ہفتہ وحدت : بین الاقوامی سیرت النبی کانفرنس,امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کا مظہر. ….
(اصغر علی مبارک ) …… …
ہفتہ وحدت المسلمین اور بین الاقوامی سیرت النبی کانفرنس اسلامی دنیا میں اتحاد و اتفاق کے لیے بہترین موقع ہے پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یوم ولادت کے جشن اور ہفتہ وحدت اجتماعات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان ایام میں ہر سال سے زیادہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کا جشن شانہ بشانہ منا رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی قیادت نے بھی 12 ربیع الاول کی مناسبت سے خصوصی پیغام جاری کرتے ہوئے عہد کیا ہے کہ پاکستان کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سنہری اصولوں کے مطابق، تعمیر نو کیا جائے گا۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی الگ الگ پیغامات میں برابری، غربت کے خاتمے اور علم اور تحقیق کی ترویج پر زور دیا اور پاکستان کو ایک خوشحال اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اعلان کیا۔ ان بیانوں میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو نیک نیتی، نیک زبان اور نیک فطرت رکھنے کی تعلیم فرمائی نیز محبت، برادری اور امن کا پیغام دیا جسے آج مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔دارالحکومت اسلام آباد میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بین الاقوامی کانفرنس کا بھی اہتمام کیا گیا وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام سید المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے 1500 سالہ جشن کی مناسبت سے 50ویں بین الاقوامی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس جناح کنونشن سنٹر، اسلام آباد میں منعقد ہوئی اس سال کانفرنس کا موضوع تھا: “سوشل میڈیا کے مفید استعمال میں ریاستی ذمہ داریاں، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں”۔وزارت مذہبی امور نے اس موضوع پر لکھے گئے بہتریں مقالہ نگاروں کو انعامات سے نوازا۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر لکھے گئے تحقیقی مقالات اور نعتیہ و سیرت پر لکھی گئی نمایاں کتب کے مصنفین کو خصوصی انعامات دیے گئے۔ کانفرنس میں مختلف مکاتبِ فکر کے جید علما اور ممتاز اسکالرز نے مذکورہ موضوع پر اپنے علمی مقالات پیش کیے اور سوشل میڈیا کے مثبت استعمال، ریاستی ذمہ داریوں اور عصرِ حاضر کے تقاضوں پر تفصیلی روشنی ڈالی کانفرنس میں ملک و بیرونِ ملک سے مختلف مکاتبِ فکر کے جید علما، محققین، سیاسی و سماجی شخصیات اور سفارت کاروں نے شرکت کی۔ مقررین نے اپنے خطابات میں موجودہ دور میں سیرت طیبہ کی روشنی میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا اور کہا کہ نوجوان نسل کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی جانب راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس عظیم الشان کانفرنس کے موقع پر مظلوم فلسطینی کے حق میں بھرپور آواز بلند کی گئی۔ مقررین نے غزہ میں جاری صیہونی جارحیت اور مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ہم سب فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں، صیہونی ریاست کی دہشت گردی اور نسل کشی کسی طور قبول نہیں۔ امت مسلمہ متحد ہو کر فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ پیر سید عمران شاہ نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت کے دور میں دنیا کو علم کی روشنی سے منور کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سوشل میڈیا جدید زندگی میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے لیکن اس کے غلط استعمال کا مقابلہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ سوشل پلیٹ فارمز پر جعلی خبریں اور کردار کشی قرآنی اصولوں کی خلاف ورزی ہے جو معلومات کی تصدیق کا مطالبہ کرتی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے مواقع اور خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات اب اس کے مثبت استعمال سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہوں نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ غلط معلومات اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے قوانین نافذ کرے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا سید عبدالخبیر آزاد نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ سماجی برائیوں کے انسداد کے لیے نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کریں۔ انہوں نے ملک کے دفاع میں پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کے معرکہ حق میں فتح کو سچائی کی تاریخی کامیابی قرار دیا۔پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے زور دے کر کہا کہ اسلام میں غیر مصدقہ خبریں پھیلانا ممنوع ہے۔ انہوں نے غلط معلومات کی مہموں کو دشمنوں کی جانب سے عوام اور ریاست کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوششوں سے منسلک کیا۔ طاہر اشرفی نے فلسطین کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا ۔نائب صدر شیعہ علماء کونسل علامہ عارف واحدی نے تمام مسالک کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے پر وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی کاوشوں کو سراہا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لسانی، فرقہ وارانہ یا صوبائی منافرت کو فروغ دینا اسلامی تعلیمات کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ریاست کو روکنا چاہیے۔اجتماع میں سفارت کاروں، مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، مدارس و مکاتب کے طلباء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور کانفرنس کے موضوع میں وسیع عوامی دلچسپی کو اجاگر کیا۔ یہ یاد رکھیں کہ قرآن پاک کہتا ہے کہ (وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نا پڑو
(آل عمران 1۰3 )‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں چنانچہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے ۔قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ (جو طاغوت کی نفی کرتا اور اللہ پر ایمان لاتا ہے، بے شک اس نے بہت مضبوط سہارے کو تھام لیا ہے، (بقرہ 256) اس میں اللہ کی رسی سے تمسک اللہ تعالٰی کی ذات پر ایمان اور طاغوتوں کے انکار کے صورت میں ہونا چاہئے ۔ جب یکتا پرست معاشرے میں کہ جس کی نظر میں عالم ہستی کا موجد و مالک، عالم وجود کا سلطان اور وہ حی و قیوم و قاہر کہ دنیا کی تمام اشیاء اور ہر جنبش جس کے ارادے اور جس کی قدرت کی مرہون منت ہے، واحد و یکتا ہے تو پھر اس معاشرے کے انسان خواہ سیاہ فام ہوں، سفید فام ہوں یا دیگر رنگ والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہوں اور ان کی سماجی صورت حال بھی مختلف ہو، ایک دوسرے کے متعلقین میں ہیں ۔ کیونکہ وہ سب اس خدا سے وابستہ ہیں ۔ ایک ہی مرکز سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی جگہ سے نصرت و مدد حاصل کرتے ہیں یہ عقیدہ توحید کا لازمی و فطری نتیجہ ہے ۔ اس نقطہ نظر کی رو سے انسان ہی ایک دوسرے سے منسلک اور وابستہ نہیں ہیں، بلکہ توحیدی نقطہ نظر سے تو دنیا کے تمام اجزاء و اشیاء، حیوانات و جمادات، آسمان و زمین۔ غرضیکہ ہر چیز ایک دوسرے سے وابستہ اور جڑی ہوئی ہے اور ان سب کا بھی انسانوں سے رشتہ و ناطہ ہے ۔ بنابریں وہ تمام چیزیں جو انسان دیکھتا اور محسوس کرتا اور جس کا ادراک کرتا ہے وہ ایک مجموعہ، ایک ہی افق اور ایک دنیا ہے، جو ایک پر امن اور محفوظ دائرے میں سمائی ہوئی ہے ۔ راوی کہتا ہے میں نے امام ابو الحسن علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق دریافت کیا : « تم سب ایک ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو» آپ علیہ السلام نے فرمایا : علی بن ابی طالب اللہ کی مضبوط رسی ہے. امام باقر علیہ السّلام نے فرمایا : « آل محمد ہی اللہ کی رسی ہیں کہ جسے مضبوطی سے تھامنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، فرمایا : « تم سب ایک ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو»امت اسلامیہ پر چاروں طرف سے اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے یلغار ہو رہی ہے، ایسے حالات میں اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔یاد رکھیں کہ اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رحمت اللہ نے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد واتفاق قائم کرنے کے مقصد سے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یوم ولادت کو اتحاد کے مظہر کے طور پر استعمال کیا اور 12 سے17 ربیع الاول کے دورانیے کو ہفتہ وحدت کا نام دیا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ان ایام کی افادیت، اہمیت اور برکت پہلے سے زیادہ نمایاں ہوتی دکھاتی دیتی ہے اس سال بھی ہفتہ وحدت اور جشن میلاد النبی کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراو اور تنازعے سے گریزہے۔