LOADING

Type to search

لاہور (بگ ڈیجٹ) بی وائی ڈی – ایم ایم سی کا کلائمٹ ایکشن ڈائیلاگ، خطرناک اسموگ سے نمٹنے کے لیے کلین موبیلٹی کی جانب منتقلی پر زور

Share this to the Social Media

لاہور، 18 دسمبر، 2025 (بگ ڈیجٹ)۔ پاکستان بدستور خطرناک فضائی آلودگی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ آئی کیو ایئر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ آلودہ ملک ہے، جہاں پی ایم 2.5 رینکنگ کی اوسط سطح 73.7 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ریکارڈ کی گئی ہے، جو عالمی ادارہ صحت (WHO) کی مقررہ حد سے کافی زیادہ ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہروں میں سردیوں کے دوران اسموگ کی صورتحال مزید سنگین ہو جاتی ہے اور پی ایم 2.5 کی سطح اکثر 145 مائیکروگرام فی مکعب میٹر سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ یہ حقائق رواں ہفتے لاہور میں BYD پاکستان – میگا موٹر کمپنی (MMC) کے زیرِ اہتمام منعقدہ کلائمٹ ایکشن ڈائیلاگ میں سامنے آئے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی 2024 کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں آلودگی سے درپیش چیلنج میں ٹرانسپورٹ ایک اہم شعبہ ہے۔ تحقیق کے مطابق قومی سطح پر 43 فیصد سے زائد جبکہ لاہور جیسے گنجان آباد شہروں میں یہ شرح 80 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں ڈائیلاگ کے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ صاف اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار ٹرانسپورٹ ہی ایسے فوری اور قابلِ عمل اقدامات میں شامل ہے جن کے ذریعے آلودگی کے اخراج میں کمی لائی جا سکتی ہے اور خصوصاً بڑے شہروں میں ہوا کے معیار کو نمایاں طور پر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں ہر سال بڑھتی ہوئی اسموگ کی صورتحال کے پیچھے مختلف گہرے عوامل ہیں، جن کے تناظر میں بی وائی ڈی – ایم ایم سی نے توانائی کے ماہر ڈاکٹر نوید ارشد، موسمیاتی ماہر علی توقیر شیخ اور کلائمٹ فنانس کی ماہر مہک مسعود کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ کلین موبیلٹی کے حل کس طرح بڑے پیمانے پر مؤثر انداز میں نافذ کئے جا سکتے ہیں۔

بی وائی ڈی – ایم ایم سی کے نائب صدر برائے سیلز اینڈ اسٹریٹیجی، دانش خالق نے کہا کہ نیو انرجی گاڑیاں (NEVs) روایتی گاڑیاں آلودگی کا اخراج نمایاں طور پر کم کرتی ہیں، انہی روایتی گاڑیوں سے آلودگی کا اخراج شہری علاقوں میں اسموگ کی بڑی وجہ ہے۔انہوں نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ NEV انڈسٹری کی ترقی ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) پر مثبت اثرات ڈال سکتی ہے۔ آزادانہ تحقیق میں یہ پہلو سامنے آیا کہ اگر صرف 30 فیصد سطح پر بھی کلین موبیلٹی کو اپنایا جائے تو یہ پاکستان کی معیشت میں تقریباً 1.3 ٹریلین روپے کا اضافہ کر سکتی ہے اور براہِ راست و بالواسطہ طور پر 15 لاکھ افراد تک روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، جبکہ اس سے صحت اور فضائی معیار پر پڑنے والے نمایاں فوائد الگ ہیں۔”

دانش خالق نے اس بات کی نشاندہی کی کہ BYD جیسے عالمی سطح کے ادارے کلین موبیلٹی کے ذریعے نظام میں موجود خلا کو پُر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ BYD جیسے ادارے اپنی تکنیکی مہارت، چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی میں معاونت اور بین الاقوامی مارکیٹوں کے کامیاب تجربات کو پاکستان منتقل کر کے نہ صرف اس نظام کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ مقامی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی میں بھی مدد فراہم کرسکتے ہیں، جس سے کلین موبیلٹی کو ملک میں قابلِ توسیع اور مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب مارکیٹ کے بڑے کاروباری ادارے حکومت کے ساتھ قریبی اشتراک قائم کریں گے تو اسکی قبولیت کے عمل کو نمایاں طور پر تیز کیا جا سکتا ہے۔

 

گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا گیا کہ ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار ٹرانسپورٹ کی جانب پیش رفت کے لیے نیشنل الیکٹرک وہیکل (NEV) پالیسی پر مؤثر عمل درآمد ناگزیر ہے، ماحولیاتی لحاظ سے سازگار گاڑیوں کے فروغ کے لیے مراعات متعارف کرائی جائیں، اور ان ریگولیٹری خلا کو دور کیا جائے جو اب بھی اس شعبے میں ترقی کی رفتار کو سست کر رہے ہیں۔

ڈائیلاگ کے دوران شرکاء نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس تبدیلی کو عملی شکل دینے میں نجی شعبے کا کردار نہایت اہم ہے۔ اس حوالے سے BYD-MMCکی شمولیت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ کمپنی اپنی مقامی کاوشوں کو BYD کے عالمی وژن کے ساتھ ہم آہنگ کر رہی ہے، جس کا مقصد زمین کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری کمی لانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ کمپنی کی توجہ نیو انرجی گاڑیوں سے متعلق آگاہی، انفراسٹرکچر کی ترقی، اور جدید الیکٹرک اور پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیوں کے متعارف کرانے پر مرکوز ہے جو اسکے وسیع عزم کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کو کلین موبیلٹی کی جانب منتقل کرنے میں عملی مدد فراہم کی جائے۔

اس مباحثے کا مقصد ایک ایسے مؤثر کلائمٹ ایکشن پلان کی بنیاد رکھنا تھا جس میں کلین موبیلٹی کی تیزی سے قبولیت قومی ترقی کا مرکزی ستون ہو، اور اس کے لیے معاون پالیسیوں کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان پالیسی، صنعت اور عوامی سطح پر اقدامات کو کس طرح ہم آہنگ کر سکتا ہے تاکہ شہروں میں ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار ٹرانسپورٹ کو حقیقت بنایا جا سکے؟ اس سمت میں قومی سطح پر پیش رفت کا انحصار مربوط پالیسی اقدامات اور انڈسٹری میں فعال کاروباری اداروں کے درمیان سرگرم تعاون پر ہوگا، تاکہ اس گفتگو کو عملی، منظم اور ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرتے ہوئے ایک صاف اور پائیدار مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X