اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان نے دفاعی صلاحیت, سفارت کاری اورجغرافیائی محلِ وقوع،کو بروئے کار لا کر عالمی سطح پر اپنی اسٹریٹجک اہمیت بحال کی ہے۔برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کثیر الجہتی خارجہ پالیسی کا ماہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عاصم منیر بدلتے عالمی نظام میں سب سے مؤثر اسٹریٹجک رہنما بن کر ابھرے ہیں جبکہ بدلتی عالمی سیاست نے مڈل پاورز کے لیے نیا مگر مشکل دور کھول دیا ہے۔فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ مڈل پاورز کے لیے یہ پیش رفت خاصی پیچیدہ ثابت ہو رہی ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر درمیانی طاقتوں کے سب سے کامیاب ملٹی الائنرز میں شامل ہیں، ٹرمپ کے غیر رسمی انداز کے ساتھ سب سے بہتر ہم آہنگ ہونے کا اعزاز پاکستان کے عسکری سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جاتا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر درمیانی طاقتوں کے لیے ایک کامیاب کثیر الجہتی اسٹریٹجسٹ کی واضح مثال ہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر مڈل پاورز کے لیے ایک کامیاب کثیر جہتی حکمتِ عملی کی واضح مثال ہیں، جریدے نے مڈل پاورز سفارتکاری کی بھی کامیاب مثال قرار دیا۔پاکستان کی قیادت واشنگٹن، بیجنگ، ریاض اور تہران کے درمیان بیک وقت روابط میں متحرک رہی، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے تیزی سے بدلتی عالمی سیاست میں پاکستان کے لیے نئے سفارتی مواقع پیدا کیے ہیں۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کی سفارتکاری کو بدلتے عالمی ماحول میں مؤثر انداز میں آگے بڑھایا، ٹرمپ کے ساتھ بر وقت خوش گفتاری اور نرم سفارتی رویہ مؤثر ثابت ہوا، پاکستان کی اس سفارتی کامیابی نے بھارت کو مایوس کیا۔ بھارت کے لیے درمیانی طاقت کا کھیل توقع سے زیادہ مشکل ثابت ہوا، ہندوستان بدلتے عالمی حالات اور ٹرمپ کے انداز سے ہم آہنگ نہ ہو سکا، اس سفارتی ناکامی کے باعث ہندوستان کو مڈل پاور حکمت عملی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی جریدے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت کی بہترین حکمت علمی کا اعتراف کیا ہے 2025 میں پاکستان نے عالمی سیاست میں دوبارہ اہم مقام حاصل کیا، مئی میں پاک بھارت کشیدگی نے پاکستانی دفاعی صلاحیت اور ساکھ کو مضبوط کیا، پاکستان نے کشیدگی کے دوران مؤثر سفارت کاری کے ذریعے واشنگٹن کا اعتماد بحال کر کے تعلقات کو نئی سمت دی۔ جنوبی ایشیا، خلیج اور وسط ایشیا تک رسائی میں کلیدی پل قرار دے کر امریکا نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو مرکزی حیثیت دی، پاکستان منفرد طور پر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان سنگم پر موجود ہے۔ پاکستانی بندرگاہیں خاص طور پر بلوچستان میں گوادر بہت بڑا اثاثہ ہے، گوادر سمیت ساحلی پٹی کی سٹریٹجک قدر بڑھنے سے بندرگاہی اور معدنی تعاون کے نئے امکانات سامنے آئے جبکہ پاکستان نے سی پیک کے ساتھ ساتھ کثیر الجہتی توازن برقرار رکھ کر قومی مفاد کی بنیاد پر نئے معاشی راستے کھولے۔ نومبر میں ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی شائع کی جس میں دنیا میں امریکا کے کردار اور مفادات پر روشنی ڈالی گئی، پاکستان ان قومی سلامتی کے مفادات کے حصول کے لیے امریکا کا کلیدی اتحادی ہوگا، ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ تبدیلی نے دنیا بھر کے میڈیا کی سرخیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا بھارت پاکستان کشیدگی میں شدت بڑھنے پر امریکا کو ڈی ایسکلیشن کے لیے فعال کردار اختیار کرنا پڑا جبکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر بات چیت کی گنجائش کا بیان پاکستان کی سفارتی پوزیشننگ اور موقف کی تائید ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر نفسیاتی برتری حاصل کر کے واشنگٹن میں مثبت فضا قائم کی جبکہ بھارت پیچھے رہ گیا، لابنگ اور پالیسی انگیجمنٹ کے ذریعے تعلقات کو وار آن ٹیرر کے فریم سے نکال کر اکانومی اور اسٹریٹجی کی طرف موڑا گیا۔ پاکستان اور امریکا نے نایاب زمینی معدنیات سے لے کر ریفائننگ اور پروسیسنگ کے لیے 500 ملین ڈالر کے شراکت داری فریم ورک کے کئی سودے کیے، معدنیات اور ریئر ارتھ تعاون کے فریم ورک کا ذکر دوطرفہ تعلقات کی عملی بنیاد کے طور پر سامنے آیا۔ ایگزم بینک نے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک میں کان کنی اور اہم معدنیات کے لیے 1.25 بیلن ڈالر کی فائنانسنگ کی منظوری دی، ریکوڈک میں ایگزم بینک فنانسنگ کی خبر سرمایہ کاری اعتماد اور روزگار کے بڑے امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلوچستان میں تیل کے امکانات پر امریکا پاکستان تعاون کا بیانیہ توانائی کے شعبے میں نئی امید کے طور پر سامنے آیا، پاکستان نے اسٹریٹجک خودمختاری کے ساتھ ری انگیجمنٹ کر کے امریکا کے ساتھ رشتے کو ’’پائیدار مفاد‘‘ کی سمت بڑھایا۔
پاکستان نے دفاعی صلاحیت, سفارت کاری اورجغرافیائی محلِ وقوع،کو بروئے کار لا کر عالمی سطح پر اپنی اسٹریٹجک اہمیت بحال کی ہے۔برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کثیر الجہتی خارجہ پالیسی کا ماہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عاصم منیر بدلتے عالمی نظام میں سب سے مؤثر اسٹریٹجک رہنما بن کر ابھرے ہیں جبکہ بدلتی عالمی سیاست نے مڈل پاورز کے لیے نیا مگر مشکل دور کھول دیا ہے۔فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ مڈل پاورز کے لیے یہ پیش رفت خاصی پیچیدہ ثابت ہو رہی ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر درمیانی طاقتوں کے سب سے کامیاب ملٹی الائنرز میں شامل ہیں، ٹرمپ کے غیر رسمی انداز کے ساتھ سب سے بہتر ہم آہنگ ہونے کا اعزاز پاکستان کے عسکری سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جاتا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر درمیانی طاقتوں کے لیے ایک کامیاب کثیر الجہتی اسٹریٹجسٹ کی واضح مثال ہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر مڈل پاورز کے لیے ایک کامیاب کثیر جہتی حکمتِ عملی کی واضح مثال ہیں، جریدے نے مڈل پاورز سفارتکاری کی بھی کامیاب مثال قرار دیا۔پاکستان کی قیادت واشنگٹن، بیجنگ، ریاض اور تہران کے درمیان بیک وقت روابط میں متحرک رہی، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے تیزی سے بدلتی عالمی سیاست میں پاکستان کے لیے نئے سفارتی مواقع پیدا کیے ہیں۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کی سفارتکاری کو بدلتے عالمی ماحول میں مؤثر انداز میں آگے بڑھایا، ٹرمپ کے ساتھ بر وقت خوش گفتاری اور نرم سفارتی رویہ مؤثر ثابت ہوا، پاکستان کی اس سفارتی کامیابی نے بھارت کو مایوس کیا۔ بھارت کے لیے درمیانی طاقت کا کھیل توقع سے زیادہ مشکل ثابت ہوا، ہندوستان بدلتے عالمی حالات اور ٹرمپ کے انداز سے ہم آہنگ نہ ہو سکا، اس سفارتی ناکامی کے باعث ہندوستان کو مڈل پاور حکمت عملی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی جریدے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت کی بہترین حکمت علمی کا اعتراف کیا ہے 2025 میں پاکستان نے عالمی سیاست میں دوبارہ اہم مقام حاصل کیا، مئی میں پاک بھارت کشیدگی نے پاکستانی دفاعی صلاحیت اور ساکھ کو مضبوط کیا، پاکستان نے کشیدگی کے دوران مؤثر سفارت کاری کے ذریعے واشنگٹن کا اعتماد بحال کر کے تعلقات کو نئی سمت دی۔ جنوبی ایشیا، خلیج اور وسط ایشیا تک رسائی میں کلیدی پل قرار دے کر امریکا نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو مرکزی حیثیت دی، پاکستان منفرد طور پر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان سنگم پر موجود ہے۔ پاکستانی بندرگاہیں خاص طور پر بلوچستان میں گوادر بہت بڑا اثاثہ ہے، گوادر سمیت ساحلی پٹی کی سٹریٹجک قدر بڑھنے سے بندرگاہی اور معدنی تعاون کے نئے امکانات سامنے آئے جبکہ پاکستان نے سی پیک کے ساتھ ساتھ کثیر الجہتی توازن برقرار رکھ کر قومی مفاد کی بنیاد پر نئے معاشی راستے کھولے۔ نومبر میں ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی شائع کی جس میں دنیا میں امریکا کے کردار اور مفادات پر روشنی ڈالی گئی، پاکستان ان قومی سلامتی کے مفادات کے حصول کے لیے امریکا کا کلیدی اتحادی ہوگا، ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ تبدیلی نے دنیا بھر کے میڈیا کی سرخیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا بھارت پاکستان کشیدگی میں شدت بڑھنے پر امریکا کو ڈی ایسکلیشن کے لیے فعال کردار اختیار کرنا پڑا جبکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر بات چیت کی گنجائش کا بیان پاکستان کی سفارتی پوزیشننگ اور موقف کی تائید ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر نفسیاتی برتری حاصل کر کے واشنگٹن میں مثبت فضا قائم کی جبکہ بھارت پیچھے رہ گیا، لابنگ اور پالیسی انگیجمنٹ کے ذریعے تعلقات کو وار آن ٹیرر کے فریم سے نکال کر اکانومی اور اسٹریٹجی کی طرف موڑا گیا۔ پاکستان اور امریکا نے نایاب زمینی معدنیات سے لے کر ریفائننگ اور پروسیسنگ کے لیے 500 ملین ڈالر کے شراکت داری فریم ورک کے کئی سودے کیے، معدنیات اور ریئر ارتھ تعاون کے فریم ورک کا ذکر دوطرفہ تعلقات کی عملی بنیاد کے طور پر سامنے آیا۔ ایگزم بینک نے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک میں کان کنی اور اہم معدنیات کے لیے 1.25 بیلن ڈالر کی فائنانسنگ کی منظوری دی، ریکوڈک میں ایگزم بینک فنانسنگ کی خبر سرمایہ کاری اعتماد اور روزگار کے بڑے امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلوچستان میں تیل کے امکانات پر امریکا پاکستان تعاون کا بیانیہ توانائی کے شعبے میں نئی امید کے طور پر سامنے آیا، پاکستان نے اسٹریٹجک خودمختاری کے ساتھ ری انگیجمنٹ کر کے امریکا کے ساتھ رشتے کو ’’پائیدار مفاد‘‘ کی سمت بڑھایا۔