LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ایمان مزاری کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس سے مکالمے کی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ):انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری-حاضر نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے رجسٹرار کو رواں ہفتے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کے ساتھ مکالمے کے دوران خود کے ساتھ پیش آنے والے ’افسوسناک واقعے‘ کی سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کرنے کی درخواست جمع کرادی۔

اپنی درخواست ایمان زینب مزاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بھی شیئر کی، انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں تاکہ معزز چیف جسٹس کی عدالت نمبر 1 کی 11 ستمبر 2025 کی صبح 9 بجے سے 11 بجے تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کی جائے، کیونکہ اس دوران میرے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ ضروری ہے کہ مکالمے کی ریکارڈنگ محفوظ کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ میں یہ بھی گزارش کروں گی کہ مذکورہ تاریخ اور وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ایک کاپی مجھے فراہم کی جائے، جس کے لیے میں نے اس درخواست کے ساتھ ایک یو ایس بی منسلک کی ہے۔

ایمان زینب مزاری نے اپنی درخواست میں جن عدالتی کارروائیوں کا حوالہ دیا، وہ جمعرات کے روز کی سماعت کی ہیں، جب وہ اپنے مؤکل کی نمائندگی کر رہی تھیں، جس نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس ڈوگر کی عدالت میں انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی استدعا کی تھی۔

سماعت کے دوران جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایمان زینب مزاری کو توہین عدالت کی کارروائی سے خبردار کیا اور اطلاع کے مطابق یہاں تک کہا کہ وہ انہیں ’پکڑوا بھی سکتے ہیں‘۔

ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ وہ محض اپنا پیشہ ورانہ فریضہ ادا کر رہی ہیں اور اگر عدالت ضروری سمجھے تو وہ توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اگلے ہی روز ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران، جسٹس سرفراز ڈوگر نے وضاحت پیش کی تھی کہ ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، انہوں نے یہ بھی تردید کی کہ انہوں نے کبھی ’پکڑوا دینے‘ جیسا کچھ کہا۔

اس دعوے کو ایمان مزاری کے شوہر ہادی علی چٹھہ نے بھی چیلنج کیا، وہ بھی جمعرات کی سماعت میں شریک تھے۔

اپنی وضاحت میں جسٹس سرفراز ڈوگر نے یہ بھی کہا کہ ایمان مزاری ان کے لیے بیٹی کی مانند ہیں اور وہ صرف انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں انہیں ایسے سمجھا رہا تھا جیسے کسی بچے کو سمجھاتا ہوں، مگر وہ بات نہیں سمجھ رہی تھیں، وہ بار بار بنیادی حقوق کا ذکر کر رہی تھیں، کیا اس عدالت کے اپنے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہیں؟

ان کے ان ریمارکس نے ملک کی قانونی برادری اور خود ایمان مزاری کی طرف سے تنقید کو جنم دیا، جنہوں نے ان کے بیانات کو ’صنفی طور پر امتیازی‘ قرار دیا۔

متعدد وکلا تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنز نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے، اور کچھ نے تو ان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس مکالمے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ وکلا عدالت کے افسر ہوتے ہیں اور ان کی عزت و وقار کو بھی ترجیح دی جانی چاہیے، جیسے معزز جج صاحبان کی عزت کو دی جاتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ بار نے سپریم جوڈیشل کونسل سے جسٹس سرفراز ڈوگر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

یہ مطالبہ بلوچستان بار کونسل نے بھی دہرایا، جب کہ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) نے جسٹس ڈوگر کے انتہائی نامناسب رویے کی سخت مذمت کی۔

ویمنز ایکشن فورم نے بھی جج کے مبینہ ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان انتہائی قابلِ اعتراض پدرشاہی، خواتین دشمن، صنفی تعصب پر مبنی ریمارکس، رویے اور وکیل کے شوہر کو مخاطب کرنے میں استعمال ہونے والی سرپرستانہ ’زبان‘ کی مذمت کی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X