مسلمان فرقوں کے مابین نظریاتی طور پر بعض جزوی مسائل میں اختلاف ضرور ہے تاہم اللہ کی وحدانیت، آسمانی کتاب، پیغمبر اور قبلہ جیسے بنیادی مسائل میں وہ اشتراک نظر رکھتے ہیں۔ اسی طرح اہم عبادتوں جیسے نماز، روزہ، حج و زکوة میں بھی سبھی فرزندان اسلام متفق ہیں اور انہیں بنیادی مسائل و مناسک کی بنیاد پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسم مبارک کے سائے میں امت اسلامیہ متفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر با آسانی اکٹھا ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ اقدس امت مسلمہ کے درمیان نکتہ اتحاد ہے۔ عشق رسول تمام امت کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ ہے، اس کے نتیجے میں یقیناً دلوں سے کدورتیں دور ہو جائیں گی۔ مسلمان جب ہفتہ وحدت کی تقریبات میں شریک ہوں گے، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گے، اسلام کے حوالے سے ایک دوسرے کا نکتہ نظر سنیں گے اور ایک دوسرے کی محافل میں شریک ہو کر عشق رسول میں سرشار معاشرہ تشکیل دینے کی جدوجہد کریں گے تو یقین جانیئے کہ اس کے نتیجہ میں محبتیں بڑھیں گی، ایک دوسرے کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا، کینے، نفرتیں، دوریاں ختم ہوں گی اور دشمن کی ریشہ دوانیوں کو روکنے میں بہت مدد حاصل ہو گی۔ امت مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا قائم کرنے کے حوالے سے سب سے اہم ترین یہ ہے کہ تمام فرقے مل کر اپنے مشترکات کی بنیاد پر ساتھ میں جئیں اور جو ان کے امتیازی مسائل ہیں ان میں ایک دوسرے کو نہ چھیڑیں۔ اپنے عقائد و نظریات پر قائم رہتے ہوئے امت کو اکٹھا کرنے اور پرامن زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھیں لبرل ڈیموکریسی ہو یا مغربی تہذیب سب کی یہی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ باہم الجھائے رکھا جائے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر مشترکہ دشمن کے مقابلے میں اکٹھے نہ ہو سکیں۔ ذرا تصورکریں کہ اگرعالم اسلام متحد ہو جائے تو دنیا کی معیشت ان کے ہاتھوں میں ہو گی، دنیا کا تعلیمی نظام ان کے ہاتھوں میں ہو گا۔ دنیا کے سب سے عظیم اور بڑے ذخائر انہی ممالک کے پاس ہیں۔ ان کی اگر مشترکہ طاقت ہو گی، مشترکہ نظام بنے گا تو اس کے مقابلے میں مشرق و مغرب سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ پوری دنیا کے اندر مسلمانوں کی عزت نفس بحال ہو جائے گی۔ کوئی مسلمان کہیں پر بھی ظلم کا نشانہ نہیں بنے گا۔ عالم اسلام پوری دنیا میں اور گلوبلی طور پر ایک انتہائی بڑی طاقت بن جائے گی جس کو ہم’سپر پاور‘ کہہ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے تمام معاملات چونکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے اس لئے یہ کسی کے محتاج نہیں ہوں گے۔ یہ وہ عظیم تصور ، عظیم خواب ہے جس کی عملی تعبیر ممکن ہے ناممکن نہیں اتحاد و وحدت اور یکجہتی کے نتیجے میں وہ دن آئے گا جب عالمِ اسلام ایک بدن بن جائے گا اور پھر اس کے ثمرات دنیا کے ہر مظلوم انسان تک پہنچیں گے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان اتحاد، وحدت اور یکجہتی کے ثمرات ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ جب مسلمانوں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو داعش کو بھی شکست دیتے ہیں عراق کے اندر بھی ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں متحد ہو جاتے ہیں تو امریکہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے مشرق وسطیٰ میں یہ تجربہ دیگر سرزمینوں کے لئے بھی اہم ہے کہ ہم مسالک کے درمیان اتحاد و اخوت و بھائی چارے کی فضا اگر قائم کرنے میں کامیاب ہوں تو دشمن کی سازش کا مقابلہ ہم بآسانی کر پائیں گے۔ ورنہ آپس کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کے باعث ہم اسلام کی اس عالمگیر مصلحت سے محروم رہیں گے اور یہی مغربی طاقتوں کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ لہذا مسلمانان عالم اپنی صفحوں کے اندر برادری و اخوت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرپائے گی۔