LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک کے سخت اقدامات ،خانیوال سے منشیات فروشی کا 90 فیصد خاتمہ ھو چکا

Share this to the Social Media

آسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک کے سخت اقدامات ،خانیوال سے منشیات فروشی کا 90 فیصد خاتمہ ھو چکا ۔ 1 سال سے منشیات فروشوں کیخلاف جاری آپریشن کے نتیجہ میں موت کے سوداگروں کی کمر ٹوٹ چکی سینکڑوں مقدمات درج، سینکڑوں منشیات فروش جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند،بے شمار ضلع سے فرار،متعدد انڈر گراؤنڈ چلے گئے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات بشمول ہیرون، شراب، آئس، بھنگ، چرس، صمد بونڈ، انجکشن، کوریکس، ٹینو شربت، کوکین، شراب، پیٹرول، نشہ آور گولیاں، نشہ افیون، گانجا، گٹکا، چھپکلی پوڈرخانیوال پولیس نے تلف کرکے نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ذرائع کے مطابق خانیوال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منشیات فروش عید سپلائی دینے میں ناکام،خانیوال کے 18تھانوں کی نگرانی جاری، مخبر بھی الرٹ، وزیراعلیٰ پنجاب کے منشیات فری پنجاب ویژن پر عملدرآمد کرتے ہوئے ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک نے اپنی تعیناتی کے بعد منشیات فروشوں کے خلاف مہم جاری رکھی جس کے تحت موت کے سوداگروں کے خلاف ضلع بھر میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اس بلاتفریق آپریشن کے نتیجہ میں خانیوال جسے ماضی میں منشیات فروشوں کی جنت سمجھا جاتا تھا ضلع بھر میں منشیات فروشی کا کالا دھندہ تیزی سے ختم ہورہا ہے ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران خانیوال پولیس نے منشیات فروشوں کیخلاف سینکڑوں مقدمات درج کئے بھاری تعداد میں منشیات فروش گرفتار کئے اور کروڑوں روپے مالیت کی منشیات بشمول شراب، چرس،ہیرون پکڑی جس کے نتیجہ میں آج خانیوال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر منشیات فروش خانیوال میں شراب کی سپلائی دینے میں کانام رہے۔ماضی میں اسماعیل کھاڑ ک کی بطور ڈی پی او خانیوال تعیناتی سے قبل خانیوال میں منشیات فروشی منافع بخش بزنس بن گیا تھا موت کے سوداگر سالانہ پچاس کڑور کا دھندہ سرعام کر رہے تھے خانیوال پولیس کو بھی منشیات فروشوں کی جانب سے پرکشش ہفتہ دیا جاتا تھا نوجوان نسل کو 25 سے زائد اقسام کی اشیائے نشہ فراہم کی جاتی تھی گھر کے برتن اور ماؤں کے زیوارات تک مارکیٹ میں نیلام ہو گئے تھے ایلیٹ کلاس کی لڑکیاں بھی نشے کی لت میں مبتلا ہو چکی تھی تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سنٹروں میں بھی سپلائی بلا روک ٹوک جاری تھی۔ستم ظریفی کی انتہا یہ تھی کہ سرکاری قید خانہ میں قیدیوں کو بھی منشیات کی خوراک باآسانی مل جاتی تھی۔آئس جیسا مہلک نشہ بھی خانیوال کی مارکیٹ میں جگہ بنا چکا تھا منشیات کی 25 کے لگ بھگ اقسام مارکیٹ میں موجودتھی جن میں ہیرون، شراب، آئس، بھنگ، چرس، صمد بونڈ، انجکشن، کوریکس، ٹینو شربت، کوکین، شراب، پیٹرول، نشہ آور گولیاں، نشہ افیون، گانجا، گٹکا، چھپکلی پوڈر شامل ہے۔ خانیوال ضلع میں منشیات، نشہ اور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعدادپچاس تک پہنچ چکی تھی جبکہ نشے کی یہ عادت ہر سال تقریباً ایک ہزار ہلاکتوں کی وجہ بنتی تھی خانیوال میں کرونا سے زیادہ منشیات نے تباہی مچا رکھی تھی خانیوال شہر کے تینوں تھانوں صدر، کہنہ، سٹی سمیت کچاکھوہ، چھپ اور تلمبہ میں منشیات فروشوں کا طوطی بول رہا تھا اب تو مسجد سے بھی منشیات کیخلاف آوازیں بلند ہو رہی تھی اس زمانے میں خانیوال منشیات کی سب سے بڑی منڈی میں تبدیل ہوچکا تھا جبکہ شہری منشیات فروشوں کے رحم و کرم پر تھے۔زرائع نے بتایا ھے کہ خانیوال کی چاروں تحصیلوں میں منشیات فروشی کا دھندا دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا پنجاب حکومت کی منشیات کی روک تھام کے لیے جتنی بھی کوششیں کر رہی ہے وہ ابھی تک خانیوال میں مؤثر ثابت نہیں ہوئیں تھی موت کی پڑیاں باآسانی پہنچ رہی تھی ان میں بھی سب سے بڑی تعداد پندرہ سے لے کر 26 سال تک کی عمر کے نوجوان افراد کی تھی دوسرا سب سے بڑا گروپ پندرہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تھی منشیات فروشوں کا تیز ترین نیٹ ورک خانیوال میں کام کر رہا تھا منشیات کی کھیپ خانیوال میں پہنچتے ہی ایک گھنٹہ کے اندر ضلع کے ھر کونے تک اس کی باآسانی سے مل جاتی تھی جبکہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے منشیات کے استعمال کیخلاف موثر کارروائی کرنے سے قاصر تھے۔اس لیے منشیات فروشی اور اسکے استعمال میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی چشم پوشی اور غفلت لاپرواہی کے باعث منشیات فروشوں نے قبرستانوں کو محفوظ پناہ گاہ بن گیا تھا منشیات اور شراب کے نشئیوں نے قبرستانوں میں ڈیرے قائم کر لئے تھے قبرستانوں میں جوئے کے اڈے بھی قائم ہو چکے تھے جہاں منشیات فروش شام ہوتے ہی قبرستانوں میں منشیات فروخت کرنے کے لئے پہنچ جاتے تھی پولیس سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی تھی شہر کے قبرستانوں کی حدود میں متعلقہ تھانوں کے افسران نے کبھی پولیس اہلکار تعینات نہیں ہوا جسکی وجہ سے منشیات فروشوں کیلئے شہر کے قبرستان محفوظ پناہ گاہ بن چکے تھے۔ خانیوال شہر کا مرکزی قبرستان سب سے زیادہ منشیات فروشی کیلئے استعمال ہو رہی تھی منشیات فروشوں نے بستی چن شاہ قبرستان پیرووال قبرستان، کبیروالا شہر کا قبرستان اور خانقاہوں کو مسکن بنا رکھا تھا پولیس کی چشم پوشی کی وجہ سے منشیات فروشوں نے مستقل بنیادوں پر ڈیرے جما لئے تھے جس کی وجہ سے اب قبرستان بھی غیر محفوظ تصور کئے جاتے تھے خانیوال کے بیشتر علاقوں میں منشیات فروشی اورمنشیات نوشی عروج پر پہنچ چکی تھی منشیات فروشی کی لعنت جس تیزی سے بڑھ رہی تھی اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ یہ پولیس کے تعاون اور سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی منشیات کی تمام اقسام خانیوال کے علاقوں اور چکوک میں سرعام فروخت ہو رہی تھی۔گلیوں، خالی پلاٹوں، زیر تعمیر مکانوں، گندے نالوں پر فروخت ہورہی تھی پوش علاقوں سول لائن، گرین ٹاؤن، گلزار ابراہیم میں پار ٹی کے نام پرشراب نوشی، چرس، کوکین، افہیم اور شیشہ کے نشے کیے جاتے تھے ایسے واقعات بھی ہوچکے تھے جن میں نشئی افراد نشہ کے لیے خرچہ نہ ملنے پر اپنی ماں، باپ، بھائی، بہنوں اور بیویوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھے نشئی افراد اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے محلہ کے باہر کھڑی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں کے شیشے یا پھر ویل کپ،چھوٹے بڑے سپیئر پارٹس، گلیوں کے گٹروں کے ڈھکن اور سرکاری ٹیوپ لائٹس تک بھی چوری کر لیتے تھے جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران خانیوال میں سٹریٹ کرائم کا گراف بھی بڑھ گیا تھا روانہ کی بنیاد پر وارداتیں ہو رہی ہیں۔جنوبی پنجاب میں ملتان کے بعد خانیوال میں سب سے زیادہ منشیات کا استعمال کیا جاتا تھا۔شہریوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ چرس،شراب، حشیش، ہیروئن، بھنگ ٹرینکولائزر، کوکین اور اوپیم شہر میں ہر جگہ دستیاب تھا اور نجی اور عوامی شعبے میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کا پروگرام نہ ہونے کے باعث یہ دھنداخوب پھل پھول رہا تھا پولیس ریکارڈ کے مطابق خانیوال بھر میں سو سے سے زائد منشیات کے اڈے چل رہے تھے جن کی اکثریت اب بند ہوچکی ہے۔منشیات فروشوں کی بڑی تعداد جیلو ں میں ہے یا پھر علاقہ بدر ہوچکے ہیں اور ڈی پی او اسماعیل کھاڑک کے تبادلہ کا انتظار کررہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ماضی میں خانیوال کے 15علاقوں میں پشاور سے منشیات سپلائی کی جاتی تھی، ان علاقوں میں خانیوال کے لاری اڈے، جمعیہ آباد، خرم پورہ، کھوکھر آباد، بستی نظام آباد، خانیوال کہنہ شامل تھے۔چرس کی خواتین اور طالب علمو ں میں خاصی مانگ تھی اور یہ منشیات کی ہلکی کوالٹی کے مقابلے میں نسبتاً مہنگی تھی۔ذرائع کے مطابق زیادہ نشہ کرنیوالے افراد اور نوجوانوں کو نشے کے انجیکشن فروخت کیے جاتے تھے جبکہ خانیوال شہر میں شیشہ پینے کا رحجان بھی بڑھ رہا تھا وابستہ تمام افراد انتہائی اثر و رسوخ رکھتے تھے شہر میں پچاس سے زائد شیشہ بار کام کر رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر پوش علاقوں میں واقع تھے اور ان میں سے اکثر بارز میں پرائیویٹ کمرے تھے جہاں نوجوانوں کو ہر طرح کا نشہ فراہم کیا جاتا تھا جو کہ اب بند ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی پی او اسماعیل کھاڑک نے منشیات فروشی کیخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کررکھی ہے۔جس کے تحت خانیوال میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا منشیات فری پنجاب ویژن مکمل ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔خانیوال کے شہریوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف او رڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک کو خراج تحسین پیش کیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *