LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) .پاکستانی عسکری اور سیاسی قیادت کا بھارتی مہم جوئی پر منہ توڑ جواب دینے کا دبنگ

Share this to the Social Media

اصغرعلی مبارک

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ,پاکستانی عسکری اور سیاسی قیادت نے ایک بار پھر بھارتی مہم جوئی پر منہ توڑ جواب دینے کا دبنگ اعلان کیا ہےخاص طور پر سامنے سے قیادت کرتے ہوئے پاکستان کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کا بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کا دبنگ اعلان کڑوروں پاکستانیوں کے دلوں کی آواز ہے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ کیا, جہاں “ایکسسرسائز ہیمر اسٹرائیک”میں جنگی تیاریوں، جدید ٹیکنالوجی کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔

آرمی چیف آف جنرل عاصم منیر نے ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینجز کا بھی دورہ کیا، پاک فوج کی منگلا اسٹرائیک کور کی جانب سے اعلیٰ درجے کی جنگی مشق “ایکسسرسائز ہیمر اسٹرائیک” کا انعقاد کیا گیا۔ایکسرسائز کے دوران آرمی چیف کی آمد پر کور کمانڈر نے ان کا شانداراستقبال کیا۔بیان کے مطابق مشق کا مقصد میدان جنگ کی حقیقی صورت حال میں پاک فوج کی حربی تیاری، مشترکہ عملی ہم آہنگی اور جدید اسلحہ جاتی نظام کے عملی انضمام کا مظاہرہ تھا۔ مشق میں کثیرالجہتی فضائی طاقت، طویل فاصلے تک مار کرنے والی آرٹلری، جنگی ہیلی کاپٹرز اور جدید انجینئرنگ تکنیکوں کا کامیاب استعمال کیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ تمام ہتھیاروں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے جوانوں نے زبردست ہم آہنگی، چابک دستی اور مہارت کے ساتھ مربوط مظاہرہ کیا۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے افسروں اور جوانوں کے بلند مورال، پیشہ ورانہ صلاحیت اور جنگی جذبے کو سراہا اور اس سے پاک فوج کی آپریشنل برتری کا عملی عکس قرار دیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ بھارت کی کسی بھی قسم کی عسکری مہم جوئی کا فوری، دوٹوک اور بلند سطح کا جواب دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی امن کا خواہاں ہے مگر قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہماری تیاری اور عزم غیر متزلزل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایکسسرسائز “ہیمر اسٹرائیک” پاک فوج کی مسلسل پیشہ ورانہ ترقی، جنگی حکمت عملی میں جدت اور تکنیکی جدیدیت کے سفر کی ایک اہم مثال ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق اعلیٰ عسکری قیادت، فارمیشن کمانڈرز اور مختلف سروسز سے تعلق رکھنے والے معززین نے مشق کا مشاہدہ کیا۔ دوسری طرف صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے جارحانہ رویے اور اشتعال انگیز بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ قوم متحد اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد صدر پاکستان اور وزیراعظم کے درمیان اہم ملاقات ہوئی، جس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی موجود تھے۔ صدر مملکت اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ملاقات کے دوران صدر اور وزیراعظم نے بھارت کے جارحانہ رویے اور اشتعال انگیز بیانات پر تشویش کا اظہار کیا۔ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں بھارت کے جارحانہ رویے، ممکنہ جارحیت پر پاکستان کے ردعمل کا جائزہ لیا گیا جبکہ بھارت سے کشیدگی کے پیش نظر سیکیورٹی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں پہلگام حملے کے حوالے سے بھارتی قیادت کی جانب سے بغیر کسی تحقیقات کے لگائے گئے الزامات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

ملاقات میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ، بے پناہ انسانی اور معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، عالمی برادری دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پاکستان میں عسکریت پسندوں کو فنڈنگ، تربیت اور بھیجنے میں بھارت کے ملوث ہونے کا نوٹس لے۔ صدر مملکت نے بھارتی بے بنیاد الزامات پر حکومت کے ردعمل اور ذمہ دارانہ انداز میں صورتحال سے نمٹنے کو سراہا۔ آصف زرداری نے کہا کہ پاکستان ہر قیمت پر اپنی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور اہم قومی مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور پاکستان کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔ صدر مملکت اور وزیراعظم کے ملاقات کے اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارتی رویے سے علاقائی امن کو خطرہ ہے تاہم پاک فوج خطرے اور جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جب کہ قوم متحد اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ واضح رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے بے جا الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ بھارت نے حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور سفارتی عملے کو 30 اپریل 2025 تک بھارت چھوڑنے کی ہدایت کردی تھی۔ پاکستان نے بھارت کی اشتعال انگیزی کا جواب دیتے ہوئے شملہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کی معطلی کا عندیہ دیتے ہوئے بھارت کے لیے فضائی حدود، سرحدی آمد و رفت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یاد رہے کہ
پاکستان پہلے ہی پہلگام واقعے کی شفاف تحقیقات چاہتا ہے، پاکستان آج بھی دنیا اور دہشت گردی کے درمیان ایک دیوار کی طرح ہے، بھارت کو بیانیے اور سفارتی محاذ پر ناکامی ہوئی ہے۔بھارت کسی بھول میں نہ رہے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے، پاکستان نے بھارت کے عزائم کھل کر دنیا کے سامنے رکھ دیے ہیں۔پاکستان خطے میں امن اور بھارت دہشتگردی کے لیے معاونت کر رہا ہے، بھارت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار گیا ہےمشترکہ پریس کانفرنس میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر بھارت فوجی محاذ آرائی کا راستہ چنتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ معاملہ کہاں جاتا ہے یہ ہم پر منحصر ہے۔ فوجی تصادم کا راستہ بھارت نے چنا تو یہ ان کی چوائس ہے، آگے معاملہ کدھر جاتا ہے وہ ہماری چوائس ہے، ہم نے جوابی کارروائی کے تمام اقدامات مکمل کرلیے ہیں،پاک فوج پوری طرح ہر محاذ پر کسی بھی خطرے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ہم اس واقعے کے حقائق پر جائیں گے الزامات پر نہیں، اگر الزام یہ ہے کہ پاکستانی سرزمین سے کسی نام نہاد دہشت گردوں نے یہ واقعہ انجام دیا تو آپ کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ پہلگام کسی بھی پاکستانی قصبے سے 200 کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوع سے کسی کو بھی پولیس اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے آدھا گھنٹہ درکار ہوگا، تو ایف آئی آر کے مطابق یہ کیسے ممکن ہے کہ 10 منٹ میں پولیس وہاں پہنچ بھی گئی اور پھر واپس جاکر ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ پہلے ہی اس کی تیاری کرچکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی انٹیلی جنس کے پاس اس واقعے کی خبر نہیں تھی لیکن جب واقعہ ہوگیا تو پھر 10 منٹ کے اندر ہی انہیں اتنی انٹیلی جنس مل گئی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ ہینڈلر سرحد پار سے آئے تھے جب کہ مستقل یہ بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائی مذہب کی بنیاد پر کی گئی اور مسلمانوں کو چھوڑ کر ہندوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ ہی دیر بعد یہ بیانیہ بنانا شروع کردیا گیا کہ یہ دہشت گرد مسلمان تھے، جنہوں نے سیاحوں کو قتل کیا جب کہ ہمارا موقف ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، نہ تو مسلمان دہشتگرد ہوتے ہیں، نہ ہی عیسائی اور نہ ہی ہندو دہشت گرد ہوتے ہیں، کیونکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ترجمان پاک فوج نے پہلگام واقعے میں شہید ہونے والے مسلم شخص کے بھائی کا ویڈیو کلپ شرکا کو دکھایا جس میں شہید کا بھائی کہہ رہا ہے کہ اس واقعے میں میرا بھائی بھی شہید ہوا جو مسلمان ہے، تو یہ بات غلط ہے کہ صرف ہندوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ بھارت کی جانب سے یہ خود ساختہ بیانیہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے چند منٹ بعد ہی بھارتی ایجنسیوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کردیا گیا اور پھر کچھ ہی دیر میں الیکٹرونک میڈیا نے بھی پاکستان کو اس واقعے کے لیے مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا لیکن اب تک اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جن سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پروپیگنڈا شروع ہوا وہ ’ دہشتگردی کے کاروبار ’ میں بہت پہلے سے ہیں، اسی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے 4 نومبر 2023 کو میانوالی میں دہشتگردی کی کارروائی سے ایک روز قبل پوسٹ کی گئی ’کل بڑا دن ہے‘ اور اگلے دن کارروائی کے بعد ٹوئٹ کیا گیا ’ویلکم میانوالی‘ اور پھر ہم نے فتنہ الخوارج کی دہشت گردانہ کارروائی دیکھی۔ 