اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ہندوتوا نظریہ کو پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے امن کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا ہےمودی سرکار کا ہندوتوا نظریہ اب محض سازشی جنون نہیں، بلکہ جھوٹ، نفرت اور غنڈہ گردی پر مبنی سیاسی ایجنڈا بن چکا ہے۔ ہندوتوا غنڈے مودی راج میں آزاد جبکہ بھارتی عوام صرف نفرت، تشدد اور بیہمانہ سلوک کا شکار ہو رہی ہے۔ مودی راج میں ہندوتوا پسندوں کے ہاتھوں نہ صرف اقلیتیں بلکہ غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔مودی کا بھارت اب انصاف نہیں، ہندوتوا جنون کا میدانِ جنگ بن چکا ہے جہاں قانون صرف اکثریتی غنڈوں کا غلام ہے۔ مودی راج میں ہندوتوا دہشتگرد آزاد، سچ بولنے والے غدار، اور غنڈے ’راشٹروادی ہیرو‘ بنا دیے گئے۔ یاد رہے کہ بھارت بی جے پی کے اقتدار میں ہندو انتہا پسندی کا گڑھ بن چکا ہے
ہندوتوا ایک سیاسی منصوبہ ہے جس کا مقصد اکثریتی ہندو راشٹرا کی تشکیل ہے بھارت میں بی جے پی، آر ایس ایس اور شیو سینا جیسی تنظیموں کے ذریعے ہندوتوا نظریے کا راج ہے بھارتی ویب سائٹ کی جانب سے ہندوتوا اور صیہونیت میں مماثلت کے حوالے سے آزاد عیسٰی کی کتاب کا تجزیہ جاری کیا گیا کتاب کے مطابق: ہندوتوا کے بانی ساورکر نے 1939 میں مسلمانوں کو ہندوستان کا یہودی قرار دے دیا تھا ہندوتوا اور صیہونیت کی تاریخ کے بارے میں لکھا کہ؛ پہلی جنگ عظیم کے بعد صہیونی تحریک نے فلسطین پر قبضے کی بنیاد رکھی,ہندو قوم پرستوں نے یورپی فاشزم اور صہیونیت دونوں کی حمایت کی، ہندوتوا اور صہیونیت کا مشترکہ مقصد “دوسرے مذاہب” کی شناخت کو مٹانا اور ایک قوم بنانا ہے، ہندوتوا اور صہیونیت “دو قدیم تہذیبوں” کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں، مودی سرکار نے صیہونیت کے تحت فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری اور شہریت کی منسوخی کو خوب سراہا مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور ہندو آبادکاروں کی رجسٹریشن، اسرائیلی نیشن اسٹیٹ قانون کی طرز پر ہیں,دونوں ممالک اسرائیل اور بھارت میں مسلمان اقلیتوں کو شہریت سے محروم کرنے کیلئے کالےقانون بنائے جارہے ہیں, بی جے پی کے دور میں مسلمانوں کے گھروں کو تجاوزات کے نام پر بلڈوزر کرنا بھارتی ریاستی پالیسی بن چکی ہے شیو سینا نے ممبئی میں مسلمانوں کو رہائشی سوسائٹیوں سے نکالنے کی منظم مہم چلائی,آسام میں این آر سی کے تحت مسلمانوں بالخصوص بنگالیوں کو شہریت اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا ہندوتوا نظریے کی بنیاد پر انتخابات کے دوران مسلم مخالف تقاریر کر کے ووٹ حاصل کرنا بی جے پی کا ایجنڈا ہے ہندوتوا و صیہونی نظریات خطے کی سلامتی، مسلمانوں کے تحفظ اور عالمی سالمیت کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں عطا اللہ تارڑ نے پہلگام واقعہ میں پاکستان پر الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا نظریہ امن کے لیے بڑا خطرہ ہے، عالمی سطح پر بھارت کی رسوائی اور پاکستان کی شنوائی ہورہی ہے۔ اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے زیر اہتمام جنوبی ایشیا میں قیام امن پر پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نےکہا کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو ایک مختلف زاوئے سے دیکھنا ہوگا، پاکستان جنوبی ایشیا میں امن کے لئے بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت میں ہندوتوا نظریہ امن کے لیے بڑا خطرہ ہے، بھارت نے جنوبی ایشیا میں امن سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، وہ پاکستان میں بھی دہشتگردوں کی پشت پناہی کررہا ہے، پہلگام واقعہ کا ہم پر بے بنیاد الزام عائد کیا گیا، ہم نے دنیا سے کہا کہ پہلگام واقعہ پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور ہم نے سفارتی سطح پر دنیا کے سامنے اپنا بیانہ پیش کیا۔ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ملک ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ہم ہرطرح کی جارہیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان کی امن کی خواہش کو ہرگز کمزوری نہ سمجھا جائے۔ بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، پانی ہماری بقا ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی قابل قبول نہیں۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن ناممکن ہے، معرکہ حق کے بعد مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر دوبارہ زندہ ہوگیا ہے، یہ مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی ہے، عالمی سطح پر بھارت کی رسوائی اور پاکستان کی شنوائی ہورہی ہے۔ہندوتوا کو بھارت کی قومی سیاست کا مرکز و محور بنانے میں اہم ترین کردار وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ادا کیا ہے جو بیک وقت ملک کے مقبول ترین اور متنازع ترین سیاسی رہنما ہیں۔ نریندر مودی کا تعلق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے لیکن ان کے سیاسی فلسفے پر سب سے زیادہ اثر سو برس قبل قائم ہونے والی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہے۔ مودی اپنی نوجوانی میں آر ایس ایس میں شامل ہوگئے تھے۔ سن 1960 میں انہیں آر ایس ایس میں لانے والے 76 سالہ امبلال کوشتی کا کہنا ہے “ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں اتنی طاقت ملے گی۔” ہندوستان کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی فرقہ ورانہ کشیدگی کے بعد ہندوستان میں جس وقت مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد کی تبلیغ کررہے تھے، اس سے چند دہائیوں قبل آر ایس ایس پوری قوت کے ساتھ ایک ہندو ریاست یا ہندو راشٹر کا نعرہ لے کر اٹھی تھی۔ مہاتما گاندھی 1948 میں آر ایس ایس کے ایک سابق کارکن ناتھو رام گوڈسے کی گولیوں کا نشانہ بنے گزشتہ دس برسوں کے دوران نریندر مودی نے جو اقدامات کیے ہیں اس میں آر ایس ایس سے حاصل ہونے والی سیاسی و روحانی تربیت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس عرصے میں بھارت ایک عالمی قوت کے طور پر ابھرا ساتھ ہی ان کے دورِ حکومت میں بھارت کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں میں اضافہ ہوا ۔ وزیرِ اعظم مودی نے ریاست اور مذہب کے درمیان حائل لکیر کو بہت مدھم کردیا ہے جب کہ میڈیا، سیاسی مخالفین اور عدالتوں کو درپیش خدشات میں اضافے کی وجہ سے بھارت میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ 74 سالہ مودی مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بنے ہیں وزیرِ اعظم نریندر مودی کو راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں لانے والے ان کے دوست کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں اتنی طاقت ملے گی اپنے طرزِ حکمرانی کو مودی نے ’گجرات ماڈل‘ کا نام دیا اور اپنے اس امیج کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کے لیے راستہ ہموار کیا مودی نے بھارت میں ہندو قوم پرستی کو مقبول سیاسی نظریہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ ہِندُتْوَ ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک چلے جانے کا اصطلاحی نام ہے۔ یعنی ہندو قومیت کی بالادستی کا متشدد نظریہ ہے۔ ونائیک دمودر سورکر نے 1923ء میں اس اصطلاح کا پرچار کیا تھا۔ قوم پرست ہندو رضاکار تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور ہندو سینا نے اس نظریے کو بام عروج پر پہنچا دیا ہندوتوا تنظیموں کو ان کے بیانات یا طریقوں پر اعتقاد کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہندو تنظیمیں ، دوسرے مذہبی گروہوں کی طرح ، دعوی کرتی ہیں کہ قدیم ہندو صحیفوں میں بہت سارے سائنسی حقائق موجود ہیں مودی نے ایک ارب 40 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک میں ہندو قوم پرستی کو مقبول بنایا ہے بلکہ اس کے استعمال سے اپنے اقتدار کو بھی طول دیا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جو مختلف ثقافتوں اور مذاہب پر مشتمل معاشر ہ تھا۔مودی کی حکمتِ عملی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مودی نے 80 فی صد ہندو آبادی رکھنے والے ملک میں اپنا ووٹ بینک بنایا.مودی کے سوانح حیات لکھنے والے مصنف نلنجن مکھپادھیائے کا کہنا ہے کہ مودی 100 فی صد آر ایس ایس کی پراڈکٹ ہیں اور اسی کے مقاصد پورے کر رہے ہیں۔ مودی 1950 میں ایک پس ماندہ برادری میں پیدا ہوئے تھے۔ آر ایس ایس سے ان کا پہلا تعارف اس تنظیم کی تربیتی نشستوں کے ذریعے ہوئے تھا جنہیں ’شاکھا‘ کہا جاتا ہے۔ ان نشستوں میں شامل نوجوانوں کو مذہبی تعلیم اور جسمانی تربیت بھی دی جاتی ہے۔مودی 1970 کی دہائی تک آر ایس ایس کے ایک فعال کارکن بن چکے تھے اور اپنی بائی سائیکل پر آر ایس ایس کے لیے پرچار شروع کرچکے تھے۔ آر ایس ایس 1925 میں قائم ہوئی تھی۔آر ایس ایس کے مطابق ہندوستانی تہذیب اور ہندومت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کا نظریہ ہندو برتری پر مشتمل ہے۔
پروگرام کے مطابق اس تنظیم کا مقصد ہندوؤں کو مضبوط بنانا تھا۔ آر ایس ایس کے کئی ذیلی گروپ بن چکے ہیں۔ اس کے نیٹ ورک میں طلبہ اور کسان یونینز شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کئی ایسے نجی گروپ بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جن پر تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک کو طاقت اور قائم رہنے کا جواز بی جے پی سے حاصل ہوتا ہے جس نے خود آر ایس ایس ہی کی فکر سے جنم لیا ہے۔گاندھی کے قاتل کے آر ایس ایس سے تعلق اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی سے متعلق اس تنظیم پر کئی سوالات تھے۔ مودی سے پہلے بی جے پی کو بھارتی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں تھی لیکن مودی کے بعد بی جے پی اپنے بل پر تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی جو آر ایس ایس کے لیے غیر معمولی کامیابی ہے۔مودی کو پہلی بڑی سیاسی کامیابی 2001 میں ملی جب وہ اپنی آبائی ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ اس کے چند ماہ بعد گجرات میں مسلم مخالف فسادات ہوئے ان فسادات میں کم از کم ایک ہزار افراد کی جانیں گئیں۔ ان فسادات کو مودی کی خاموش تائید حاصل تھی وہ خود ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت شواہد کی عدم دستیابی کی بنا پر انہیں ان الزامات سے بری بھی کرچکی ہے۔گجرات فسادات کی وجہ سے نریندر مودی کو نقصان ہونے کے بجائے ان کے سیاسی کریئر کو نئی قوت حاصل ہوئی اس کے بعد سے مودی نے ہندو قومی پرستی پر زیادہ توجہ دینا شروع کی اور سیاسی مفادات کے لیے مذہبی تقسیم کا استعمال شروع کردیا۔فسادات کی وجہ سے ریاست گجرات کا امیج بہت خراب ہوا اس لیے مودی نے ناصرف بڑے سرمایہ داروں سے قریبی مراسم پیدا کیے اور ان کی حمایت حاصل کی بلکہ ریاست میں بڑے کاروباری گروپس سے فیکٹریاں تعمیر کروائیں اور معاشی تعمیر و ترقی کے ذریعے اسے کامیاب ماڈل بنا کر پیش کیا۔ مودی رفتہ رفتہ مطلق العنان بنتے چلے گئے۔ انہوں نے پولیس اور قانونی نظام پر سارا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا اپنے طرزِ حکمرانی کو مودی نے ’گجرات ماڈل‘ کا نام دیا اور اپنے اس امیج کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کے لیے راستہ ہموار کیا مودی نے ہندو قوم پرستی کو مقبول سیاسی نظریہ بنانے کے لیے گجرات کی صورت میں ایک عملی ماڈل پیش کیا۔ وہ اب اس ماڈل کو پورے بھارت میں پھیلا چکے ہیں, ان کے حامی انہیں مضبوط دیکھتے ہیں۔انہیں ایسے سرمایہ داروں کی بھی پوری مدد حاصل ہے جن کی دولت میں ان کے اقتدار کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔مودی نے بھارت کو چین کا متبادل بنا کر پیش کیا ہے۔مودی کے عروج نے آر ایس ایس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا 2019 میں ان کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی جو کہ بھارت کے انتظام واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ شہریت کا متنازع قانون منظور کیا جس میں سوائے مسلمانوں کے بھارت منتقل ہونے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مودی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کیا جو آر ایس ایس اور کروڑوں ہندوؤں کا دیرینہ خواب تھا۔ بی جے پی کا اصرار ہے کہ وہ تمام بھارتی شہریوں کے یکساں مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ مودی کی سیاست ایسے لوگوں کے لیے کشش رکھتی ہے جو بھارت کو ہندو ملک کے طور پر پیش کر رہے ہیں