حاصل کی ہے, عوام نے تشدد اور تخریبی سیاست کو مسترد کرکے ترقی، خوشحالی اور استحکام کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ نام نہاد تبدیلی کے دعویداروں نے نفرت کے بیج بوئے ۔عوام نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کر دیا۔مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں کامیابی پر ن لیگ کے امیدواروں اور کارکنوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جاری اپنے بیان میں میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی محنت اور بےلوث خدمت ملک کو صحیح راہ پر واپس لا رہی ہے۔ پاکستانی عوام نے تشدد، انتشار اور تخریبی سیاست کو مسترد کر کے ترقی، خوشحالی اور استحکام کے راستے کا انتخاب کر لیا ہے۔
ہمارا دشمن سمجھتا تھا کہ پاکستانی قوم اور افواج کے درمیان خلیج پیدا کر دی وہ بھول گیا تھا کہ پاکستانی قوم اپنی افواج کے ساتھ آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہے بھارت نے جب حملہ کیا تو پاکستان نے ایسا جواب دیا کو وہ صدیوں اپنے زخم چاٹے گا وزیراعظم محمدشہباز شریف نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر کشمیر اور فلسطین کے لیے آواز اٹھائی ،انہوں نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ بھارت پاکستان کا پانی بند نہیں کر سکتا۔نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا،آج پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے ،دفاعی میدان اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے اپنے آپ کو ثابت کیا۔آج معیشت کے میدان میں بھی ہم آگے بڑھ رہے ہیں ضمنی انتخابات میں جیت نے ثابت کیا ہے کہ عوام مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں
مسلم لیگ ن کی قیادت عوام کی توقعات پر پورا اترنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت کی کچھ اہم ترجیحات یہ ہیں:
عوام کی بہبود کے لیے کام کرنا,
ملک میں ترقی اور استحکام لانا,
عوام کی توقعات پر پورا اترنا,
ملک کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینا,
عوام کو بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا,
مسلم لیگ ن کی قیادت ان ترجیحات پر عمل کرتے ہوئے ملک کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام مسلم لیگ ن کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں
مسلم لیگ ن کی ضمنی انتخابات میں کامیابی کا ملک کی سیاسی صورتحال پر مثبت اثر پڑے گا۔ یہ کامیابی مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں مضبوط پوزیشن فراہم کرے گی اور ان کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایوان میں مستحکم اکثریت بنانے میں مدد کرے گی۔
مسلم لیگ ن کا قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے پیپلز پارٹی پر انحصار کم ہو جائے گا اور وہ اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے زیادہ آزاد ہو گی , اس کے علاوہ، مسلم لیگ ن کی کامیابی سے دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاکہ وہ عوام کی توجہ حاصل کر سکیں
مسلم لیگ ن کی ضمنی انتخابات میں کامیابی مستقبل میں بھی عوامی حمایت کی ضمانت ہے۔ عوام نے مسلم لیگ ن کی پالیسیوں اور کارکردگی پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے نوازا ہے۔
مسلم لیگ ن کی اس کامیابی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام ترقی اور استحکام کے راستے پر گامزن ہیں اور مسلم لیگ ن کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں, مسلم لیگ ن کی اس کامیابی سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے عوام کی توجہ حاصل کی ہے اور ان کی محنت اور بے لوث خدمت کو عوام نے سراہا ہے یہ کامیابی مسلم لیگ ن کے لیے مستقبل میں بھی عوامی حمایت کی امید دلاتی ہے
ضمنی انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے مختلف حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے جس میں مریم نواز کی کارکردگی کو عوام کی واضح ترجیح قرار دیا گیا ہے
مسلم لیگ ن کی ضمنی انتخابات میں کامیابی کے سیاسی مضمرات یہ ہیں کہ یہ کامیابی مسلم لیگ ن کے لیے ایک بڑی سیاسی کامیابی ہے اور یہ نشان دہی کرتی ہے کہ عوام مسلم لیگ ن کی پالیسیوں اور کارکردگی پر اعتماد کرتے ہیں
لیگی امیدواروں نے 20 ہزار سے 1 لاکھ 20 ہزار ووٹوں کی بڑی لیڈ سے کامیابی حاصل کی پاکستان مسلم لیگ ن نےضمنی الیکشن میں اپنے نتائج سے ثابت کیا ہے کہ میاں نواز شریف کے سیاسی وژن کی وجہ سےمسلم لیگ ن اب پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ہو چکی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات بھی اس کامیابی کے بعد ہوئی ہے، جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ یہ ملاقات اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی کامیابی کو سیاسی استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے
میاں نواز شریف کا سیاسی وژن پاکستان کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ وہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ان کا سیاسی سفر 1985 سے شروع ہوا جب وہ پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے نواز شریف کا سیاسی وژن بنیادی طور پر معاشی ترقی، قومی اتحاد، اور پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط بنانے پر مرکز ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں مختلف اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں، جن میں خصوصی طور پر نجی شعبے کی ترقی اور معاشی لبرلائزیشن شامل ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی اہم کردار ادا کیا سیاست کا مقصد ذاتی مفاد نہیں بلکہ عوامی فلاح ہونا چاہیے۔
عوام کی خدمت اور ترقیاتی منصوبے مسلم لیگ (ن) کی پہچان ہیں، عوام مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں ، عوام کی طاقت ہی اصل سرمایہ ہے اور ووٹ کے ذریعے ایک بار پھرعوام نےمسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہارکیاہے ن لیگ عوامی خدمت کے تسلسل اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے عوام کی توقعات پر ہمیشہ پورا اتری اور عوامی ترقی اور استحکام کا یہ سفر جاری رہے گا۔عوامی خدمت اور ترقی کے منصوبوں کے ذریعے ہی ملک کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار کے منصوبے آئندہ بھی پارٹی کی اولین ترجیح ہیں گے مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ عوام کی خدمت کو اپنی سیاست کا محور بنایا ہے۔ ترقیاتی منصوبے، تعلیمی اداروں کی بہتری اور صحت کی سہولیات کی فراہمی مسلم لیگ (ن) کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں مسلم لیگ (ن) عوامی خدمت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے
پنجاب میں ضمنی انتخابات کے آغاز کے ساتھ ہی صوبے کی قومی اور صوبائی نشستوں پر 20 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے اسی دوران، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ضابطہ اخلاق کے مطابق مسلح افواج کے جوان اُن پولنگ اسٹیشنز کے باہر تعینات رہے ، جنہیں ’انتہائی حساس‘ قرار دیا گیا ، اہلکاروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 245، قانون اور الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ مقررہ پولنگ اسٹیشنز کے باہر تعیناتی کے دوران، انہیں صرف محفوظ ماحول یقینی بنانے، قوانین کی مکمل پاسداری کرنے، ووٹرز کے تحفظ اور پولنگ کے دوران امن و امان برقرار رکھنے پر توجہ دینے کی ہدایت کی گئی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن ایک ریفرنڈم تھا، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے مسلم لیگ (ن) کے حق میں فیصلہ دیا۔ وزرا اور سیکریٹریز کے اجلاس سے خطاب کے دوران مریم نواز کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ مصنوعی طریقے سے پیدا جھوٹا بیانیہ پاش پاش ہوگیا، جھوٹے بیانیے سے ملک میں تنزلی آئی جب کہ پرفامرنس سے بہتر کوئی بیانیہ نہیں ہوتا۔ ضمنی الیکشن میں پنجاب اورخیبرپختونخواکے عوام نے ن لیگ کے حق میں فیصلہ کیا، یہ ضمنی الیکشن نہیں بلکہ ایک ریفرنڈم تھا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخاب میں ن لیگ کو تاریخی کامیابی ملی، 2024 میں ہاری ہوئی نشستیں (ن) لیگ نے دوبارہ جیتیں، الیکشن بیانیوں سے نہیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتا۔انہوں نے کہا کہ عمراندار ججز نہ ہونے سے الیکشن میں اصلیت کھل کر سامنے آگئی، الیکشن کا بائیکاٹ صرف ہار کے ڈر سے کیا جاتا ہے، الیکشن کا بائیکاٹ کرکے بھی پی ٹی آئی نے امیدوار کھڑےکئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدی نمبر 804 کی تصویر کے ساتھ انتخابی مہم چلائی گئی، مسلم لیگ (ن)پر بھی کڑا وقت آیا لیکن ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا، ہم نے جیل کاٹی لیکن الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ مزید کہا کہ ایک حدتک جھوٹ بولاجاسکتا ہےاس کےبعد بیانیہ ختم ہوجاتا ہے، الیکشن میں تحریک انصاف کے دعوے زمین بوس ہوگئے، وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ آج پنجاب کے ہر شہر میں گرین بسیں چل رہی ہیں، پنجاب کے کونے کونے میں صفائی ستھرائی کا کام کیا جارہا ہے، پنجاب کے ہسپتالوں میں مفت ادویات مل رہی ہیں، خیبرپختونخوا سے لوگ علاج کے لیے پنجاب آتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات میں میدان مارلیا، قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبلی کی 7 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے مکمل نتائج سامنے آگئے ہیں۔ غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی چھوڑی ہوئی تقریباً تمام نشستوں پر (ن) لیگ کے امیدوار کامیاب ہوگئے، پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کر سکی۔ این اے 129 پر مسلم ليگ (ن) کے حافظ میاں محمد نعمان، این اے 185 ڈیرہ غازی خان پر محمود قادر خان، این اے 143 ساہیوال پر محمد طفیل جٹ کامیاب ہوئے، این اے 104 فیصل آباد میں (ن) لیگ کے دانیال احمد اور این اے 96 میں بلال بدر چوہدری کو کامیابی ملی۔
پی پی 87 میانوالی پر علی حیدر نیازی، پی پی 98 فیصل آباد پر آزاد علی تبسم، پی پی 115 فیصل آباد میں طاہر پرویز کو کامیابی ملی۔
پی پی 116 فیصل آباد میں احمد شہریار، پی پی 203 ساہیوال میں محمد حنیف، پی پی 73 سرگودھا پر سلطان علی رانجھا جیت گئے، پی پی 269 مظفر گڑھ پر (ن) لیگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے میاں علمدار عباس قریشی کا پلڑا بھاری رہا۔ ضمنی انتخابات میں سب سے بڑا اَپ سیٹ خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں ہری پور کے حلقہ این اے 18 میں ہوا، جہاں پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی نشست پر ان کی اہلیہ شہرناز کو شکست ہوئی۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے بابر نواز خان حلقہ این اے 18 کے ضمنی انتخاب میں ایک لاکھ 63 ہزار 996 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ شہرناز عمر ایوب ایک لاکھ 20 ہزار 220 ووٹ حاصل کر سکیں۔ شہرناز عمر ایوب سابق قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کی اہلیہ ہیں، یہ نشست عمر ایوب کے نااہل ہونے پر خالی ہوئی تھی، عمر ایوب کو 9 مئی ہنگامہ آرائی کیس میں سزا سنائی گئی تھی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 129 لاہور کے تمام 334 پولنگ اسٹیشنز کے غیرحتمی غیر سرکاری نتائج سامنے آگئے، جس کے مطابق مسلم ليگ ن کے حافظ میاں محمد نعمان سب سے آگے رہے، انہوں نے 63 ہزار 441 ووٹ حاصل کیے جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ارسلان احمد 29 ہزار 99 ووٹ ووٹ لےکر دوسرے نمبر پر رہے۔ حلقہ این اے 129 کی یہ نشست پی ٹی آئی کے میاں اظہر کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی۔ حلقہ این اے 185 ڈیرہ غازی خان 2 میں بھی (ن) لیگ نے میدان مار لیا، غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ن لیگ کے محمود قادر خان 82 ہزار 416 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کے دوست محمد کھوسہ 49 ہزار 262 ووٹ لےکر دوسرے نمبر پر رہے۔ این اے 185 کی یہ نشست پی ٹی آئی کی زرتاج گُل کی نااہلی سے خالی ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 143 ساہیوال 3 کے غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق مسلم ليگ (ن) کے محمد طفیل جٹ ایک لاکھ 36 ہزار 223 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے, آزاد امیدوار ضرار اکبر چوہدری صرف 13 ہزار 220 ووٹ لےکر دوسرے نمبر پر رہے۔ این اے 143 کی یہ نشست پی ٹی آئی کے حسن نواز کی نااہلی سے خالی ہوئی تھی۔ حلقہ این اے 104 فیصل آباد 10 کی نشست بھی (ن) لیگ کے حصے میں آئی, جہاں غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے تحت ن لیگ کے دانیال احمد 52 ہزار 791 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جب کہ آزاد امیدوار رانا عدنان جاوید 19 ہزار 262 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ حلقہ این اے 96 فیصل آباد کے تمام 345 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج آگئے، غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق (ن) لیگ کے بلال بدر چوہدری سب سے زیادہ 93 ہزار 9 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، بلال بدر چوہدری وزیر مملکت طلال چوہدری کے بھائی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 87 میانوالی کے تمام 193 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج جاری ہوگئے، پنجاب اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار علی حیدر نور خان نیازی 67 ہزار 986 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جب کہ آزاد امیدوار محمد ایاز خان نیازی 3 ہزار 310 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اتحادی ہے، ہر موقع پر بھرپور ساتھ دیا، قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہيں، ضمنی الیکشن میں مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ سیاست میں دروازے کھلے رہتے ہیں، سیاست میں بات چیت اور مکالمے سے ہی معاملات آگے بڑھتے ہیں،
پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 98 فیصل آباد ون میں (ن) لیگ کے آزاد علی تبسم نے 44 ہزار 388 ووٹوں کے ساتھ کامیابی سمیٹ لی جب کہ ان کے مخالف آزاد امیدوار محمد اجمل 35 ہزار 245 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 115 فیصل آباد 18 کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق (ن) لیگ کے محمد طاہر پرویز کو 49 ہزار 49 ووٹ ملے، جبکہ آزاد امیدوار محمد اصغر صرف 18 ہزار 98 ووٹ ہی حاصل کرسکے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 116 فیصل آباد 19 کے تمام 190 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج بھی سامنے آگئے, جس کے مطابق (ن) لیگ کے احمد شہریار 48 ہزار 824 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جب کہ آزاد امیدوار ملک اصغر علی قیصر 11 ہزار 429 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ اس حلقے سے جیتنے والے لیگی امیدوار احمد شہریار وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کے داماد ہیں، اور یہ نشست پی ٹی آئی کے اسمٰعیل سیلا کی نااہلی سے خالی ہوئی تھی۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 203 ساہیوال 6 کے تمام 185 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم ليگ (ن) کے محمد حنیف 46 ہزار 900 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جب کہ آزاد امیدوار فلک شیر 10 ہزار 895 ووٹ لےکر دوسرے نمبر پر رہے۔ سرگودھا کے صوبائی حلقے پی پی 73 سے (ن) لیگ کےسلطان علی رانجھا 71 ہزار 770 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جب کہ آزاد امیدوار مہر محسن رضا 12 ہزار 970 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 269 مظفر گڑھ 2 میں (ن) لیگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس حلقے کے تمام 156 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے میاں علمدار عباس قریشی 55 ہزار 611 ووٹ حاصل کرکے جیت گئے۔ یاد رکھنا ضروری ہےکہ برصغیر میں مسلمانوں کے نا مساعد حالات کے پیش نظر ان کے سیاسی حقوق اورجدا گانہ حیثیت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 30دسمبر 1906 کو ایک جماعت تشکیل دی گئی تھی جس نے برصغیر کی آزادی کی تحریک کے دوران ہندو مسلم اتحاد کے خاتمے کے بعد کانگرس میں مسلمانوں کی نمائندگی کے فقدان کے پیش نظر مسلمانوں کے نظریات کو زبان دی جس کے نتیجے1930 ء میں علامہ اقبال کے الہ آباد خطاب میں پہلی بار ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا گیا جو تحریک پاکستان کے آغاز کا سبب بنا ۔ 1906 ء میں تشکیل پانے والی اسی جماعت کی جہد مسلسل نے 1940میں قرار داد پاکستان منظور کروائی اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے زیرک لیڈر کی قیادت میں 14اگست 1947ء کی روشن صبح برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے خواب کو تعبیر دی ۔ پاکستان کو خواب سے حقیقت بنانے والی یہ جماعت کوئی اور نہیں مسلم لیگ تھی ۔ پاکستان میں پہلی حکومت مسلم لیگ نے ہی بنائی تھی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل جبکہ لیاقت علی خان کو پہلا وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا ۔یہ مسلسل جدو جہد تھی جس نے اس جماعت میں اختلاف رائے کی آبیاری کی اور 1950 میں مسلم لیگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ نوزائیدہ ریاست کسی سیاسی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی اس وقت سرحدوں کی حفاظت ضروری تھی۔ نئی ریاست میں پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام آزادی کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا تھا دشمن کسی بھی وقت حملہ کر کے پاکستان کو ایک بار پھر برصغیر پاک و ہند کے نقشہ میں ضم کر سکتا تھا اس لیے کمانڈ فوج کے ہاتھ میں دی گئی۔ جسے مسلم لیگ کی حمایت حاصل تھی مارشل لاء کے دوران مسلم لیگ کو کنوینشن مسلم لیگ کا نام دے دیا گیا۔ 1970 میں بھٹو حکومت کے خاتمے اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے دوران مسلم لیگ نے ایک نئی شکل اختیار کی اور پاکستان کے مرکزی صوبہ پنجاب میں ایک بار پھر اپنی ایک سیاسی شناخت بنائی جس کی قیادت کا سہرا آگے آنے والی کئی دہائیوں کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سر تھا۔ 1988ء میں جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے جس دھڑے کی قیادت سنبھالی اسے 1993ء میں اپنے قائد کے نام کی مناسبت سے مسلم لیگ ن کا نام دے دیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد مسلم لیگ کو ملنے والی وہ واحد قیادت جس نے پاکستان کو تعبیر سے بڑھا کر تعمیر کے راستے پر گامزن کیا میاں نواز شریف کی قیادت ہے ۔
میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے 1990، 1997، اور 2013 میں تین بار انتخابات جیت کر حکومت بنائی اور ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو یقینی بنایا۔اداروں کی اصلاح اور نجکاری کی پالیسی اختیار کی ۔موٹر وے جیسی تجارتی اہمیت کی حامل شاہرات تعمیر کیں۔ متعدد رابطہ سڑکیں بحال کیں ۔ 1998 ء میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کر کے نا صرف ملکی دفاع کو مضبوط بنایا بلکہ پاکستان کو دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ توانائی کے فقدان پر کنٹرول کے لیے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور قائد اعظم سولر پاور جیسے پروجیکٹس لگائے۔ دہشت گردی کو کنٹرول کیا اور سب سے بڑھ کر سی پیک جیسے منصوبے کی راہ ہموار کی جو صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے پاکستان کی تعمیر کا یہ سفر آسان ثابت نہیں ہوا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی اور وہ جلاوطن ہو گئے۔2007 میں نواز شریف وطن واپس آئے اور 2013 میں دوبارہ جمہوری وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی تمام تر توجہ سی پیک ، توانائی کے بحران کے حل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز تھی۔ تاہم، 2017 میں پاناما لیکس کے بعد ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔ میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد ان کے بھائی میاں محمد شہباز شریف نے اپنے بھائی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالی۔ میاں محمد شہباز شریف مسکم لیگ کی قیادت سے قبل بڑے بھائی کی طرح پنجاب سے ناصرف اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوا چکے تھے بلکہ مسلسل 10سال تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بہترین منتظم کا اعزاز بھی حاصل کر چکے تھے ۔ پنجاب میں ان کی کارکردگی ہی ان کی پہچان تھی یہی وجہ تھی کہ صوبے میں ان کے بعد آنے والے وزیر اعلیٰ ان کا حوالہ دئیے بغیر عوام کو اپنا تعارف کروانے میں ناکام رہتے۔ میاں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ صوبے میں جو خدمات سر انجام دیں وہی ان کی پہچان بنیں۔

شہباز شریف نے پنجاب میں انفراسٹرکچر کے مثالی منصوبے متعارف کروائےصوبے کی معاشی ترقی میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ میٹرو بس سروس، سپیڈو اور اورنج لائن ٹرین کی شکل میں عالمی معیار کی سفری سہولیات فراہم کی گئیں۔ خصوصی اکنامک زونز اور کاروبار میں آسانی کے لیے ون ونڈو سروسز کا آغاز کیا اور سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کی۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وظائف، انڈومنٹ فنڈز ، مفت تعلیم اورمفت علاج کی سہولیات مہیا کیں ۔ دانش سکول جیسے سینٹرز آف ایکسیلنس بنائے گئے۔ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات استفادہ کرتے ہوئے صوبے کو پہلا لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال دیا۔ مظفر گڑھ جیسے نسبتا چھوٹے شہر میں طیب اردگان جیسے ہسپتال کا قیام ممکن بنایا۔ توانائی کے بحران پر کنٹرول کے لیے پہلی بار صوبائی سطح پر پاور پلانٹس لگائے گئے۔ دہشت گردی پر کنٹرول کے لیے اینٹی ٹیررازم فورس قائم کی گئی۔ شہباز دور میں ترقیاتی کاموں کی رفتار اور معیار کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جانے لگا۔ اس وقت کی اپوزیشن حکومت میں آنے کے باوجود شہبازشریف کی مقبولیت میں کوئی کمی لا سکی نا اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ہی کامیاب ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف مسلم لیگ ن کے اراکین نے شہباز شریف کی قیادت کو خوش دلی سے قبول کیا بلکہ 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بننے والے سیاسی پارٹیوں کے الائنس پی ڈی ایمنے بھی شہباز شریف کو اپنا نمائندہ بنایا اور پی ڈی ایم کی جانب سے وزیر اعظم منتخب کیا۔ اب جہاں شہباز شریف وفاق میں مسلم لیگ ن کے ایجنڈہ کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اسی طرح مریم نواز شریف پنجاب میں مسلم لیگ ن کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں اور اپنی کارکردگی میں اپنے چچا سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکی ہیں۔ عوامی بہبود کے وہ تمام منصوبے جو اب تک مسلم لیگ کے منشور کا حصہ تھے مریم نواز شریف کے دور میں انہیں حقیقت بنایا جا رہا ہے تعلیم اور صحت کے شعبہ جات اگرچہ نواز اور شہباز ادوار میں بھی کلیدی اہمیت کے حامل تھے تاہم مریم نواز کی جانب سے مزکورہ شعبہ جات کے بجٹ میں اضافے کے ساتھ اس کے استعمال کو مزید موثر بنانے کے لیے نصاب کے ساتھ اساتذہ کے مسائل اور پسماندہ طبقات کے طلب علموں کی تعلیمی کارکردگی میں حائل ہونے والی رکاوٹوں پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ بچوں کی ذہنی صلاحتیوں کی بہتری کے لیے غذائی قلت جیسے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس مقصد کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سکول غذائی پروگرام متعارف کروایا ۔ایسے سکول جو، زیرو، یا سنگل یا ٹو ٹیچر تھے اور وہاں طلبہ کی تعداد کافی عرصہ سے 100 سے نیچے تھی، انہیں مختلف اداروں ،این جی اوز اور افراد کے حوالے کیا تاکہ ان سکولوں کی کارکردگی میں بہتری کے ساتھ طلبہ کی تعداد میں اضافے کو یقینی بنایا جا سکے اور سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں تک لایا جا سکے ۔ سکولوں کی اصلاح کے اس منصوبہ کو سکولز ری آرگنائزیشن کا نام دیا گیا اساتذہ کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے سسٹم کو منظم بنانے اور کرپشن سے پاک کرنے کے لیے ای ٹرانسفر پالیسی متعارف کروائی گئی ہے جبکہ نصاب کو اپ ڈیٹ رکھنے اور خامیوں سے پاک کرنے ، اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے اور نئی بھرتیوں میں مسائل کی دوری کے لیے نئی تعلیمی پالیسی وضع کر دی گئی جس میں محکمہ تعلیم کے ایسے تمام مسائل کو زہر بحث لایا گیا ہے ۔ اس سب کے علاؤہ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے طلبہ میں اعلی تعلیم کی جانب رغبت پیدا کرنے کے لیے نا صرف لیب ٹاپ سکیم بحال کر دی بلکہ ان کی سفری مشکلات کو دور کرنے کے لیے موٹر سائیکلز کی فراہمی کے سلسلے کا بھی آغاز کیا دلچسپ بات یہ ہے کہ موٹر سائیکلز سکیم میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی بھر پور نمائندگی دی گئی ہونہار طالب علموں کے لیے بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم اور یوتھ لون پروگرام کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے ۔ جو نہ صرف ان کے تعلیمی اخراجات کے بوجھ کو کم کرنے میں معاون ہو گا بلکہ انھیں سمال بزنس سے استفادے کے مواقع بھی فراہم کرے گا۔ اس ضمن میں ٹیوٹا اداروں کی اپ گریڈیشن بھی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا ٹاپ ایجنڈہ ہے جو نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ فنی و پیشہ ورانہ تربیت کے زیادہ بہتر مواقعے مہیا کرے گی۔ ٹیوٹا کے تحت ٹریننگ پروگرامز کو عالمی منڈیوں کی ڈیمانڈ سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ تربیتی مقاصد کے ساتھ ساتھ روز گار کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ صحت کی سہولیات میں بہتری کے لیے ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دور میں بھی وقتا فوقتاً کی جاتی رہی ہے اپوزیشن دور میں بھی اس کا کافی شوروغوغا رہا ۔ یوں بھی اتنی بڑی آ بادی کے ساتھ ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت اور سہولیات میں اضافہ حکومت کا مستقل وظیفہ بن چکا ہے ۔وزیر اعلی مریم نواز شریف پہلے سے موجود ہسپتالوں کی حالت زار میں بہتری کے ساتھ پنجاب کے عوام کو مقامی سطح پر ایمرجنسی سروسز اور فوری علاج کی سہولیات کی فراہمی کے لیے فیلڈ ہسپتال اور کلینکس آن ویل متعارف کروارہی ہیں جو لوگوں کو گھروں کی دہلیز پر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے ۔ اس منصوبہ کے تحت پنجاب کے عوام گھر بیٹھے ایک موبائل ایپ کے ذریعے علاج و ادویات کی سہولت حاصل کر سکیں کے۔ چار سے پانچ ماہ کے اس مختصر دورانئے میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف پنجاب میں پاکستان کی پہلی ائیر ایمبولینس سروس کے آغاز کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ لاہور میں پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کے قیام کی تیاریاں مکمل ہیں ۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ اپنے عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مہنگائی پر کنٹرول کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہیں اس ضمن میں جہاں باقاعدہ انفورسمنٹ اتھارٹی کے تحت گراں فروشوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں وہیں بجلی کے بھاری بلوں سے نجات کے لیے سولر سسٹمز کی فراہمی کے سلسلے کا بھی آغاز کیا جا چکا ہے۔ کم آمدن والے بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی کےلیے ہاؤسنگ سکیمز کے لیے سرکاری زمینیں مہیا کی جا رہی ہے ہیں۔ مریم نواز شریف کا ایک اور بڑا کارنامہ آ ئی ٹی سٹی کا قیام بھی ہے ۔ جو دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو پنجاب میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرے گا اس طرح آ ئی ٹی سٹی کے قیام سے نا صرف نوجوانوں کے لیے تعلیم اور تحقیق کے نئے در وا ہونگے بلکہ صوبے میں سرمایہ کاری بھی بڑھے گی۔ کاروبار میں آسانی پیدا ہوگی ۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ غربت اور بیروزگاری پر کنٹرول کو ممکن بنائے گا۔آ ئی ٹی سٹی میں اکنامک اور انڈسٹریل زونز کے قیام اور کاروبار میں آسانی کے لیے ون ونڈو سروسز اسے مزید موثر بنائیں گی۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر تاریخ میں پہلی بار پنجاب کے ہر شہر، ہر گلی اور ہر محلے سے آ بادی کا ڈیٹا بیس تیار کیا گیاہے جو صوبے میں سماجی تحفظ کے منصوبہ جات کی کوریج کو بہتر بنائے گا۔ یاد ر ہے کہ بطور خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ایک بڑی ذمہ داری خواتین کے حقوق کا تحفظ بھی ہے جسے وہ روز اول سے یقینی بنا رہی ہیں۔ سیف سٹی اتھارٹی میں پہلے ورچوئل وویمن پولیس سٹیشن کا قیام اور وویمن سیفٹی ایپ کی سہولت مریم نواز شریف کے اپنی ہم صنفوں کے لیے بڑے اقدامات ہیں۔ مستقبل میں پنجاب میں بہت سے ایسے اقدامات دیکھے جائیں گے جو خواتین کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن پاکستان کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے ۔تعمیر و ترقی کا یہ سلسلہ اسی طرح سے جاری رہا تو وطن عزیز کا استحکام یقینی ہے یہ وجہ ہےکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے,

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X