امریکی میگزین دی ڈپلومیٹ نے 2025 کو پاکستان کے لیے ایک اہم سال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کئی برسوں بعد دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے یہ سال پاکستان کے لیے سٹریٹجک واپسی اور عسکری اعتماد کا سال ثابت ہوا، جب عسکری قیادت نے ریاستی سطح پر انتہا پسندی کے خلاف واضح اور مضبوط پیغام دیا۔ آرمی چیف نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ “جہاد کا اعلان صرف ریاست کے پاس ہے”، جسے انتہا پسندی کے خلاف ایک اہم سنگِ میل قرار دیا گیا۔ عسکری قیادت نے ریاستی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا اور اس کے واضح وژن نے پاکستان کی ریاستی رٹ کو مضبوط کیا, اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ مئی 2025 میں ہونے والی فوجی جھڑپوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ پاک فوج کی کارکردگی نے عسکری توازن کو واضح کر دیا، اور اس نے داخلی چیلنجز کے باوجود پاکستان کی سٹریٹجک ساکھ اور ڈیٹرنس کو تقویت بخشی, بھارت کے خلاف پاکستانی فوج کی کامیاب کارکردگی نے نہ صرف پاکستان کی عسکری قیادت کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا، بلکہ عالمی دفاعی ماہرین کی توجہ بھی حاصل کی۔ پاکستان کی فوج کی کامیابیوں کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ، بھارت کے خلاف کامیاب کارکردگی کے بعد ہندوستان کے واشنگٹن سے تعلقات پر دباؤ آیا، اور پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے دفاعی معاہدوں کے ذریعے سٹریٹجک پیش رفت کی۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون نے پاکستان کا علاقائی کردار مضبوط کیا، اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے کی تکمیل ایک بڑی کامیابی قرار دی گئی ، پاکستان کے دفاعی سازوسامان کی عالمی سطح پر مانگ میں اضافہ ہوا اور چین نے جنگ کے دوران استعمال ہونے والے دفاعی ہتھیاروں کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کیا, سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لیے عالمی سطح پر سازگار ماحول بھی پیدا ہوا اور پاکستان کو غزہ سے متعلق عالمی کوششوں میں اہم فریق قرار دیا گیا،
افغانستان کے معاملے پر پاکستان نے اپنا واضح مؤقف اپنایا، اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کی پالیسی میں فیصلہ کن سختی آئی۔ پاکستان نے طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے مسلسل اقدامات کیے، جس نے عالمی سطح پر پاکستان کی حکمت عملی کو مؤثر ثابت کیا، پاکستان نے قطر، ترکی اور سعودی عرب کو ثالثی کردار میں شامل کر کے سرحد پار خطرات کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کیا اور دہشت گردی کے خلاف اندرونِ ملک نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، مختلف ممالک کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھایا گیااور اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت ہوئی، جس کے نتیجے میں معاشی مشکلات کے باوجود پی آئی اے کی نجکاری جیسے بڑے اقدامات نے ممکنہ طور پر پاکستان کی معیشت میں ایک نیا موڑ پیدا کیا، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ یقیناً ایک بڑی سفارتی اور دفاعی پیش رفت ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے، مگر اس معاہدے کی کامیابی کے لیے متوازن حکمتِ عملی، سفارتی تدبر، اقتصادی بصیرت اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دینا لازم ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو دفاع سے آگے بڑھ کر ترقی، امن اور علاقائی استحکام کے ایک جامع وژن میں ڈھالنا ہوگا، تاکہ یہ معاہدہ صرف تاریخ کا حصہ نہ بنے، بلکہ ایک مؤثر اورکامیاب اشتراکِ عمل کی روشن مثال بن سکے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف ایک دوسرے کی سیکیورٹی کو مضبوط بناتا ہے بلکہ خطے میں عسکری توازن، سفارتی رابطہ کاری اور استحکام کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ یہ دفاعی اتحاد دراصل غیر یقینی عالمی حالات کے مقابل ایک حفاظتی ڈھال بھی ہے اور اسلامی دنیا میں باہمی تعاون کے فروغ کی ایک امید بھی ہے. پاکستان کی سفارتی محاذ پر کامیابی نئے عہد کا آغازہے موجودہ حکومت کے اقدامات اورمعاشی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان 2026ء میں عزت اور فخر کے ساتھ داخل ہونے جا رہا ہےمالی سال 2026/27 کیلئے ترقی کی رفتار 3.4 فیصد تک تیز ہونے کی توقع ہے جسے زیادہ زرعی پیداوار، کم مہنگائی اور شرح سود، صارفین اور کاروباری اعتماد کی بحالی اور نجی کھپت اور سرمایہ کاری میں اضافے سے مدد ملے گی۔ آئندہ کے لیے پاکستان جو تاریخی طور پر پیچیدہ ڈھانچے کے ساتھ بلند محصولات رکھتا رہا ہے، حال ہی میں منظور ہونے والے پانچ سالہ اصلاحاتی منصوبے (2025–2030) کے ذریعے محصولات کو نصف کرنے سے برآمدات اور اقتصادی نمو کے حوالے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کے صنعتی شعبے میں مثبت اور حوصلہ افزا پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے، جسے معاشی استحکام اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت کی جانے والی معاشی اصلاحات کے اثرات اب عملی طور پر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، جس سے نہ صرف صنعتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے بلکہ ملکی و غیر ملکی صنعت کاروں کے اعتماد میں بھی واضح اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق مضبوط ہوتی ہوئی معاشی بنیادیں اور صنعت کے شعبے میں تسلسل کے ساتھ بہتری، قومی خوشحالی کی جانب بڑھتے ہوئے سفر کی عکاسی کرتی ہیں صنعتی پیداوار میں اضافہ محض اعداد و شمار تک محدود نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں قیمتی زرمبادلہ کے حصول، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے اور معاشی خودمختاری کے اہداف کے حصول میں بھی مدد ملتی ہے۔ موجودہ حالات میں صنعتی شعبے کی بحالی کو مجموعی معیشت کے لیے ایک خوش آئند علامت سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بڑے پیمانے کی صنعتوں میں مسلسل دوسرے ماہ نمایاں اور ریکارڈ بہتری سامنے آئی ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی سال بہ سال شرحِ نمو 8.3 فیصد رہی، جو صنعتی سرگرمیوں میں نمایاں تیزی کا ثبوت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صنعتی پہیہ ایک بار پھر پوری رفتار سے گھومنا شروع ہو گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے اکتوبر 2025 کے دوران لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں مجموعی طور پر 5.02 فیصد مستحکم اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس دوران آٹوموبیل سیکٹر میں غیر معمولی بہتری دیکھی گئی، جہاں پیداوار میں 78.89 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ اس نمایاں پیش رفت کو سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے اعتماد کی بحالی کا واضح ثبوت قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ طویل عرصے بعد گاڑیوں کی صنعت میں طلب اور پیداوار دونوں میں نمایاں توازن نظر آیا ہے۔ اسی طرح برآمدی شعبے سے وابستہ صنعتوں میں بھی مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ برآمدی طلب میں اضافے کے باعث اکتوبر کے دوران گارمنٹس کی پیداوار 10.99 فیصد تک پہنچ گئی، جو ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعت کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب نہ صرف برآمدات میں اضافے کا ذریعہ بنے گی بلکہ ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ علاوہ ازیں توانائی کے شعبے سے وابستہ صنعتوں میں بھی نمایاں بہتری ریکارڈ کی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں 12.25 فیصد اضافہ ہوا جب کہ ڈیزل، جیٹ فیول اور ایل پی جی کی پیداوار میں بھی واضح تیزی دیکھنے میں آئی۔ اس پیش رفت کو صنعتی سرگرمیوں میں مجموعی اضافے اور توانائی کی طلب میں بہتری سے جوڑا جا رہا ہے، جو معاشی سرگرمیوں کے پھیلاؤ کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر موجودہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا اور اصلاحاتی عمل اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو آئندہ مہینوں میں صنعتی شعبہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار مزید مضبوطی سے ادا کرے گا۔ سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رجحان اور صنعت کاروں کے بحال ہوتے اعتماد کو پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے ایک روشن اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، جو ترقی، روزگار اور استحکام کی نئی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔ امریکی جریدے “فارن پالیسی” نے پاکستان کے معدنی وسائل کو عالمی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ان ذخائر کی قدر و قیمت کو تسلیم کیا جا رہا ہے، جو مستقبل میں پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت آج تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر اہم کردار ادا کیا ہےسیاسی اور عسکری قیادت نےملک کے معاشی استحکام اور دیوالیہ پن کو روکنے کے لیے ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیاہے۔ پاکستان جسے شدید اقتصادی چیلنجوں کا سامنا تھا سیاسی اور عسکری قیادت نےشدید اقتصادی کے تناظر میں اہم اقدامات کیے بحرانوں سے نمٹنے، بین الاقوامی امداد کے حصول اور ترقی کے لیے مرکزی کردار ادا کیاہے۔
پاکستان کو قرضوں کی بلند سطح اور ساختی مسائل کی وجہ سے ڈیفالٹ کے مستقل خطرے کا سامنا تھا ، لیکن سیاسی اور عسکری قیادت نے دیوالیہ ہونے کے خطرے کو کم کیا رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کے معدنی ذخائر 2 لاکھ 30 ہزار مربع میل پر محیط ہیں، جو برطانیہ کے رقبے سے دوگنا ہیں, یہ ذخائر بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مواقع فراہم کرتے ہیں، معاشی سرگرمیوں کو غیر مقفل کرنے کے لیے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے منصوبے جاری ہیں۔ ایک کمیٹی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے دیوالیہ پن اور کارپوریٹ بحالی کے مؤثر قوانین متعارف کرانے پر کام کر رہی ہے۔ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوجی قیادت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قیام کے ذریعے معاشی فیصلہ سازی میں ایک فعال، رسمی کردار ادا کیا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا مقصد “سنگل ونڈو” آپریشن فراہم کر کے زراعت، کان کنی اور توانائی جیسے اہم شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری خاص طور پر خلیجی ممالک کو راغب کرنا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل پاکستان میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، معیشت کو مستحکم کرنے اور مختلف شعبوں (زراعت، آئی ٹی، معدنیات، توانائی، دفاع) میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے قائم کی گئی ایک ادارہ ہے جس میں سول و عسکری قیادت مشترکہ طور پر کام کرتی ہے، جس کا مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرنا، غذائی قلت کو دور کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے۔حکومتی اور فوجی حکام اکثر بیان کرتے ہیں کہ حکومت نے “ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا” اور یہ کہ فعال کوششیں معاشی بحالی کا باعث بن رہی ہیں، جو مہنگائی میں کمی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ غیر مساوی ٹیکس نظام، توانائی کے شعبے میں مسلسل نقصانات اور سیاسی اتفاق رائے کی کمی جیسے مسائل اہم چیلنجز ہیں جو خطرات کو کم کرنے اور نجی قیادت میں پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط سیاسی اتفاق رائے سے حمایت یافتہ اصلاحات کے مستقل نفاذ کی ضرورت ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے قرض کی نئی قسط کی منظوری اور منتقلی کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے اپنے پروگرام کا دوسرا جائزہ شائع کیا ہے جس میں ان کی سٹاف لیول رپورٹ میں پاکستان کے لیے لگ بھگ گیارہ نئی شرائط تجویز کی گئی ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق آئی ایم ایف کی اس گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ سے ہے جو عالمی مالیاتی ادارے نے رواں برس حال ہی میں جاری کی تھی جسے پاکستان کی وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا گیا تھا رپورٹ میں پاکستان کے کئی حکومتی اداروں میں کرپشن کے حوالے سے درپیش مشکلات اور پاکستان میں قانونی اور حکومتی نظم و ضبط میں کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہےآئی ایم ایف نے اپنے دوسرے ریویو اور سٹاف لیول جائزے میں کہا ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس رپورٹ کو مقررہ ڈیڈ لائن کے بعد شائع ضرور کیا ہے تاہم اس کے لیے ‘ایکشن پلان’ تاحال ترتیب نہیں دیا۔
آئی ایم ایف کی شرط یہ تھی پاکستانی کی حکومت کے کہنے پر ترتیب دی جانے والی اس رپورٹ کو حکومت پہلے شائع کرے گی اور اس کے بعد اس میں جن کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے خاتمے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنائے گی، جو کہ ایک عوامی دستاویز ہو گی۔ 2035 تک ملک کی جی ڈی پی تین گنا بڑھ کر ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی اور اگر یہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں کوئی غریب نہیں رہے گا مگر فی الوقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ ملکی آبادی کا 40 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے جبکہ پاکستان اس وقت کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت فان گرو کی زراعت اور مویشیوں سے متعلق سرگرمیاں جاری ہیں۔ پاکستان کی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل گرین پاکستان انیشیٹیو کے ذریعے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹیو کا مقصد پاکستان میں غذائی قلت کو ختم کرنا ، غذائی اجناس کی درآمدات کو کم کرنا اور برآمدات کو بڑھانا ہے۔ پریسیژن ایگریکلچر کا طریقہ فصل کی پیداوار کو بہتر بنانے اور اعلی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، مزدوری کے وقت کو کم کرنے اور کھادوں اور آبپاشی کے عمل کے موثر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے اپنایا گیا ہے۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام ملک کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ایک جامع اور تیز رفتار اقدام ہے، جس کے تحت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوج کی شراکت بھی شامل ہے۔اسکا مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا، متعلقہ حکام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس میں ایپکس کمیٹی وزیراعظم کی سربراہی میں، ایگزیکٹو کمیٹی اور عمل درآمد کمیٹی شامل ہیں۔ زراعت گرین پاکستان انیشیٹو، آئی ٹی، توانائی، معدنیات، دفاع اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری پر فوکس ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت جدید زراعت کو فروغ دینا، غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانا اور درآمدات کم کرنا, سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنا ہےاہم خصوصیات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوج کی شراکت بھی شامل ہے۔ مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا، متعلقہ حکام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس میں ایپکس کمیٹی وزیراعظم کی سربراہی میں ، ایگزیکٹو کمیٹی اور عمل درآمد کمیٹی شامل ہیں۔ زراعت گرین پاکستان انیشیٹو ، آئی ٹی، توانائی، معدنیات، دفاع اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری پر فوکس ہے۔
گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت جدید زراعت کو فروغ دینا، غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانا اور درآمدات کم کرنا۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنے شامل ہے
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قیام کا مقصدملک کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ایک جامع اور تیز رفتار اقدام ہے، جس کے تحت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل پاکستان میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، معیشت کو مستحکم کرنے اور مختلف شعبوں زراعت، آئی ٹی، معدنیات، توانائی، دفاع میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ادارہ ہے جس میں سول و عسکری قیادت مشترکہ طور پر کام کرتی ہے، جس کا مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرنا، غذائی قلت کو دور کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔ اعلامیے کے مطابق ’سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ کے نام سے بنائی گئی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں ’گلف کوآپریشن کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا تھااور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے معدوم ہوتے امکانات کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے تھے وزیر اعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی تھیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف خود کرتے ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اس کا حصہ بنایا گیا ایپکس کمیٹی کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی بنائی گئی جس میں وفاقی وزرا برائے دفاع، آئی ٹی، توانائی کے علاوہ وزرائے مملکت برائے پیٹرولیم اور امور خزانہ شامل ہیں ان کے علاوہ صوبائی وزرا برائے زراعت، معدنیات، آئی ٹی، توانائی، امور خزانہ، منصوبہ بندی اور تمام چیف سیکریٹری بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ تیسری سطح پر ایک عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پاکستان فوج کے ایک ڈائریکٹر جنرل، وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی اور کونسل کے سیکریٹری، جو 21ویں گریڈ کے افسر ہوں گے، شامل ہیں۔پاکستان میں اس وقت جو ’اتھاریٹرین پاور شیئرنگ‘ انتظام ہے اسے برقرار رکھنے کے لیے ڈالر کی ضرورت ہے۔موجودہ نظام کو اپنے آپ کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ترقی کا ایک بیانیہ چاہیے اور یہ اس وقت ممکن ہو گا جب بیرون ملک سے ڈالر ملیں جو خلیجی ممالک سے مل سکتے ہیں جو اب کیش دینے کی بجائے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ایسا کر سکتے ہیں۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت فان گرو کی زراعت اور مویشیوں سے متعلق سرگرمیاں جاری ہیں۔ پاکستان کی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل گرین پاکستان انیشیٹیو کے ذریعے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹیو کا مقصد پاکستان میں غذائی قلت کو ختم کرنا ، غذائی اجناس کی درآمدات کو کم کرنا اور برآمدات کو بڑھانا ہے۔ پریسیژن ایگریکلچر کا طریقہ فصل کی پیداوار کو بہتر بنانے اور اعلی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، مزدوری کے وقت کو کم کرنے اور کھادوں اور آبپاشی کے عمل کے موثر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے اپنایا گیا ہے۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام ملک کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ایک جامع اور تیز رفتار اقدام ہے، جس کے تحت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوج کی شراکت بھی شامل ہے۔اسکا مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا، متعلقہ حکام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس میں ایپکس کمیٹی وزیراعظم کی سربراہی میں، ایگزیکٹو کمیٹی اور عمل درآمد کمیٹی شامل ہیں۔ زراعت گرین پاکستان انیشیٹو، آئی ٹی، توانائی، معدنیات، دفاع اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری پر فوکس ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت جدید زراعت کو فروغ دینا، غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانا اور درآمدات کم کرنا, سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنا ہےاہم خصوصیات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوج کی شراکت بھی شامل ہے۔ مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا، متعلقہ حکام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس میں ایپکس کمیٹی وزیراعظم کی سربراہی میں ، ایگزیکٹو کمیٹی اور عمل درآمد کمیٹی شامل ہیں۔ زراعت گرین پاکستان انیشیٹو ، آئی ٹی، توانائی، معدنیات، دفاع اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری پر فوکس ہے۔
گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت جدید زراعت کو فروغ دینا، غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانا اور درآمدات کم کرنا۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنے شامل ہے
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قیام کا مقصدملک کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ایک جامع اور تیز رفتار اقدام ہے، جس کے تحت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل پاکستان میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، معیشت کو مستحکم کرنے اور مختلف شعبوں زراعت، آئی ٹی، معدنیات، توانائی، دفاع میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ادارہ ہے جس میں سول و عسکری قیادت مشترکہ طور پر کام کرتی ہے، جس کا مقصد سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرنا، غذائی قلت کو دور کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔ اعلامیے کے مطابق ’سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘ کے نام سے بنائی گئی اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں ’گلف کوآپریشن کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا تھااور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے معدوم ہوتے امکانات کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے تھے وزیر اعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی تھیں جن میں اولین ایپکس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف خود کرتے ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اس کا حصہ بنایا گیا خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی تشکیل میں پاک آرمی کی اعلیٰ قیادت کا نہایت اہم اور بنیادی کردار ہے۔ کونسل کی تشکیل کے دوبنیادی مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد ملکی معیشت کی بحالی اور دوسرا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ملکی معیشت کی بحالی میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس اہم معرکہ کو سرکرنے کیلئے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت اور ادارے دن رات کوشاں اور مصروف عمل ہیں۔ ملکی تاجروں کے ساتھ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ملاقاتیں ان ہی کوششوں کا حصہ تھیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں مسلسل اضافہ بھی ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جن میں ملک سے ڈالر کی اسمگلنگ کو سختی سے روکنا بھی شامل ہے۔ ایس آئی ایف سی کے اقدامات وقتی اور عارضی نہیں بلکہ یہ ملکی معیشت کے پائیدار مستقبل کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کونسل کا قیام اور اس کے اقدامات سے ملک کی معیشت کی نئی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ اس کونسل کے اقدامات کی بدولت پاکستان معاشی ترقی کے نئے دور میں داخل ہونے جارہا ہے۔ ایس آئی ایف سی کی توجہ سب سے پہلے معیشت کی بحالی اور پھر ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی ہے۔ اس لئے اندرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ دفاع ، آئی ٹی، زراعت، معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں خلیجی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک سے سرمایہ کاری کرنے پر خصوصی توجہ بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے تین خصوصی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ان میں اہم ترین ایپکس کمیٹی ہے جس کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو خصوصی دعوت دے کر ایپکس کمیٹی کا حصہ بنایاگیا ہے۔ دوسری اہم کمیٹی عملدرآمد کمیٹی ہے جس میں پاک فوج کے ایک اہم ادارے کے ڈائریکٹر جنرل، وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی اور کونسل کے سیکرٹری گریڈ21کے افسر شامل ہیں۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے معدنیات، زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ ممالک ان شعبوں میں25ارب ڈالرزابتدائی طور لگانے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ایس آئی ایف سی ایک اعلیٰ سطح کی کونسل ہے جو اعلیٰ عسکری اور اعلیٰ حکومتی ،اہم ترین شخصیات کی نگرانی میں قائم کی گئی جس طرح یہ کونسل شب وروز ملکی معیشت کی بحالی کیلئے کوششوں میں مصروف ہے ان کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہےکہ ملک میں سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹیں اب جلد ہی دور ہوجائیں گی اور سرمایہ کاری سے ملک کی معیشت ہی بحال نہیں ہوگی بلکہ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی طرف بھی گامزن ہونا شروع ہوجائے گا۔ملک میں کاروبار چل پڑےگا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا بتدریج خاتمہ ہوگا۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی ملکی معیشت کی بحالی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ایس آئی ایف سی کے پیش نظر یہ بھی ہے کہ ایسی پالیسیاں تشکیل دی جائیںجو غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش حالات پیدا کریں۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاری کے فوائد ملکی سرمایہ کاروں کوبھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ اکثر غیر ملکی کمپنیاں اور ادارے ملکی سرمایہ کاروں او ر صنعت کاروں نیز زراعت کے پیشے سے منسلک افراد کے ساتھ شراکتی منصوبے بناتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ مل کر ان منصوبوں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔حکومت کے زیر انتظام چلنے والے بعض اداروں کی نجکاری کے عمل کو بھی تیز کیا جارہا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس کے موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک فوج ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کیلئے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی ۔ آرمی چیف کا یہ عزم ملکی معیشت کی بحالی اورترقی کیلئےان کی سنجیدہ کوششوں کا مظہر ہے۔
پاکستانی معیشت ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے، حکومت کی اصلاحاتی پالیسیوں کے باعث پاکستان میں معاشی استحکام آنے لگا ہے جب کہ عالمی سطح پر بھی اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ امریکی جریدے یو ایس اے ٹو ڈے کے مطابق؛ پاکستان نئی بنیادوں پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بہترین اصلاحات اور نجی شعبے میں جدت پاکستان میں سرمایہ کاری کے منظرنامے کو بدل رہی ہیں، پاکستان مستحکم ادارہ جاتی نظم و ضبط، بہتر میکرو اکنامک صورتحال اور اہم شعبوں میں مضبوط قیادت کے ساتھ 2026 میں داخل ہو رہاہے۔ یہ تمام عوامل پاکستان کو طویل مدتی سرمایہ کاری کیلئے مضبوط اور مواقع سے بھرپور مارکیٹ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، پاکستان میں بینکنگ کے شعبے نےڈیجیٹل رجحان کے تحت صارفین کو جدید سہولیات فراہم کی ہیں، پاکستان کا ٹیکنالوجی اور آؤٹ سورسنگ شعبہ بھی بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کر رہا ہے۔یو ایس اے ٹو ڈے کے مطابق یہ تمام اقدامات پاکستان میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کا اہم ستون ہیں، مستحکم توانائی کی فراہمی مینوفیکچرنگ، لاجسٹکس، اور برآمداتی خدمات میں نئے مواقع پیدا کر رہی ہے، میکرو اکنامک استحکام بہتر ہونے سے بڑے مینوفیکچررز بھی آٹوموٹیو صنعت میں سرمایہ کاری کر رہےہیں۔ یو ایس اے ٹو ڈے نے کہا کہ ٹیکسٹائل، فرٹیلائزر، پیکجنگ، اور ویلیو ایڈڈ فوڈ پروڈکشن جیسے تیزی سے بڑھتے شعبوں میں بھی ترقی دیکھی جا رہی ہے، پاکستان میں معدنیات ایک اور تیزی سے بڑھتا ہوا شعبہ ہے، پاکستان میں ہاؤسنگ مارکیٹ بھی اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھا رہی ہے۔ یو ایس اے ٹو ڈے کے مطابق پاکستان میں سیاحت اور ہوٹلنگ میں بھی اہم مواقع سامنے آ رہے ہیں، پاکستان نجی شعبے کے ساتھ طویل مدتی ترقی کی بنیادیں مضبوط کر رہا ہے، نجی شعبہ زیادہ مضبوط، ٹیکنالوجی سے بھر پور اور عالمی دنیا سے ہم آہنگ ہو رہاہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی ایک متحرک عمل ہے جس میں چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں؛ حالیہ پیش رفت میں آئی ایم ایف کی جانب سے اصلاحات کو سراہا گیا ہے اور ترقی 3.6% تک متوقع ہے، جبکہ زرعی، ٹیکسٹائل، معدنیات اور ٹیکنالوجی کے شعبے ترقی کر رہے ہیں، لیکن مہنگائی، سبسڈی کا خاتمہ اور علاقائی کشیدگی جیسے عوامل معیشت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں