LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) بینائی کی بحالی: نور سعودی رضاکارانہ پروگرام 2025 کے تحت کنگ سلمان ریلیف سینٹر نے پاکستان بھر میں 20 مفت آنکھوں کے علاج کے کیمپس مکمل کر لیے

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) نجکاری کابنیادی مقصد ریاست کے خسارے کے مستقل خسارے کو کم کرنا ہے اور اس کے لئے اب زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہوچکی ہےکیونکہ یہ قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں۔ ان ادروں میں کئی سو ارب ڈالر کے نقصان کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس اعتبار سے نجکاری درست لائحہ عمل ہے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی معاشی اصلاحات کےتحت دنیا کی فضائوں پر دہائیوں راج کرنے والی پاکستان کی قومی ایئرلا ئن پی آئی اے کی نجکاری ہوگئی ہے,پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری ہوگئی ، عارف حبیب گروپ نے خسارے میں چلنے والے قومی ادارے کو 135 ارب روپے میں خرید لیا۔اس سے قبل نیلامی کے پہلے مرحلے کے اختتام پر دو ممکنہ خریداروں عارف حبیب اور لکی سیمنٹ نے 100 ارب روپے کی مقررہ بنیادی قیمت سے زائد کی بولیاں دی تھیں۔نیلامی کے دوسرے مرحلے کا آغاز 115 ارب روپے کی بنیادی قیمت سے ہوا تھا۔دوسرے مرحلے کے وقفے سے قبل لکی سیمنٹ نے اپنی بولی پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 120.25 ارب روپے کر دیا جبکہ اس کے جواب میں عارف حبیب گروپ نے اپنی بولی بڑھا کر 121 ارب روپے کر دی۔ان بولیوں کے بعد، دونوں کنسورشیمز نے 30 منٹ کے وقفے کا فیصلہ کیا ہے۔وقفے کے بعد لکی کنسورشیم نے 134 ارب روپے جبکہ اس کے جواب میں عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی بولی لگادی اور اس طرح وہ پی آئی اے کا مالک بن گیا۔واضح رہے کہ پی آئی اے کے 75 فیصد حصص کی نیلامی ہوئی ہے، 75 فیصد حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا 92.5 فیصد پی آئی اے کو ملے گا جبکہ صرف 7.5 فیصد قومی خزانے میں جائے گا۔پی آئی اے کے 25 فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے، تاہم کامیاب بولی دہندہ کو اختیار ہوگا کہ وہ ادائیگی کے بعد باقی 25 فیصد حصص خرید لے یا انہیں حکومت کے پاس ہی رہنے دے۔معاہدے کے تحت ایک سال تک کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا جا سکے گا۔ ملازمین کی پنشن اور مراعات مکمل طور پر محفوظ رہیں گی جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، طبی سہولتیں اور رعایتی ٹکٹوں کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنی اٹھائے گی۔قبل ازیں جمع کرائی گئی سربمہر بولیاں پہلے سے اہل قرار دیے گئے بولی دہندگان لکی سیمنٹ، نجی ایئر لائن ایئر بلیو اور سرمایہ کاری کمپنی عارف حبیب کی جانب سے موصول ہوئیں۔بولی دینے والے گروپس کے نمائندے تقریب میں آئے اور شفاف باکس میں اپنی سربمہر پیشکشیں جمع کرائیں، اس دوران لفافے ڈالنے میں مختصر سی الجھن بھی دیکھنے میں آئی۔ اس تقریب کو سرکاری ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا گیا۔بولیاں موصول ہونے کے بعد اب پی آئی اے سی ایل کی بولی کے لیے ریفرنس پرائس کی منظوری نجکاری کمیشن بورڈ اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری دے گی۔پورا عمل براہِ راست نشر اور تمام نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ حکومت کے متعلقہ سوشل میڈیا ہینڈلز پر اسٹریم کیا گیا۔یہ نیلامی دوسری کوشش ہے جس میں ایک وقت کی معروف قومی ایئر لائن فروخت کی جا رہی ہے، کیونکہ گزشتہ ہونے والی نیلامی ناکام ہو گئی تھی جب واحد پیشکش حکومتی ریفرنس پرائس سے بہت کم رہی تھی، جس کے نتیجے میں تقریباً دو دہائیوں میں ہونے والی پہلی بڑی نجکاری رک گئی تھی۔ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قومی ایئر لائن کی نجکاری میں کردار ادا کرنے پر سرکاری حکام اور نجکاری کمیشن کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے زور دیا کہ اس عمل کو شفاف بنایا گیا ہے اور کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا لین دین ہو گا۔صرف اللہ جانتا ہے بولی کہاں تک جائے گی لیکن اس عمل کو واپس کابینہ کے پاس آنا ہو گا۔ ہارنے والے بولی دہندگان کو کامیاب بولی دہندہ کے ساتھ شامل ہونے کا کوئی حق نہیں ہو گا، اور صرف وہ گروپس جو نیلامی کا حصہ نہیں تھے نئی انتظامیہ میں شامل ہو سکیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت دوڑ میں شامل تین کنسورشیمز میں سے صرف ایک اکثریتی حصص حاصل کرنے کے بعد قومی ایئر لائن کے انتظام کا حصہ بنے گا جبکہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے پاس بعد میں ان کے ساتھ شامل ہونے کا اختیار برقرار رہے گا۔ بولی سے قبل ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ پس پردہ کم از کم دو فریقین یعنی عارف حبیب اور لکی سیمنٹ گروپس کے درمیان ایک معاہدہ زیر غور آیا تھا جو بعد میں ناکام ہو گیا۔1955 میں قائم کی گئی پی آئی اے 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے دوران جنوبی ایشیا کی جدید ایئر لائن سمجھی جاتی تھی۔ یہ اقدام سات ارب ڈالر کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت طے شدہ اصلاحاتی منصوبے کا حصہ ہے۔
نجکاری کمیشن، حکومت پاکستان کے زیراہتمام پی آئی اےکی نجکاری کا عمل کے سلسلے میں 75 فیصد حصص کے لئے بولی منعقدہوئی ۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت پی آئی اے کی نجکاری کی گئی ہے حکومت قواعد و ضوابط کے مطابق نجکاری کا عمل شفاف، قابلِ اعتماد اور مستند بنایا گیا, نجکاری کے عمل سے پی آئی اے کے75فیصد حصص کی نجکاری ،25فیصد حکومت کے پاس رہیں گے ، تین کنسورشیم خریدار 80ارب روپے کی فوری سرمایہ کاری کریں گے جہازوں کی تعداد 19سے بڑھا کر 40کرنا ہوگی، خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ حاصل ہے،آئی ایم ایف سے منظوری ہوچکی، خریدار پارٹی نئے بزنس پلان پر مکمل عملدرآمد کرنے کی پابند ہو گی ,نجکاری کا عمل وزیرِ اعظم کے شفافیت کے ویژن کے مُطابق تمام ٹی وی چینلز، حکومتِ پاکستان اور پرائیویٹائز یشن ڈویژن کے متعلقہ سوشل میڈیا ہینڈلز سے براہ راست نشر کیاگیا۔
نئے بزنس پلان کے مطابق ملازمین کو ایک سال نوکری پر رکھا جائے گااور ایک سال بعد ملازمین کی تعداد کم کر دی جائے گی۔ خریدار پارٹی کو 80ارب روپے تک کی فوری سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور جہازوں کی تعداد 19سے بڑھا کر 40 کی جائے گی،جہازوں کی خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی۔ پری کوالیفائیڈ کمپنیوں کے ساتھ بزنس پلان طے پا گیا ہے اور پی آئی اے کی نجکاری کے لیے پری کوالیفائیڈ کمپنیوں کے مطالبات پورے کیے جا چکے ہیں۔
جہازوں کی خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ کی بھی آئی ایم ایف سے منظوری ہو چکی ہے۔ پی آئی اے کے ذمہ اس وقت تقریباً ڈیڑھ سو ارب روپے قرض ہے۔
بزنس پلان کے مطابق خریدار پارٹی کو فلیٹس کی تعداد 19 سے بڑھا کر 40 کرنی ہوگی اور نئے بزنس پلان پر مکمل عملدرآمد کرنا ضروری ہوگا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں نے پی آئی اے ملازمین کو پانچ سال تک نوکری پر رکھنے کی سفارش کی تھی۔ قومی ایئر لائن کے 75 فیصد حصص فروخت کرنے سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 92.5 فیصد پی آئی اے میں سرمایہ کاری اور 7.5 فیصد رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔ پی آئی اے کے 25 فیصد حصص حکومت کے پاس رہیں گے ، کامیاب بولی دہندہ کو ادائیگی کے بعد باقی 25 فیصد حصص خریدنے کا اختیار ہوگا۔
پی آئی اے کی خریداری کے لیے تین کنسورشیم نےبولی کے عمل میں حصہ لیاہے ،کنسورشیم ون میں لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز شامل ہیں، کنسورشیم ٹو میں عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکولز اور لیک سٹی ہولڈنگز ہیں جبکہ کنسورشیم تھری میں ایئر بلیو پرائیویٹ لمیٹڈ شامل تھے، چوتھا کنسورشیم فوجی فرٹیلائزرز نیلامی کے عمل سے دستبردار ہو چکا تھاقومی ایئر لائن پی آئی اے کی نج کاری کے سلسلے میں بولی کے لیے عارف حبیب کنسورشیم نے سب سے بڑی بولی لگائی اسلام آباد میں پی آئی اے کی نجکاری کے دوسرے مرحلے میں عارف حبیب گروپ نے لکی کنسورشیم اور ایئر بلو کے مقابلے میں زائد رقم کی بولی لگائی۔مشیرِ نجکاری کمیشن محمد علی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تقریب میں شریک ہوئے اور نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے ملک میں سرمایہ کاری آئے گی، حکومت چاہتی ہے کہ پی آئی اے ماضی کی طرح بہتر ہو۔ حکومت نے قومی ایئر لائن کے 51 سے 100 فیصد شیئرز کی نجکاری کا فیصلہ کیا، کچھ بڈرز کی خواہش تھی کہ وہ 75 فیصد شیئرز خریدنا چاہتے ہیں۔مشیر نجکاری کمیشن نے کہا کہ قومی ایئر لائن کے باقی 25 فیصد شیئرز کے لیے 90 روز میں معاملات کیے جا سکتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ دو تہائی پیمنٹ شروع میں اور ایک تہائی پیمنٹ بعد میں کی جا سکے گی، ہم نے بڈرز کو بولی کے بعد 2 پارٹیز کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔مشیرِ نجکاری نے یہ بھی کہا کہ بولی سے حاصل رقم کا 92 اعشاریہ 5 فیصد حصہ قومی ایئر لائن کی بہتری پر خرچ ہو گا۔
تقریب میں لکی کنسورشیم نے پی آئی اے کے لیے 101 ارب 50 کروڑ سے زائد کی بولی لگائی جبکہ ایئر بلو نے 26 ارب 50 کروڑ روپے کی بولی دی۔
پی آئی اے کی نجکاری کی تقریب میں عارف حبیب کنسورشیم نے 115 ارب روپے کی بولی لگائی ۔عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب نے کہا ہے کہ پی آئی اے کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے محنت کریں گے۔ عارف حبیب نے پی آئی اے کو 135 ارب روپے کی بولی میں خریدنے کے بعد کہا کہ آج پاکستان کی جیت ہوئی، نجکاری سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور بیرونِ ملک سے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ پی آئی اے کو دوبارہ سے عظیم بنانے کے لیے محنت کریں گے، حکومت پاکستان نے بولی کا کامیاب انعقاد کرایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کمیشن اور کابینہ کو بھی اس سارے عمل کا کریڈٹ جاتا ہے، اس سے نجکاری کے اور راستے کھلیں گے۔
پی آئی اے کو عظیم بنانے سے پاکستانی معیشت کو بھی فائدہ ہو گا۔
گزشتہ سال 31 اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے 10 ارب روپے کی بولی لگی تھی جبکہ حکومت نے گزشتہ نجکاری پر پی آئی اے کی ریزرو پرائس 80 ارب روپے مختص کی تھی۔ بولیاں موصول ہونے کے بعد نجکاری کے عمل کو طے شدہ ضوابط کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ماضی میں دنیا کی بہترین ایئرلائن پی آئی اے کی تنزلی کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہواتھا۔ نجکاری مکمل ہونے پر پی آئی اے کی بحالی کی نئی امید پیدا ہوئی ہے ۔1947 میں اوریئنٹ ایئرویز کے آپریشنل آغاز کے دو ماہ بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور قومی ایئر لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ 10 جنوری 1955 کو اوریئنٹ ایئرویز کو پی آئی اے میں ضم کر دیا گیاتھا۔ پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی سروس 1955 میں شروع ہوئی اور مختصر ہوائی بیڑے سے شروع ہونے والی یہ ایئر لائن دنیا کی صف اول کی فضائی کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔1960 میں پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن بنی جس میں بوئنگ 707 شامل ہواتھا۔ مختصر عرصے میں پی آئی اے کا آپریشن یورپ سمیت دنیا کے چار براعظموں تک پھیل گیاتھا۔ پی آئی اے نے دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں سے ایک ‘ایمریٹس’ کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کیاتھا۔اس وقت قومی ایئرلائن کے پاس 33 جہاز ہیں ۔دوسری طرف 320 پائلٹس سمیت ادارے کے سات ہزار ملازمین ہیں۔ پی آئی اے کے پاس ہر ہفتے 20 ممالک کی 170 فلائٹس کے روٹس موجود ہیں , قومی ائیرلائن، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)، کی نجکاری تقریباً دو دہائیوں میں پاکستان کی پہلی بڑی نجکاری ہو گی۔ اسے کسی بھی سرکاری ادارے کی اب تک کی سب سے نمایاں ڈیل سمجھی جا رہی ہےاگلے مرحلے میںوفاقی کابینہ چند دنوں میں اس لین دین کی منظوری دے گی، جس کے بعد بولی دہندگان سے موصول ہونے والے دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے۔ دستخط کے بعد نجکاری کمیشن کے پاس 90 دن ہوں گے جن میں جائیدادوں، واجبات اور لیز پر لیے گئے طیاروں کی منتقلی سمیت دیگر امور مکمل کیے جائیں گے۔
پی آئی اے کے پاس دبئی، سعودی عرب، لندن، کینیڈا، بیجنگ، مسقط، دوحہ، شارجہ اور ابوظہبی کے روٹس ہیں جبکہ کوالالمپور، استنبول، کویت اور بحرین کے روٹس بھی میسر ہیں۔ پی آئی اے کے ذمہ 800 ارب روپے سے زائد قرض میں سے تقریباً 660 ارب روپے حکومت نے ہولڈنگ کمپنی میں سٹاک کر دئیے ہیں تاکہ نجکاری اور روزویلٹ ہوٹل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ادائیگیاں کی جا سکیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا تھاکہ پی آئی اے کی بولی کے لیے ریفرنس قیمت کی منظوری پرائیویٹائزیشن کمیشن بورڈ اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری دے گی۔ نجکاری کے عمل کو طے شدہ ضوابط کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت معاشی ترقی کے لیے توانائی کے شعبے کے حوالے سے تشکیل دیئےگئےنجی شعبے کے ورکنگ گروپ کا اجلاس ہوا تھا وزیراعظم نے نجی شعبے سے مشاورت کے حوالے سے بنائی گئی توانائی کی کمیٹی کی محنت اور کاوشوں کی تعریف کی تھی اجلاس میں وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، وزیر پاور ڈویژن سردار اویس احمد خان لغاری، وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریلوے بلال اظہر کیانی، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران شریک ہوئے تھے
وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کی معاشی اصلاحات کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پہلی بار 21.1 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، جبکہ قرضوں کا تناسب کم ہو کر 26 فیصد رہ گیا ہے۔یہ اضافہ بیرونی قرضوں کی بجائے اصلاحات کا نتیجہ ہے، جس سے معیشت مستحکم اور ترقی کی راہیں کھل رہی ہیں۔،سرکاری اعلامیے کے مطابق نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کی زیرِ صدارت کابینہ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ اس موقع پر اجلاس کو پرائیویٹائزیشن کمشنر اور وزارتِ نجکاری نے نجکاری کے عمل پر بریفنگ دی,کمیٹی نے پرائیویٹائزیشن کمیشن کے تحت نجکاری کے عمل کا جامع جائزہ لیا۔کمیٹی کی جانب سے پالیسیز اور قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا۔ ہدایت کی گئی کہ نجکاری کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے عالمی معیار پر عمل درآمد کیا جائے۔ نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ نجکاری کے عمل میں تمام شرکاء کو یکساں مواقع فراہم کیےجائیں۔ اعلامیہ کے مطابق نجکاری کابینہ کمیٹی نے نیشنل کینبیز کنٹرول اینڈ ریگولیٹری پالیسی 2025ء کی منظوری دی، پالیسی کا مقصد ملک میں فارماسوٹیکل اورٹیکسٹائل سیکٹر میں نباتاتی پودوں کے استعمال کا فروغ ہے۔نجکاری کمیٹی نے وزارت داخلہ کی سفارش پر ویزا کلیئرینس نظام کی منظوری دے دی، نظام کا مقصد بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے لیے شفاف اور محفوظ نظام کے تحت ویزے کے حصول کو آسان بنانا ہے۔کمیٹی نے کابینہ کمیٹی برائے لیجسلیٹیو کیسز کے اجلاسوں میں لیے گئے فیصلوں, اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 18 دسمبر کے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کی۔
وزیرِ اعظم نے قومی ایئرلائن کی نجکاری کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ٹرانزیکشن ہے، اس میں شفافیت کا بھرپور خیال رکھا گیا قومی ایئر لائن کی شفاف نجکاری کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے،وزیراعظم نے کہا کہ آج قومی ایئر لائن کی نجکاری کا دن ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نجکاری ہوگی۔قومی ایئر لائن کی نجکاری کے لیے متعلقہ حکام اور کابینہ ارکان نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا۔
نجکاری کا عمل وزیرِ اعظم کے شفافیت کے وژن کے مطابق تمام ٹی وی چینلز، حکومتِ پاکستان اور پرائیویٹائزیشن ڈویژن کے متعلقہ سوشل میڈیا ہینڈلز سے بھی نشر کیا جائے گا، قومی کیریئر کی نجکاری کی جا رہی ہے تاکہ ‘لیجنڈ کی شان سے واپسی’ کو یقینی بنایا جا سکے۔ `حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس وقت اس ایئرلائن میں تقریباً 11 ہزار ملازمین ہیں۔نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیاانیس سو پچپن میں قائم کی گئی پی آئی اے 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے دوران جنوبی ایشیا کی جدید ایئر لائن سمجھی جاتی تھی۔ تاہم 1990 کے بعد سے ناصرف اسے مسلسل خسارے کا سامنا ہے بلکہ اس کی عالمی پروازوں میں بھی واضح کمی آئی ہے۔قومی ائیرلائن کی نجکاری تقریباً دو دہائیوں میں ملک کی پہلی بڑی نجکاری ہو گی۔ یہ اقدام سات ارب ڈالر کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت طے شدہ اصلاحاتی منصوبے کا حصہ ہے۔ حکومت پاکستان نے گذشتہ سال نومبر میں پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی تھی جو بری طرح ناکام رہی۔ نجکاری کمیشن نے قومی فضائی کمپنی کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی لیکن بولی میں شریک واحد بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم نے انتہائی کم 10 ارب روپے کی پیش کش کی، جس کے بعد نجکاری موخر کر دی گئی تھی, یہ نجکاری وزیر اعظم شہباز شریف کے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت کی جا رہی ہے دریں اثنا نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد علی کا کہنا تھا کہ مجوزہ معاہدے کے تحت پی آئی اے کے کسی ملازم کو ایک سال تک فارغ نہیں کیا جا سکے گا۔ ملازمین کی پنشن اور مراعات مکمل طور پر محفوظ رہیں گی، جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، طبی سہولتیں اور رعایتی ٹکٹوں کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنی اٹھائے گی۔یاد رہے کہ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں خاطر خواہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے 30 میں سے صرف 19طیارے آپریشنل ہیں۔حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی دی , ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی بھی سامنا کرنا پڑاتھا۔جعلی پائلٹ لائسنس اسکینڈل کی وجہ سے یورپ اور برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں سن 2020 سے معطل ہیں۔ سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیاتھا جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کی لیے لگائی جانے والی بولیاں پاکستانی حکومت کی ان کوششوں کے لیے ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہیں، جو وہ سالہا سال سے شدید خسارے میں رہنے والے ریاستی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کر کے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کر رہی ہے۔پاکستان کی قومی ایئر لائن کے حوالے سے ناقدین کا سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ یہ فضائی کمپنی نہ صرف عملے کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے بے تحاشا مالی دباؤ کا شکار ہے بلکہ اسے اس کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے بدانتظامی کا سامنا بھی تھا
اس کا نتیجہ یہ کہ اس ادارے کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے اور پاکستانی حکومت کے لیے بھی یہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے لیے مزید مالی بوجھ کے ساتھ اس ادارے کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچانے کی کاوشیں کرتی رہے۔اس سے قبل پی آئی اے کی نجکاری کے لیے گزشتہ برس بھی بولیاں لگائی گئی تھیں تاہم یہ عمل تب اس لیے ناکام ہو گیا تھا کہ 2024ء میں اس کے لیے صرف ایک ہی بولی لگائی گئی تھی، جو محض 36 ملین ڈالر کے برابر تھی اور حکومت کی طرف سے طے کردہ 305 ملین ڈالر کی کم از کم ممکنہ قیمت سے انتہائی کم تھی پی آئی اے کو سالہا سال سے مسلسل اتنا زیادہ کاروباری خسارہ ہو رہا ہے کہ ماضی قریب میں اسے پاکستان سٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ بھی کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 09 جولائی 2025 کوحکومتِ پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) میں ممکنہ شیئرز کی خریداری کے لیے چار مختلف فریقوں کو ابتدائی منظوری دی تھی ,نجکاری کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری نے نیویارک میں واقع روز ویلٹ ہوٹل کے لیے مجوزہ معاہدے کی منظوری دی تھی، جس میں ہوٹل کی مکمل فروخت یا طویل المدتی لیز، دونوں ممکنات شامل ہیں,واضح رہے کہ پی آئی اے نے متحدہ عرب امارات کی ایئر ایمرٹ اور اتحاد ایئرلائن بنائی اور آج وہ کہاں پہنچ چکی ہیں۔ 1951ء میں اورینٹ ایئرلائن جب قومی ایئرلائن پی آئی اے میں منتقل ہوئی تو چند سالوں ہی میں اس کی بہترین گورننس اور اعلیٰ پروفیشنلز نے اسے دنیا کی بہترین پروفیشنلز کی صف میں لا کھڑا کیا۔ 1975ء تک قومی ایئرلائن کی ساکھ دنیا تسلیم کرتی تھی۔ اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ زوال کی طرف بڑھنے لگی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی کارپوریٹ ادارے میں تین ایم بہت ضروری ہوتے ہیں۔ مین، منی اور میٹریل۔ اسے ایک مثال سے وا ضح کیا جاتا ہے۔ انجینئری کے شعبے میں پی آئی اے میں انٹر سانس کا امیدوار لیا جاتا تھا، اسے آٹھ، دس سال تک بین الا قوامی سطح کی تربیت دی جاتی تھی۔ ایوی ایشن کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنا پڑتا ہے تب جاکر ایئرکرافٹ انجینئر کے عہدے پر کوئی فائز ہوتا ہے اس کے بعد پرنسپل انجینئر اور پھر چیف آنجینئر کے عہدے تک پہنچنا پڑتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی نظر اس بہترین قومی اثاثے پر تھی۔ 1995ء کے سال میں پاکستان کو عالمی بینک نے گولڈن شیک ہینڈ کے لیے رقم دی چنانچہ سالہا سال کے تیار کیے گئے بہترین تیکنیکی ماہرین، انجینئرز اور پائلٹس کو مذکورہ اسکیم کے تحت نکال باہر کیا۔ یہ قومی ایئرلائن کے اثاثے تھے۔ ان ماہرین کی طلب ساری دنیا میں تھی۔ سب سے پہلے قطر ایئرلائن نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جن کوپی آئی اے نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور یہ اثاثے مزید دوسروں کو بھی تیار کرتے۔ بعد ازاں دنیا بھر کی ایئرلائنوں نے ان بہترین افراد کی خدمات حاصل کر لیں۔ پی آئی اے کا سربراہ عموماً ایئر فورس سے لیا جاتا تھا چاہے اسے مارکیٹنگ اور سیلز کا تجربہ ہو یا نہ ہو۔ البتہ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان نے گڈ گورننس کے ذریعے پی آئی اے کو تیزی سے زوال پزیر نہیں ہونے دیا۔ تاہم جب 1995 ء میں ماہرین کو نکال باہر کیا گیا تو پھر پروفشنلز کی جگہ اقربا پروری نے لے لی طیاروں کی دیکھ بھال اور فنانشل مینیجمنٹٹ بحران کا شکار ہو گئی۔ امریکا اس قومی ایئرلائن میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ وہ اس کے لیے سیبر ریزولیشن سسٹم لے کر آ گیا حالانکہ قومی ایئرلائن نے KLM سے اپنا ریزولیشن سسٹم خرید لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اسے اپڈیٹ کرنا تھا اس بہائے امریکی مذکورہ کمپنی سیبر کو پی آ ئی اے میں داخل ہونے کا موقع مل گیا حالانکہ پرانے پروفیشلز اس سسٹم کو کامیابی سے چلا رہے تھے۔ اس کا تعلق خاص طور پر شناخت وغیرہ کے ریکارڈ سے تھا اور وہ پاکستانی ریزولیشن سسٹم میں محفوظ ہو جاتا تھا۔ اگر پاکستانی سائنس دان باہر جاتے تھے یا کسی خاص سفر کے لیے روانہ ہوتے تھے تو اس کی خبر کسی اور کو نہیں ہوتی تھی اب یہ کام سیبر کو دے دیا گیا جو دفاعی لحاظ سے نہایت خطرناک تھا۔ اس کمپنی نے اس کے لیے PNR بنانے کے لیے ایک یونٹ پر ساڑھے 3 ڈالر وصول کیے جبکہ یہ کام 57 سینٹ میں ہو سکتا تھا۔ ریزولیشن سسٹم کا ہیڈکوارٹر اسٹیلانٹا اور علاقائی دفتر ممبئی میں ہے۔ ان کے پاس ہمارا ریکارڈ سیبر کے ذریعے موجود ہے۔ انجینئری کے شعبے میں زبردست دفاعی اہمیت کے کام ہوتے تھے جن کو بند کرنا پڑا۔ نالائق اور نااہل لوگوں کی اعلیٰ سطح پر بھرتی سے فنانشل گورننس بگڑ گئی۔ اوپن اسکائی پالیسی میں سول ایوی ایشن نے روٹس کی تقسیم سے قومی ایئرلائن کو مزید ناچار کر دیا۔ ان تمام خرابیوں کے ساتھ سیاسی اثرورسوخ، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور تیل کی قیمتوں کے اضافے سے قومی ایئرلائن کی حالت مزید ابتر ہو گئی۔ عام طور پر سارا نزلہ نچلے ملازمین پر گرتا ہے اوپر کی سطح پر جو نااہلی اور اقربا پروری ہوتی ہے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جو حلقے یہ کہتے ہیں کہ ایک جہاز پر 120 افراد کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں 700 افراد ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ باہر کی فضائی کمپنیوں میں آٹومائزیشن بہت زیادہ ہے وہاں کے ملازمین کو زبردست سہولتیں اور تنحواہیں میسر ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں نجکاری کا پس منظر یہ ہے کہ 1970ء میں بھٹو صاحب نے ے 115 صنعتی اداروں کو قومیا لیا تاکہ ان اداروں کے مزدوروں کو استحصال سے بچایا جا سکے اور ملازمت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم، رہائش کی سہولتیں حاصل ہوں مگر اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ قومیائے گئے 115 میں سے 91 ادارے مسلسل خسارے میں چلے گئے ماہرین کا خیال تھا کہ قومیائے گئے ادارے 15 فیصد سالانہ ریٹ آف ریٹرن پر منافع دیں گے مگر بدقسمتی سے جون 1990ء کی حکومتی بیلنس شیٹ سے معلوم ہوا کہ 14.3 بلین روپے منافع کی بجائے حکومت کو محض 0.34 بلین روپے کی آمدنی حاصل ہوئی اور اسی شرح و صولی پر حکومت کو معینہ اثاثوں پر 27.8 بلین روپوں کا نقصان ہوا۔ یہ نقصانات ان صنعتی اداروں کے تھے جو وزارت پیداوار کے ماتحت چل رہے تھے چنانچہ 1990ء کے بعد پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے والے بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مشرف حکومت اس معاملے میں بالکل واضح ہو گئی کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد نجی شعبے کو مراعات فراہم کرنا ہے تاکہ ملک میں پیداوار، آمدنی روزگار اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہو۔
جولائی 1991ء میں پرائیوٹائزیشن کمیشن قائم کیا گیا۔ جس کے ذریعے 100 صنعتی اور کاروباری اداروں میں سے 60 اداروں کو کوڑیوں کے مول بغیر کسی ریزرو قیمت رکھے فروخت کر دیا گیا اور اپریل 1994ء تک 60 اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا گیا۔مشرف حکومت نے اگست 2000ء میں 49 سرکاری ادارے فروخت کر کے 4بلین ڈالرز حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ساتھ ہی پرائیوٹائزیشن پالیسی کے تحت یہ قانون سازی کی گئی کہ ان اداروں کو بیچ کر 90 فیصد رقوم حکومتی قرضوں کی ریٹائرمنت اور بغیر 10 فیصد غربت کے خاتمے پر خرچ ہونگے۔ مگر 1991ء سے لے کر اپریل 2006ء تک 163سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کے باوجود نہ تو حکومت کے قرضے کم ہوئے اور نہ ہی غربت میں کمی واقع ہوئی۔ 2006ء میں 8ہزار ارب روپے کے ملکی قرضے بڑھ کر 15 ہزار ارب روپے ہو گئے اور پرائیوٹائزیشن کے اس عمل میں حکومت نے حبیب بینک، پی ٹی سی ایل ، ایم سی بی وغیرہ کو فروخت کر دیا مشرف حکومت تو سٹیل مل کو 22 ارب روپے میں فروخت کر رہی تھی جب کہ اس کی زمین کی مارکیٹ ویلیو 100 ارب سے زائد تھی چنانچہ سپریم کورٹ نے شوکت عزیز کی حکومت کو اس کی نجکاری سے روک دیا۔ ماضی میں نجکاری کے عمل میں کس طرح کرپشن کی جاتی رہی اور قومی اثاثوں کو کس طرح کوڑیوں کے مول خریدا جاتا ہے۔ پہلے طریقے میں حکومت بغیر بڈز دیئے ادارے فروخت کر دیتی ہے دوسرا ریزرو پرائس طے کئے بغیر اور اداروں کی کوالیفیکیشن کی جانچ پڑتال کے بغیر ادارے پرائیوٹائز کر دیئے گئے۔ نجکاری کا مطلب ہے کسی سرکاری ادارے، ملکیت یا سروس کو نجی ہاتھوں میں دے دینا، یعنی حکومت کی ملکیت سے نکال کر نجی افراد یا کمپنیوں کی ملکیت میں منتقل کرنا تاکہ کارکردگی بہتر ہو اس کا مقصد کارکردگی میں بہتری، مسابقت بڑھانا اور سرکاری اداروں کا بوجھ کم کرنا ہوتا ہے یہ کہ نجکاری ایک ایسا عمل ہے جس میں سرکاری کنٹرول کو نجی ملکیت اور انتظام میں بدل دیا جاتا ہے،

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X