راولپنڈی;زیرِ زمین پانی کے مسائل خطرناک حد تک سنگین ………….(اصغر علی مبارک) ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے فیصلہ کن اقدام ناگزیر ہیں, راولپنڈی میں زیرِ زمین پانی کے مسائل خطرناک حد تک سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ حکام پر فرض ہے کہ راولپنڈی کے مستقبل کے تحفظ کے لیے فوری اور فیصلہ کن کارروائی کریں۔ پنجاب حکومت پانی کے بحران کو دور کرنے کے لیے راولپنڈی میں ڈیم اور دیگر اہم انفراسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی لائے،ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکمے غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور بااثر ٹینکرز مافیاکے خلاف بے اختیار دکھائی دے رہے ہیں غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور ٹینکرز کی بے دریغ ترقی نے زیر زمین پانی کی سطح کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی وجہ سےراولپنڈی میں پانی کے ذرائع سوکھ چکے ہیں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کیرج فیکٹری کالونی راولپنڈی کینٹ کے قریب حکومت کی جانب سے بور نگ کرنے کی حالیہ کوشش بری طرح ناکام ہو گئی۔ پانی کا غیر قانونی کاروبارکا پھیلاؤ چکری روڈ، اڈیالہ روڈ، گرجا روڈ، مصریال روڈ، چکرا، صادق آباد، گلزار قائد، دھمیال، ڈھوک سیداں، ڈھوک چوہدریاں، پیپلز کالونی، ٹینچ، ہارلے سٹریٹ، لال کرتی، ٹلی موہری اور دیگر علاقوں سمیت متعدد علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ خود ساختہ لوکل کمپنیوں کے پانی کی ترسیل سےروزانہ لاکھوں روپے کمائےجار ہے ہیں جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے یہ یاد رکھیں کہ80بیماریاں غیر موزوں اور زہر آلودہ پانی سے ہوتی ہیں پاکستان میں 9 فیصد اموات زہر آلودہ پانی کے استعمال کے باعث ہوتی ہیں جبکہ بچے اس سے زیادہ اور جلد متاثر ہوتے ہیں جنہیں دست ہیضہ ٹائیفائیڈ ، جلدی امراض ، ہیپاٹائٹس اے اور بی اور گردوں کے امراض جیسی دیگر مہلک بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے اور لوکل کمپنیاں کا زہر آلودہ پانی ہر جگہ موجود ہے پانی کی لوکل کمپنیاں بغیر کسی اجازت نامے کے اور بغیر کسی ادارے سے اتھارٹی حاصل کیے بغیر خود ساختہ کمپنیاں خود ساختہ ناموں کے لیبل لگا کر غیر قانونی طور پر زہر آلودہ پانی سستے داموں میں مختلف دکانوں ، ریسٹورنٹ ، میرج ہالوں ، پر باآسانی فروخت کر رہے ہیں غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس اور ٹینکرز میں خطرناک حد تک اضافے سے دوچار ہے، جو پانی کی موجودہ قلت کو بڑھا رہا ہے۔ پانی کے غیر قانونی ٹینکرز مافیا 2000 سے 2500 روپے فی ٹینکر کے درمیان مکینوں کو فروخت کر رہے ہیں، پانی کے واضح بحران کے باوجود، مقامی انتظامیہ نجی ٹینکرز مافیا اور زیر زمین پانی کا استحصال کرنے والے غیر مجاز کمرشل ٹیوب ویلوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہی ہے پانی کی فراہمی کی ذمہ داری کنٹونمنٹ بورڈز، واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) راولپنڈی پر آتی ہے۔ تاہم دونوں ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی بے لگام ترقی نے زیر زمین پانی کی سطح کو شدید متاثر کیا ہے۔ رہائشی ان غیر مجاز سرگرمیوں کی وجہ سے پانی کے ذرائع کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ 2023 میں، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اور شہریوں کو مناسب قیمتوں پر صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کا آغاز کیا۔ جس میں واٹر ٹینکر کے نرخوں کو معیاری بنانے اور صاف پانی کی فراہمی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سروے کے مطابق راولپنڈی شہر کے علاقوں میں 59 غیر مجاز واٹر ہائیڈرنٹس کی نشاندہی کی گئی، معلوم ہوا ہے کہ ضلع راولپنڈی میں 89 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس ہیں۔ راولپنڈی میں غیر قانونی کمرشل ٹیوب ویلوں نے پانی کی سطح کو کافی نیچے کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی گھریلو ٹیوب ویل سوکھ چکے ہیں۔جب تک قانون سازی کے ذریعے صراحت نہیں کی جائے گی، تب تک ہم زیرِ زمین پانی کی مؤثر انتظام کاری کی جانب نہیں بڑھ سکتے یہ کہ پنجاب میں زیرِ زمین پانی پر کئی مختلف اداروں کا کنٹرول ہے اور ان کے دائرہ کار کی حدود بھی ایک دوسرے کی حدود میں تجاوز کرتی رہتی ہیں, پنجاب حکومت فوری طور پر نئے قوانین منظور کرئے, پرائیویٹ افراد کی جانب سے چوراہوں,گلیوں, عوامی راستوں, ,سڑکوں ,پارکوں اور گراؤنڈز کے اطراف زیر زمین پانی کےغیر قانونی بورنگ پر مکمل پابندی عائد کرئے, ٹیوب ویلوں کی بورنگ کے لیے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے لائسنس حاصل کرنالازمی قرار دے غیر قانونی کمرشل ٹیوب ویلوں کے خلاف سخت کارروائی ، سخت جرمانے کیے جائیں، غیر قانونی کمرشل ٹیوب ویلوں کے کاروبار کو ریگولیٹ نہ کیا جائے زیر زمین پانی کی سطح 700 فٹ سے نیچے گر گئی ہے، جو کہ شہر، چھاؤنی اور دیہی علاقوں میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلانے والے مافیا کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔اگر زیر زمین پانی کے ذخائر کی کمی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکمے اس ناجائز کاروبار پر حاوی بااثر مافیا کے خلاف بے بس نظر آتے ہیں۔ان غیر قانونی ذرائع سے پانی مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے جس سے شہریوں کی حالت زار مزید بڑھ جاتی ہے ایک ٹینکر بمشکل دو دن کے لیے کافی ہے، ان کا حل حکومت کی زیر قیادت پانی کی اسکیموں کے نفاذ میں مضمر ہے۔ جب شہریوں کو جائز راستوں کے ذریعے وافر پانی فراہم کیا جائے گا تب ہی ناجائز پانی کی طلب میں کمی آئے گی تاہم راول ڈیم یا زیر زمین ٹیوب ویلوں کے پانی پر مکمل انحصار کرنا ناکافی ہے پنجاب حکومت کو راولپنڈی میں پانی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے دادوچہ ڈیم اور دیگر اہم انفراسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی لانی چاہیے قیمتوں یا پانی کے معیار پر کوئی ریگولیٹری کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کے پاس مافیا کے استحصالی طریقوں کا شکار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ,راولپنڈی میں پانی کا بحران نئے ڈیموں دادوچہ اور چہان کی تعمیر سےاور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبوں کی تکمیل سے ختم ہو سکتاہےکنٹونمنٹ اور سٹی ایریاز میں زیر زمین پانی کے ٹینکوں کی تعمیر سے روزانہ لاکھوں گیلن پانی دستیاب ہوسکے گا۔نئے دادوچہ اور چہان ڈیموں کی تعمیر پر کام جاری ہے۔ اسی طرح راول اور خان پور ڈیموں میں بھی پانی کی گنجائش بڑھائی جا سکتی ہے ہر سال راولپنڈی اور چکلالہ کنٹونمنٹس کے مکینوں کو پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے عوام کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے زیر زمین ٹینکوں کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے مختص فنڈز کے اجراء کو ترجیح دی جا ئے زیر زمین منصوبے جو کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے ہیں بھاٹا چوک میں 200,000 گیلن یومیہ اور گوالمنڈی میں 100,000 گیلن یومیہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے ساتھ زیر زمین پانی کے ٹینکوں کی تعمیر, نصیر آباد، برف خانہ چوک، غازی آباد، افشاں کالونی، ٹینچ بھٹہ، ٹاہلی موہری اور چکلالہ چھاؤنی کے وارڈ 7، 8، 9 اور 10 میں منصوبے جاری ہیں، ہر ایک کو 50،000 گیلن یومیہ ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہےیاد رہے کہ 16 فروری 2025 کو پاکستان کے محکمہ موسمیات کے خشک سالی کے الرٹ کے مطابق پانی اور صفائی کے ادارے (واسا) نے راولپنڈی میں خشک سالی کی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی تاکہ مکینوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ خشک سالی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، مختلف تجارتی سرگرمیوں اور محدود وسائل کی وجہ سے راولپنڈی شہر کے مکینوں کو پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے واسا راولپنڈی کو پانی کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس صورتحال کے پیش نظر راولپنڈی میں خشک سالی کی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ عوام پانی کا درست استعمال کریں واسا نے سروس سٹیشنوں سے کہا تھا کہ وہ 28 فروری 2025 تک پانی کی ری سائیکلنگ سسٹم انسٹال کریں۔ یاد رہے کہ طویل خشکی کی وجہ سے ڈیموں اور زیر زمین آبی ذخائر میں زبردست کمی آئی جس سے طلب اور رسد میں بڑا فرق پیدا ہوا تھا راولپنڈی شہر کو روزانہ 68 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے، جبکہ 51ملین گیلن موجودہ وسائل سے فراہم کیا جا رہا ہے، جس میں راول اور خان پور ڈیموں کے علاوہ 490 سے زائد ٹیوب ویل بھی شامل ہیں۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے پانی کے غیر ضروری استعمال اور ضیاع کو روکنے کے لیے ایک مہم شروع کی گئی تھی ,واسا کا سرکاری زمینی پانی تیزی سے ختم ہو رہا ہے 1990 کی دہائی میں پانی کی سطح 100 فٹ تھی لیکن اب یہ گھٹ کر 700 فٹ رہ گئی ہے ان ٹیوب ویلوں پر مزید فنڈز خرچ کیے جائیں گے جو رہائشیوں کو زیر زمین پانی فراہم کرتے ہیں۔ واسا نے عوام سے کہا تھاکہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور صفائی کے ادارے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ پانی ضائع نہ ہو واسا ان صارفین پر جرمانے عائد کرے گا جو اپنی کاریں دھونے اور گھروں میں پانی کی پائپ لائنوں کے رساؤ کے لیے پانی ضائع کریں گے سروس سٹیشنز، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آؤٹ لیٹس پر واٹر ری سائیکلنگ سسٹم نصب کریں، سروس سٹیشنز اور کمرشل یونٹس کو بارشوں کی آمد تک پانی کی بچت کے لیے صاف پانی ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ واضح رہے کہ محکمہ ماحولیات پنجاب پہلے ہی گاڑیوں کی دھلائی اور گھروں میں پانی کے پائپ کے استعمال پر پابندی لگا چکا تھا خلاف ورزی کرنے والوں پر 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ محکمہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق تمام غیر قانونی سروس اسٹیشنز کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا مزید یہ کہ واٹر ری سائیکلنگ سسٹم کے بغیر کام کرنے والے سروس اسٹیشنز کو 100,000 روپے کے بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئے ضوابط کی تعمیل کرنے کے لیے، پنجاب بھر کے سروس سٹیشنز کو 28 فروری تک واٹر ری سائیکلنگ سسٹم انسٹال کرنا تھا حال ہی میں یہ اطلاع ملی تھی کہ خانپور ڈیم سے راولپنڈی اور اسلام آباد کو پانی کی سپلائی 9 فروری سے 22 فروری تک 28.6 ملین گیلن یومیہ سے کم کر کے 10 ملین گیلن یومیہ کر دی گئی تھی