LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کےدورہ سےسرمایہ کاری منصوبوں پر پیشرفت

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کا پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ دونوں برادر ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کو نئی جہت دینے کی امید لے کر آیا ہے، جس میں متحدہ عرب امارات کے صدر نے سرمایہ کاری، توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں پر پیش رفت کے حوالے سے بات چیت کی ، ساتھ ہی ساتھ دوطرفہ سٹریٹجک تعلقات اور علاقائی استحکام پر بھی مشاورت ہوئی، صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس دورے سے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، ترقی اور علاقائی استحکام کے شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ ملنے کی توقع ہے.وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان پاکستان پہنچے تو معزز مہمان کا پروقار استقبال کیا گیا۔فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے یو اے ای صدر کے طیارے کو حصار میں لے کر فضائی سلامی پیش کی وزیراعظم محمد شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ سید عاصم منیر سمیت وفاقی وزراء نے متحدہ عرب امارات کے صدر کا نور خان ایئر بیس پر استقبال کیا، اماراتی صدر کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی، گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید ہوائی اڈے پر موجود وفاقی وزراء سے بھی بالمشافہ ملے، شیخ محمد بن زاید کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ تھا، انہوں نے استقبال کے لیے موجود پاکستان کی مختلف ثقافتوں کے نمائندہ بچوں بچیوں سے اظہار شفقت کیا۔ صدر متحدہ عرب امارات کے ہمراہ وزرا اور سینئر حکام پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان آیا تھا، دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور عالمی سطح پر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیاسال 2025 میں عالمی رہنما کایہ دورہ پاکستان کیلئے معاشی اعتماد کا بڑا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔سال 2025 پاکستان کی سفارتکاری کے حوالے سے انتہائی اہم سال رہا، سال کے شروع میں ہی پاکستان نے علاقائی ممالک کو خاص طور دوطرفہ اور سہ فریقی مذاکرات کے حوالے سے انگیج کیا۔ سال 2025 میں 9 عالمی رہنماؤں نے پاکستان کے دورے کئے جن میں سب سے پہلا دورہ 12 سے 13 فروری کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا تھا اس دورے میں تجارت، سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کیلئے اقدامات، باہمی تجارت کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھانے، دفاعی پیداوار اور عسکری شراکت داری پر متعدد معاہدے کئے گئے، دورے کے دوران 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے، ساتھ ہی ساتھ علاقائی اور عالمی امور، بالخصوص فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ مؤقف بھی اپنا گیا۔20 سے 21 اپریل متحدہ عرب امارات کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔دورے کے دوران دوطرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور مسلم دنیا کے معاملات پر مشاورت کی گئی، ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کاری، افرادی قوت اور تجارتی تعاون پر بھی بات چیت ہوئی۔2 سے 3 اگست کو ایران کے صدر مسعود پزشکیان پاکستان کے دورے پر آئے، اس دورے کے دوران پاک ایران تجارت کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔اس کے علاوہ دوطرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق ہوا، دورے کے موقع پر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور عوامی و ثقافتی تعلقات کو اجاگر کیا گیا، یہ دورہ معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے اہم رہا۔ایرانی صدر کی آمد سے قبل، ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے 5 مئی کو پاکستان کا دورہ کیا تھا، اس دورے میں خطے میں کشیدگی، سرحدی صورتحال اور سفارتی ہم آہنگی پر گفتگو کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ سرحدی تعاون اور امن و امان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔25 سے 26 نومبر ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری اور انتہائی اہم رہنما ڈاکٹر اردشیر علی لاریجانی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں دوطرفہ معاملات پر بات چیت کی گئی، مجموعی طور پر یہ سال پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اچھا ثابت ہوا۔8 سے 9 ستمبر قازقستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ مورات نورتلیو نے پاکستان کا دورہ کیا، جس میں انہوں نے صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں، دورے کے دوران وسطی ایشیا تک رسائی، تجارت اور توانائی تعاون پر گفتگو ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ علاقائی روابط اور مستقبل کے اعلیٰ سطح دوروں کی تیاری کے سلسلے میں بات چیت بھی ہوئی۔2 سے 4 اکتوبر ملائیشیا کے وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم پاکستان کے دورے پر تشریف لائے، جس میں دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، صحت، دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات کی۔دورے کے دوران دونوں حکومتوں نے مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کئے، جن میں حلال صنعت، چھوٹے و درمیانے کاروبار، سیاحت اور سفارتی تربیت شامل ہیں، جبکہ سیاسی سطح پر علاقائی امن، استحکام اور عالمی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔اس کے علاوہ اقتصادی پیش رفت کے طور پر ملائیشیا نے پاکستان سے زرعی مصنوعات اور حلال گوشت کی برآمدات بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا، اس طرح یہ دورہ پاکستان ملائیشیا تعلقات کو مضبوط کرنے اور باہمی شراکت داری کو عملی شکل دینے کا اہم سنگ میل ثابت ہوا۔24 اکتوبر کو پولینڈ کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ رادوسلاو سیکورسکی نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں پاکستان یورپی یونین تعلقات اور عالمی سفارتی تعاون پر بات چیت ہوئی، ساتھ ہی ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔15 سے 16 نومبر اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان میں اُن کا پُرتپاک استقبال کیا گیا، دورے کے دوران مشرقِ وسطیٰ، غزہ اور فلسطین کی صورتحال پر ہم آہنگ مؤقف اپنایا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے صدر کا دورہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے حالات کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے سے اس سارے ریجن میں کئی پیغامات گئے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ایران اور یمن کے معاملات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں جب کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی معاملات خاصے پیچیدہ اور گھمبیر ہیں۔ متحدہ عرب امارات خلیج کا ایسا ملک ہے جس کے ان سارے ممالک اور خطوں میں گہرے مفادات بھی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ان کے دورے کی اہمیت کو سمجھنا مشکل کام نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ دورہ ایک روز کے لیے ہے لیکن اس سے جو پیغامات ملے ہیں، وہ خاصے اہم ہیں۔ پہلا پیغام تو یہ ہے کہ یو اے ای کے صدر نے خود یہاں آ کر ظاہر کیا ہے کہ یو اے ای اور پاکستان کے درمیان گہرے دوستانہ اور تجارتی تعلقات ہیں جب کہ اسٹرٹیجک معاملات میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ فلسطین کے تنازعے میں بھی دونوں ملکوں کا مؤقف ایک جیسا ہے۔ یو اے ای کے صدر کا استقبال بھی غیرمعمولی تھا۔ جیسے ہی شیخ محمد بن زاید النہیان کا طیارہ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو جے ایف 17تھنڈر طیاروں نے انھیں سلامی دی۔ نور خان ایئر بیس پر باضابطہ استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا، دونوں ممالک کے قومی ترانے بھی بجائے گئے۔ دورے کے دوران متحدہ عرب امارات کے صدر نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ عالمی و علاقائی امور پر بھی بات چیت کی گئی۔

 

شیخ محمد بن زاید النہیان کے پاکستان کے پہلے سرکاری دورے کے موقع پر حکومت پاکستان کی جانب سے خصوصی استقبالی نغمہ جاری کیا گیا۔
نغمے کے بول اہلاً و سہلاً، مرحبا پر مشتمل ہیں۔ اس نغمے کے ذریعے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے برادرانہ تعلقات، باہمی احترام اور تعاون کے مضبوط رشتے کو اجاگر کیا گیا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو یہ غیرمعمولی استقبال بہت سے پیغامات اور اشاروں کا مرقع ہے۔ یو اے ای کے صدر کے اس دورے پر صحافتی حلقے سب کا اس معاملے پر اتفاق ہے کہ مستقبل میں پاکستان اور یو اے ای کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ دورے کے دوران یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان اور وزیراعظم شہباز شریف کے مابین تفصیلی ملاقات میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ رہنماؤں نے معاشی تعاون، سرمایہ کاری، توانائی انفرااسٹرکچر، آئی ٹی اور عوامی روابط کے فروغ سمیت مختلف شعبوں میں روابط کو مزید گہرا کرنے اور دوطرفہ تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں علاقائی اور عالمی امور پر قریبی رابطہ و تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کی مثبت سمت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امن، استحکام اور پائیدار ترقی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کی تجدید کی۔ متحدہ عرب امارات ایسا ملک ہے جہاں لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ پاکستان کے لوگوں نے وہاں بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان میں کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ رحیم یار خان میں تو شاہی خاندان کی رہائش گاہیں بھی موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت انتہائی غیرمعمولی ہے۔ شیخ محمد بن زاید النہیان کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین گہرے برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا اور اسٹرٹیجک شراکت داری کو نئی جہت دے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے ساتھ نہایت خوشگوار اور تعمیری بات چیت ہوئی جس میں دو طرفہ تعاون کے مختلف شعبوں کے علاوہ امن اور خوشحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان کو متحدہ عرب امارات کے ساتھ دیرینہ، مضبوط اور برادرانہ تعلقات پر فخر ہے۔ اپنے عزیز بھائی شیخ محمد بن زاید النہیان کا پاکستان کے سرکاری دورے پر استقبال کرنا میرے لیے باعث مسرت تھا جو نئے سال کی آمد کے موقع پر خوشیوں اور گرمجوشی میں اضافے کا باعث بنا۔
میرے عزیز بھائی شیخ محمد بن زاید النہیان کی سرپرستی میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک روزہ دورے سے واپسی پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اردو، انگریزی اور عربی زبان میں جاری بیان میں یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النیہان نے کہا کہ آج اسلام آباد میں وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات میں متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان تعاون کے مختلف پہلوؤں بالخصوص اقتصادی، سرمایہ کاری اور ترقیاتی شعبوں میں تعاون اور اسے مزید مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا تاکہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے تعلقات تاریخی نوعیت کے حامل ہیں اور امارات دونوں ممالک کے درمیان تعمیری تعاون کو مزید فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ انھوں نے دورہ پاکستان کی تصاویر بھی شیئرکیں۔ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے خلیجی اور عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی نسبت بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات غیرمعمولی نوعیت کے ہیں۔
یو اے ای کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کئی پاکستانی سرمایہ کاروں کا یہ دوسرا گھر ہے جب کہ یو اے ای کے سرمایہ کار پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں۔ حالیہ دورے سے بھی واضح ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات کے پاس سرمایہ وافر ہے۔ اسی طرح پاکستان کے پاس بہترین ہنرمند موجود ہیں، معاشیات کے ماہرین موجود ہیں، سول انجینئرز موجود ہیں اور دیگر شعبوں کے ہنرمند موجود ہیں۔پاکستان کے ہنرمندوں نے متحدہ عرب امارات کو جدید بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور وہ ابھی تک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یو اے ای کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اسے مزید ہنرمندوں کی ضرورت ہے جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور لیبر شامل ہیں۔پاکستان کے لیے زرمبادلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر پاکستان کے ہنرمند یو اے ای میں جاتے ہیں تو وہاں سے بھاری مقدار میں زرمبادلہ پاکستان آئے گا۔ اس کے علاوہ اسٹرٹیجک معاملات میں بھی یو اے ای پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔حالیہ دہشت گردی کے معاملات میں بھی یو اے ای ایک اہم پلیر کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت زیادہ سے زیادہ دوستوں کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو شمال مغربی سرحد کی جانب سے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
افغانستان کی صورت حال بہت زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر ہو چکی ہے۔ افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے وسط ایشیا سے لے کر مڈل ایسٹ تک کے لیے خطرے پیدا کر دیے ہیں۔ تاجکستان براہ راست دہشت گردوں کا شکار ہو رہا ہے۔

یہ دہشت گردی افغانستان کی سرزمین سے ہو رہی ہے۔ ریجنل ممالک افغانستان کی طالبان رجیم کو مسلسل آگاہ کر رہے ہیں کہ ان کے ملک میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ ہیں اور وہ آزادانہ طور پر نقل وحرکت کر رہے ہیں اور یہاں سے ہمسایہ ممالک میں جا کر دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔یہ صورت حال یو اے ای کی قیادت کی نظر میں بھی ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو متحدہ عرب امارات کے صدر کے دورۂ پاکستان کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات سٹیٹ بینک میں رکھوائے گئے تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کے شیئرز خریدے گا، جس کے بعد یہ رقم پاکستان کے ذمے واجب الادا نہیں رہے گی۔ اس سرمایہ کاری منصوبے کے تحت متحدہ عرب امارات کو فوجی فاؤنڈیشن کی کمپنیوں کے ایک ارب ڈالرز مالیت کے شیئرز فروخت کیے جائیں گے۔اس منصوبے کی بدولت پھر تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کی ذمے داری پاکستان سے ختم ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں فوجی فاؤنڈیشن ایک ٹرسٹ ہے جس کے تحت مختلف شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ فوجی فاؤنڈیشن کی انتظامیہ فوج کے ریٹائرڈ افراد پر مشتمل ہے اور اس کا شمار ملک کے بڑے کاروباری گروپوں میں ہوتا ہے
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی فاؤنڈیشن اگرچہ فوج کے ریٹائرڈ ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیا جانے والا ادارہ ہے اور اس کی انتظامیہ بھی ریٹائرڈ ملازمین پر مشتمل ہے تاہم اس کے تحت کام کرنے والے ادارے کمرشل بنیادوں پر کام کرتے ہیں جو معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران طے پایا۔ اس کے تحت متحدہ عرب امارات کے پاکستان میں رکھوائے گئے ایک ارب ڈالر کے ڈیپازٹ کو فوجی فاؤنڈیشن سے منسلک کمپنیوں کے شیئرز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد یہ رقم پاکستان کے قرضوں کی کتاب سے خارج ہو جائے گی۔

اس معاہدے کے بارے میں ہےکہ یہ دراصل ایک ’اکاؤنٹنگ ٹریٹمنٹ‘ ہو گی یعنی کھاتے میں ایک ارب ڈالرز امارات کو واپس کیے جائیں گے اور یہ رقم فوجی فاؤنڈیشن کی کمپنیوں کے حصص کی خریداری کی صورت میں سرمایہ کاری میں ظاہر ہو گی۔
حکومت پاکستان فوجی فاؤنڈیشن کو ایک ارب ڈالر کے بدلے روپوں میں ادائیگی کرے گی اس طرح اس کے ذمے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کی ذمہ داری ختم ہو گی۔اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ماڑی انرجیز اور فوجی فرٹیلائزر جیسی کمپنیوں کے حصص یو اے ای کو فروخت ہوں گے کیونکہ فوجی فاونڈیشن کے پورٹ فولیو میں یہ بڑی کمپنیاں ہیں۔ فوجی فاؤنڈیشن کو ایک ارب ڈالر کے بدلے روپوں میں ادائیگی ہو گی کیونکہ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور پاکستان کے ذمے ایک ارب ڈالر کی واپسی ختم ہو جائے گی۔
فوجی فاؤنڈیشن پاکستان کے کاروباری گروپوں میں سب سے بڑا کاروباری گروپ ہے۔ اس سال اگست میں جاری کیے جانے والے اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ (ای پی بی ڈی) نامی ایک تھنک ٹینک کے پہلے ویلتھ پرسیپشن انڈیکس 2025 کے مطابق فوجی فاؤنڈیشن 5.90 ارب ڈالر کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا کاروباری گروپ ہے۔فوجی فاؤنڈیشن کا کاروباری پورٹ فولیو کئی بڑی کمپنیوں پر مشتمل ہے جن میں تیل و گیس کی تلاش اور مائننگ کے شعبے میں ماڑی انرجیز، کھاد بنانے میں ملک کی سب سے بڑی کمپنی فوجی فرٹیلائزر، فوجی سیمنٹ اور عسکری بینک شامل ہیں۔فاؤنڈیشن کے تحت 30 سے زائد صنعتی یونٹس کام کر رہے ہیں جبکہ یہ ادارہ خوراک، بجلی کی پیداوار، ایل پی جی کی مارکیٹنگ و تقسیم اور سکیورٹی سروسز کے شعبوں میں بھی فعال ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ دنوں عارف حبیب گروپ کنسورشیم نے پاکستان کی قومی ایئر لائن، پی آئی اے کی نجکاری کے لیے منعقد ہونے والی بولی میں 135 ارب کی پیشکش کر کے اسے خرید لیا تھا۔

فوجی فرٹیلائزر جو پی آئی اے کی بولی کے لیے اہل قرار دیے جانے والے چار گروپوں میں شامل تھا، اس نے بولی سے ایک دن پہلے اس میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم عارف حبیب کنسورشیم کی جانب سے بولی جیتنے کے بعد فوجی فرٹیلائزر نے اس گروپ کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر سٹیٹ بینک آف پاکستان اور کمرشل بینکوں کے پاس موجود ڈالر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے پاس 15 ارب نوے کروڑ ڈالر کے زرِمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ان میں 12 ارب ڈالر ان ڈیپازٹس پر مشتمل ہیں جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے مرکزی بینک کے پاس رکھوائے گئے ہیں۔ان میں پانچ ارب ڈالر سعودی عرب، چار ارب ڈالر چین اور تین ارب ڈالر متحدہ عرب امارات کی جانب سے رکھوائے گئے تھے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X