6 اکتوبر 2024 کو کراچی میں چینی شہریوں پر حملے سے قبل اسی ہینڈل سے ٹوئٹ کیا جاتا ہے کہ اگلے چند گھنٹوں میں کچھ بڑا ہونے والا ہے اور پھر یہی سے اعلان کیا جاتا ہے ’کراچی میں بڑا دھماکا‘۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ یہاں دنیا کے یہ سمجھنے کے لیے اشارہ موجود ہے کہ سوشل میڈیا پر کیسے کوریو گرافی کی جارہی ہے کہ ہم کب اور کہاں کچھ کرنے والے ہیں اور پھر چند لمحوں پر الیکٹرانک میڈیا پر بھی خبریں چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا، جعفر ایکسپریس کے واقعے پر بھی اس اکاؤنٹ سے کہا گیا کہ ’ آج اور کل اپنی نظریں پاکستان پر رکھیں’ اور پھر اس کے بعد جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائب وزیراعظم نے جو سوال اٹھائے ہیں وہی سوالات بھارت کے اندر سے بھی اٹھائےجارہے ہیں بلکہ اس واقعے کے حوالے سے سب سے بلند آوازیں بھارت سے ہی آرہی ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت دہشت گردی کے واقعات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، فروری 2019 میں پلوامہ حملے کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، اور اب دیکھ رہے ہیں کہ پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سازش پاکستان کی مسلسل اور سخت محنت سے جیتی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور معیشت کی بحالی کی کامیاب کوششوں سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ بھارت کی مختلف جیلوں میں قید سیکڑوں پاکستانیوں کو جعلی مقابلوں میں دہشت گرد اور درانداز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے ثبوت کے طور پر ایک نوجوان ضیا مصطفیٰ کی تفصیلات پیش کیں جسے اکتوبر 2013 میں بھارتی فوج نے حراست میں لیا تھا اور پھر اسے جعلی مقابلے میں 14 اکتوبر 2021 کو مار دیا گیا تھا۔بعدازاں، ضیا مصطفی کے اہل خانہ کے ویڈیو کلپ دکھائے گئے، جن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ضیا مصطفیٰ کو جعلی مقابلے میں مارا گیا اور اس کی لاش بھی اہلخانہ کو نہیں دی گئی۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا ہےکہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا ترجمان جعفر ایکسپریس حملے کے بعد متعدد بھارتی نیوز چینلز پر نمودار ہوا، جہاں اسے کھلے عام سراہا گیا، جبکہ اس حملے کے بعد کالعدم بی ایل اے کے دہشت گرد کے موبائل سے بنائی ہوئی حملے کی فوٹیج سب سے پہلے بھارتی میڈیا پر دکھائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی سرپرستی میں ہونے والے قتل اور دہشت گردی کا مسئلہ بین الاقوامی ہے، جس سے کینیڈا، امریکا اور آسٹریلیا بھی متاثر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مضبوط وجوہات، تجرباتی شواہد اور حقائق موجود ہیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ رہے ہیں کہ پہلگام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ ایک آزاد، معتبر اور شفاف تحقیقات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس معتبر انٹیلی جنس ہے کہ پہلگام کے بعد بھارتیوں نے اپنی تمام پراکسیز کو پاکستان میں ہر جگہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کا ٹاسک سونپا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ وہ دہشت گردی ہے جس کی بھارت پشت پناہی اور سرپرستی کر رہا ہے، یہ پوری دنیا کے دیکھنے کے لیے ہے کیونکہ اس کے اثرات پوری دنیا محسوس کر رہی ہے، ہمیں اس بات سے آگاہ رہنا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کی اس لعنت کے خلاف آخری مضبوط قلعہ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اپنے مختصر مدتی تنگ نظر مقاصد کی خاطر، بھارت اس دہشت گردی کی سہولت کاری کر رہا ہے اور اس بگڑے ہوئے نظریے کی پشت پناہی کر رہا ہے، کیوں؟ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حالیہ کارروائیوں پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ منصوبہ بندی کے ساتھ ایک منظم اسلامی دہشت گردی کی مہم چلائی جا رہی ہے، لیکن واقعات مختلف کہانی سناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سمجھدار لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاح مسلمانوں کی ٹیکسیوں میں آئے، مسلمانوں کی ملکیت والے ہوٹلوں میں ٹھہرے، انہوں نے مسلمانوں کے پکائے ہوئے کھانے کھائے اور حملے کے بعد، انہیں مسلمانوں نے ڈھانپا اور بچایا، اور مرنے والا پہلا شخص بھی مسلمان تھا۔ ترجمان پاک فوج نے سوال اٹھایا کہ بھارتی مسلمانوں کی پوری برادری کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے، کیا یہ کسی ایجنڈے کا حصہ ہے؟ کیا یہ اس نفرت کا حصہ ہے جو منظم طریقے سے معاشرے میں ڈالی جا رہی ہے؟ ’بھارتی بیانیے پر سوال اٹھانے والوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بھارتی بیانیے پر سوال اٹھا رہے ہیں انہیں دبایا جا رہا ہے، بھارتی جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ بیرونی مسائل کو اندرونی اور اندرونی مسائل کو بیرونی بنانا ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے، اس سے نمٹنے اور اسے حل کرنے کے بجائے وہ اسے بیرونی مسئلہ بنا رہے ہیں، پہلگام واقعے سے یہی معاملہ ظاہر ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ردعمل اور اس کے پاس موجود آپشنز کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم تمام علاقوں میں صورتحال کو بہت احتیاط سے مانیٹر کر رہے ہیں ، پاکستان کی سلامتی وخود مختاری کا ہر قیمت پر دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں، قوم متحد ہے اور تمام جماعتوں کا عزم ہے کہ کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم ایک متحد قوم ہیں جس کا واضح عزم ہے کہ اگر اشتعال انگیزی کی گئی تو پھر ہمیں الزام نہ دیں جب کہ پاکستانی حکام بھارت کی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا معاملہ تمام فورمز، بشمول بین الاقوامی برادری کے ساتھ اٹھائیں گے۔ دونوں محاذوں پر لڑائی کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری قوت کے ساتھ تمام خطرات سے بیک وقت اور مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ’ پوری طرح اہل’ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی ضرورت سے متعلق سوال کے جواب میں نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ثالثی کی نہیں، تحقیقات کی ضرورت ہے، دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ہیں لہذا کوئی بھی اشتعال انگیز اقدام ایسی سمت میں جاسکتا ہے جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ناقابل برداشت ہو، اس لیے دوستوں اور علاقائی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بھارت حملے کی غلطی نہ کرے کیوں کہ بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کے لیے ہم اپنی مرضی کا وقت اور طریقہ کار منتخب کریں گے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان علاقائی امن کی خاطر تحمل کا مظاہرہ کرے گا، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر اشتعال دلایا گیا تو کسی بھی کارروائی کا بھرپور اور سخت جواب دیا جائے گامعصوم شہریوں کا قتل قابل مذمت ہے اور پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، کوئی بھی مقصد یا سبب بے گناہ افراد کی جان لینے کا جواز پیش نہیں کر سکتا، ایک انسان کی جان لینا پوری انسانیت کا قتل ہے، یہی ہماری قومی اور اسلام کی بھی پالیسی ہے۔ پاکستان کا پہلگام واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بھارت، پاکستان سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے ہماری فوج الرٹ ہے، بہت مضبوط اور چوکس ہیں، ہم اپنے منتخب وقت اور مقام پر مناسب اور فیصلہ کن ردعمل دیں گے۔
وزیر خارجہ نے پہلگام واقعے پر عالمی برادری سے 6 سوالات
اٹھائے

کیا یہ وقت نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا میں بھارت کی جانب سے شہریوں کے قتل کا احتساب کیا جائے؟
کیا یہ ضروری نہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود بھارتی جارحیت کی حمایت سے گریز کرے؟
کیا ایسا نہیں کہ بھارت ایک ملک پر فوجی مہم جوئی کے لیے پروپیگنڈا کر رہا ہے؟
کیا بھارت کی جانب سے عالمی قوانین کو نظرانداز کرنے اور عالمی ذمہ داریوں سے متعلق غیر سنجیدہ رویے سے خطے کی صورتحال خراب نہیں ہوگی؟
کیا یہ وقت نہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی بھارت کی مذمت کرے اور اسے اسلاموفوبیا اور مذہبی نفرت کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنانے سے روکے؟ہم یہ حقیقت جھٹلاسکتے ہیں کہ بھارت کی جارحانہ سوچ سے خطے میں ایٹمی طاقتوں کے ٹکراؤ کے خطرناک اور تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *