LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان کی عسکری اور سفارتی محاذ پر کامیابیاں

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) 2025 پاکستان کی عسکری اور سفارتی محاذ پر کامیابیوں کا سال رہا۔ پاکستان نے بھارت کو پیچھے دھکیل کر امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرلیے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جون میں فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا دونوں ممالک کے تعلقات میں غیر معمولی رہا ۔ پاکستان کی لابی بھارت سے زیادہ فعال رہی ۔ کئی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو بہتر تجارتی رعایتیں ملیں۔ پاکستان نے امریکا میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرلی۔ اس پیش رفت کی بڑی وجہ کابل ایئرپورٹ بم حملے میں ملوث داعش خراسان کے اہم دہشتگرد شریف اللہ کی گرفتاری اور بروقت امریکا حوالگی ہے، جس کا اعلان صدر ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔دہشتگرد شریف اللہ کی گرفتاری پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان تعلقات میں اہم موڑ ثابت ہوئی، پاکستان کو کئی ممالک کے مقابلے میں بہتر تجارتی رعایتیں ملیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیراعظم کو اوول آفس میں ملاقاتوں کا موقع بھی ملا۔

اپریل میں پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھی دونوں ممالک کے ردِعمل نے واشنگٹن میں دونوں کی پوزیشن کو واضح کیا، بھارت نے امریکی ثالثی سے انکار کیا جبکہ پاکستان نے ٹرمپ کی امن کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔جون میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا امریکا کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں غیرمعمولی رہا، صدر ٹرمپ نے بعد ازاں انہیں غزہ جنگ بندی معاہدے کے موقع پر اپنا پسندیدہ فیلڈ مارشل قرار دیا۔پاکستان نے خود کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر بھی پیش کیا، پاکستان کے خلیجی ممالک، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رہے۔ امریکا کو درپیش اہم معدنیات کی ضروریات کے تناظر میں پاکستان نے تقریباً 6 ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر امریکی کمپنیوں کے لیے کھولنے کی پیشکش کی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی نمبرون چوائس پاکستان ہے۔
امریکی میگزین دی ڈپلومیٹ نے 2025 کو پاکستان کے لیے ایک اہم سال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کئی برسوں بعد دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے یہ سال پاکستان کے لیے سٹریٹجک واپسی اور عسکری اعتماد کا سال ثابت ہوا، جب عسکری قیادت نے ریاستی سطح پر انتہا پسندی کے خلاف واضح اور مضبوط پیغام دیا۔ آرمی چیف نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ “جہاد کا اعلان صرف ریاست کے پاس ہے”، جسے انتہا پسندی کے خلاف ایک اہم سنگِ میل قرار دیا گیا۔ عسکری قیادت نے ریاستی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا اور اس کے واضح وژن نے پاکستان کی ریاستی رٹ کو مضبوط کیا, اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ مئی 2025 میں ہونے والی فوجی جھڑپوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ پاک فوج کی کارکردگی نے عسکری توازن کو واضح کر دیا، اور اس نے داخلی چیلنجز کے باوجود پاکستان کی سٹریٹجک ساکھ اور ڈیٹرنس کو تقویت بخشی, بھارت کے خلاف پاکستانی فوج کی کامیاب کارکردگی نے نہ صرف پاکستان کی عسکری قیادت کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا، بلکہ عالمی دفاعی ماہرین کی توجہ بھی حاصل کی۔ پاکستان کی فوج کی کامیابیوں کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ، بھارت کے خلاف کامیاب کارکردگی کے بعد ہندوستان کے واشنگٹن سے تعلقات پر دباؤ آیا، اور پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے دفاعی معاہدوں کے ذریعے سٹریٹجک پیش رفت کی۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون نے پاکستان کا علاقائی کردار مضبوط کیا، اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے کی تکمیل ایک بڑی کامیابی قرار دی گئی ، پاکستان کے دفاعی سازوسامان کی عالمی سطح پر مانگ میں اضافہ ہوا اور چین نے جنگ کے دوران استعمال ہونے والے دفاعی ہتھیاروں کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کیا, سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لیے عالمی سطح پر سازگار ماحول بھی پیدا ہوا اور پاکستان کو غزہ سے متعلق عالمی کوششوں میں اہم فریق قرار دیا گیا،
افغانستان کے معاملے پر پاکستان نے اپنا واضح مؤقف اپنایا، اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کی پالیسی میں فیصلہ کن سختی آئی۔ پاکستان نے طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے مسلسل اقدامات کیے، جس نے عالمی سطح پر پاکستان کی حکمت عملی کو مؤثر ثابت کیا، پاکستان نے قطر، ترکی اور سعودی عرب کو ثالثی کردار میں شامل کر کے سرحد پار خطرات کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کیا اور دہشت گردی کے خلاف اندرونِ ملک نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، مختلف ممالک کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھایا گیااور اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت ہوئی، جس کے نتیجے میں معاشی مشکلات کے باوجود پی آئی اے کی نجکاری جیسے بڑے اقدامات نے ممکنہ طور پر پاکستان کی معیشت میں ایک نیا موڑ پیدا کیا، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ یقیناً ایک بڑی سفارتی اور دفاعی پیش رفت ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے، مگر اس معاہدے کی کامیابی کے لیے متوازن حکمتِ عملی، سفارتی تدبر، اقتصادی بصیرت اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دینا لازم ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو دفاع سے آگے بڑھ کر ترقی، امن اور علاقائی استحکام کے ایک جامع وژن میں ڈھالنا ہوگا، تاکہ یہ معاہدہ صرف تاریخ کا حصہ نہ بنے، بلکہ ایک مؤثر اورکامیاب اشتراکِ عمل کی روشن مثال بن سکے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف ایک دوسرے کی سیکیورٹی کو مضبوط بناتا ہے بلکہ خطے میں عسکری توازن، سفارتی رابطہ کاری اور استحکام کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ یہ دفاعی اتحاد دراصل غیر یقینی عالمی حالات کے مقابل ایک حفاظتی ڈھال بھی ہے اور اسلامی دنیا میں باہمی تعاون کے فروغ کی ایک امید بھی۔خیال رہےپاکستان کے دورے پر آئے سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمید الرویلی نے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سے سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حمید الرویلی نے اسلام آباد میں ملاقات کی، ملاقات میں چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ، خواجہ آصف، طارق فاطمی اور دونوں ممالک کے علیٰ حکام نے شرکت کی۔پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف ایک دوسرے کی سیکیورٹی کو مضبوط بناتا ہے بلکہ خطے میں عسکری توازن، سفارتی رابطہ کاری اور استحکام کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ یہ دفاعی اتحاد دراصل غیر یقینی عالمی حالات کے مقابل ایک حفاظتی ڈھال بھی ہے اور اسلامی دنیا میں باہمی تعاون کے فروغ کی ایک امید بھی۔سعودی عرب اور پاکستان فوجی تعاون کی بھی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، جس کا آغاز 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول کے معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقعے فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد اور ٹریننگ کے لیے مملکت میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور دفاعی پیداوار کے علاوہ مشترکہ مشقوں کے نکات بھی شامل تھے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے رہنما اور دفاعی حکام دفاع کے حوالے سے تزویراتی پالیسیوں کو باہمی طور پر مربوط بنانے کے لیے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ماضی قریب میں مزید اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ دفاعی پیداوار میں خود انحصاری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سعودی وژن 2030 کا اہم ستون ہے
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی، پہلگام حملے اور 7 مئی کو بھارتی فوجی کارروائی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی ماہرین نے ایک جامع رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں بھارت کے اقدامات پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔یو این ماہرین کی رپورٹ میں پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نےحملے میں ملوث ہونےکی تردید کی اور غیرجانبدار و شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اقوامِ متحدہ کے 5 خصوصی نمائندوں کی یہ آبزرویشن 16 اکتوبر کی ایک رپورٹ میں کی گئی تھی، جو 15 دسمبر کو منظرِ عام پر آئی۔ رپورٹ میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے فوجی ردعمل کے ساتھ ساتھ اس واقعے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنے کے بھارتی فیصلے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
یو این ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 مئی کو بھارت نے پاکستان کی حدود میں فوجی طاقت کا استعمال کیا، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر بزدلانہ حملہ کیا تھاجس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں
رپورٹ کے مطابق بھارت نے اس فوجی کارروائی سے قبل سلامتی کونسل کو باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیاتھا، بھارتی حملوں کے دوران آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا گیاتھا، مساجد متاثر ہوئیں جبکہ پاکستانی حدود میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ بھارت نے احمد پور شرقیہ میں مسجد سبحان کو نشانہ بنایاتھا، اس حملے میں 3 سال کی بچی سمیت 5 افراد شہید اور 31 زخمی ہوئے۔
مظفرآباد میں شاہی والی محلہ میں مسجد بلال کو نشانہ بنایا گیاتھا جس میں مسجد شہید ہوئی اور بچی زخمی ہوئی جبکہ کوٹلی میں مسجد عباس کو نشانہ بنایا گیاتھا۔ مریدکے میں مسجد ام القرٰی کو نشانہ بنایا گیاتھا جس میں ایک شہری شہید اور ایک زخمی ہوگیا تھاجبکہ سیالکوٹ اور شکر گڑھ میں بھی دو، دو حملے کیے گئےتھے۔مساجد پر یہ حملے آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ بھارت نے مساجد کو نشانہ بنایا تھا
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق 7 مئی کو پاکستان نے بھارتی کارروائی کی مذمت کی اور سلامتی کونسل کو مطلع کیا تھاکہ وہ اقوامِ متحدہ چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے، رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے نام پر یکطرفہ فوجی طاقت کے استعمال کا کوئی الگ یا تسلیم شدہ حق بین الاقوامی قانون میں موجود نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اقدامات پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں، بھارتی اقدامات عدم مداخلت کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھی اہم نکات اٹھائے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق بھارت ثالثی کے عمل میں شرکت سے گریز کر رہا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ⁠پانی روکنا یا معاہدہ معطل کرنا غیر مناسب قدم ہے، پانی روکنے کا بوجھ براہِ راست عام پاکستانیوں کے حقوق پر پڑتا ہے، کاؤنٹرمیژرز(جوابی اقدامات) بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہیں دیتے، کاؤنٹر میژرز کیلئے نوٹس، مذاکرات کی پیشکش اور طریقہ کار کی قانونی شرائط پوری ہونی چاہئیں۔ رپورٹ میں بھارت کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے میں بگاڑ کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ انڈس کمیشن کے سالانہ اجلاس 2022 کے بعد نہیں ہوئے، ⁠ڈیٹا تبادلے میں رکاوٹ اور تصفیہ جاتی شقوں پر تنازع معاہدے کی روح کے خلاف ہے، بھارت نے ثالثی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کیا، بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا، ‎بھارت سے وضاحت، ممکنہ تلافی و معذرت پر باضابطہ جواب طلب کیا جائے۔
رپورٹ میں ماہرین نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل درآمد کرے۔‎ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‎بھارت پانی میں رکاوٹ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور نقصانات روکنے کے لیے عملی اقدامات واضح کرے۔
صدر آصف علی زرداری نے رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے دیرینہ موقف کو تقویت دیتی ہے کہ بین الاقوامی سرحدوں کے پار یکطرفہ طاقت کا استعمال اقوام متحدہ کے چارٹر اور پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ صدر نے کہا کہ رپورٹ میں شہری ہلاکتیں، آباد علاقوں اور مذہبی مقامات کو پہنچنے والے نقصانات اور بھارت کی جارحیت کے نتیجے میں بڑھنے والے تصادم کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹرز ٹریٹی ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور علاقائی استحکام کی بنیاد ہے اور پانی کے بہاؤ یا متفقہ تنازعہ حل کے طریقہ کار کی خلاف ورزی سنگین انسانی حقوق کے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ صدر زرداری نے کہا کہ رپورٹ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو واضح کرتی ہے اور اس کے تسلط پسندانہ رویے، دباؤ، دھمکی اور طاقت کے استعمال کی بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تشویش کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی قانون ایک طرفہ جارحیت یا غیر قانونی اقدامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ یاد رکھیں کہ 1947ء سے جاری مسئلہ کشمیر نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی جنگوں اور جھڑپوں کو جنم دیا ہے, 22 اپریل 2025ء کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام کے قریب ایک حملے میں 28 شہری ہلاک ہوئے تھے اس واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے خلاف کئی اقدامات کا اعلان کیا تھااور باقاعدہ عسکری جھڑپوں میں مشغول ہو گئے پاک بھارت تنازع 2025ء مسلح تصادم تھا جس کا آغاز 7 مئی 2025ء کو ہواتھا جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیےتھے، جنھیں آپریشن سِن٘دُور کا نام دیا گیاتھا۔ بھارت نے دعویٰ کیاتھا کہ یہ کارروائی 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں کی گئی تھی جس میں 28 شہری، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہواتھا کیونکہ بھارت نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا تھاجس کی پاکستان نے تردید کی تھی، یہ واقعات بالآخر 2025ء کی پاک بھارت کشیدگی کا سبب بنے جو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ بھارت کے مطابق ان میزائل حملوں کا ہدف جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے عسکریت پسند گروہ تھے اور کسی پاکستانی فوجی تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے مطابق بھارتی حملوں نے شہری علاقوں بشمول مساجد کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں اور ڈرون حملے شروع ہو گئےتھے ۔ پاکستان نے 10 مئی کو باضابطہ طور پر جوابی کارروائی کا آغاز کیا تھاجسے آپریشن بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡص کا نام دیا گیا تھااور اس میں بھارت کی متعدد عسکری تنصیبات نشانہ بنایا گیاتھابھارتی فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جوابی حملوں نے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا، جن میں ہندو مذہبی مقامات بھی شامل تھے۔ جواباً بھارت نے آپریشن سندور کو جاری رکھتے ہوئے اس کا دائرہ کار پاکستانی فوجی تنصیبات تک بڑھا دیاتھا یہ تنازع دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان پہلا ڈرون معرکہ ثابت ہواتھا تنازع کے تین دن بعد بھارت اور پاکستان دونوں نے اعلان کیا تھاکہ 10 مئی کو شام 4:30 بجے پاکستانی وقت سے جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے جبکہ مذاکرات 12 مئی کو طے پائے تاہم جنگ بندی کے نفاذ کے فوراً بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیاتھا اسی شب پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فتح پر 11 مئی کو یومِ تشکر کے طور پر منانے کا اعلان کیاتھا
یاد رکھیں کہ7 مئی 2025ء کو بھارتی مسلح افواج نے ’آپریشن سندور‘ کے نام سے اچانک میزائل داغنے شروع کیےتھے جن میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر اور صوبہ پنجاب کے نو مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا بھارتی فضائیہ نے یہ کارروائی رافل طیاروں کے ذریعے اسکالپ میزائلوں اور ہیمر بموں سے کی تھی کچھ رپورٹوں کے مطابق حملے میں براہموس کروز میزائل اور اسرائیلی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ’اسکائی اسٹرائیکر‘ خود کُش ڈرون بھی شامل تھے بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ بہاولپور اور مریدکے میں حملے سوچ سمجھ کر کیے گئے تھے ان حملوں کے بعد لائن آف کنٹرول پر حالات بگڑ گئےتھے کپواڑہ، بارہ مولہ، اڑی اور اکھنور سمیت کئی علاقوں میں پاکستان کی طرف سے گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا پاکستان نے بھارت کے 4 رافال، ایک مگ 29، ایک ایس یو 30 ایم کے آئی اور ایک ڈرون مار گرایا۔ سی این این کو ایک فرانسیسی انٹیلی جنس افسر نے بتایا تھاکہ پاکستان نے واقعی رافال گرایا، مگر فرانسیسی فوج نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا روئٹرز نے کچھ بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ بھارت میں تین طیارے گر کر تباہ ہوئے 8 مئی کو ایک امریکی افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ ان کے مطابق پاکستانی جے 10 طیاروں نے کم از کم 3بھارتی جہاز گرا دیے تھےجن میں ایک داسو رافال بھی شامل ہے۔ بعد ازاں واشنگٹن پوسٹ نے بھارت میں 7 مئی کے دن تین حادثے کے مقامات کی نشان دہی کی جن میں دو کو بھارتی فضائیہ کے داسو رافال اور داسو میراج 2000 طیاروں کے طور پر شناخت کیا گیاتھا 9 مئی کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی حکومتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایاتھا کہ 7 مئی کو بھارت میں تین جنگی طیارے گر کر تباہ ہوئے اور تین پائلٹ زخمی ہو کر اسپتال منتقل کیے گئے تھے 11 مئی کو بھارتی فضائیہ نے، اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسے کسی قسم کا نقصان ہوا ہے، کہاتھا: ”نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ردِ عمل میں بھارت نے دعویٰ کیا تھاکہ پاکستان نے بھارت کے کئی شہروں، بشمول امرتسر، پر ڈرون اور میزائل حملے کیے بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ’پاکستان کی جانب سے مارٹر اور توپ خانے کی گولہ باری کو روکنے کے لیے مجبور ہو گئی تھی تاہم پاکستان نے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ بھارتی فوج نے امرتسر میں غلطی سے خود پر حملہ کیا اور اس کا الزام پاکستان پر لگا کر سِکھوں میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکانا چاہا تھا جوابی کارروائی میں بھارتی ڈرونوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جن میں سے 12 کو مار گرایا گیاتھا۔ پاکستان کے مطابق یہ ڈرون کراچی اور لاہور سمیت 9 مختلف مقامات پر بھیجے گئے تھے جن میں سے ایک نے لاہور کے قریب ایک پاکستانی فوجی تنصیب کو نشانہ بنایاتھا۔ بعد میں پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا تھاکہ اس نے سرحد پار سے آئے 25 اسرائیلی ساختہ ہاروپ خود کش ڈرون مار گرائے ایک ڈرون راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے اندر جا گرا تھاجس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ میچ متحدہ عرب امارات منتقل کر دیےتھے9 مئی کو اطلاعات آئیں کہ پاکستان سپر لیگ کو بھارت اور پاکستان کے درمیان صورت حال کی خرابی کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا گیاتھا اسی شام پاکستان نے جموں کے ضلع میں، بشمول ہوائی اڈا اور جموں یونیورسٹی کے اردگرد فضائی حملہ کیاتھا 9 مئی کو بھارتی سیکریٹری خارجہ نے بتایاتھا کہ ان حملوں میں 300 سے 400 ترک ساختہ ’آسیس گارڈ سونگر‘ ڈرون استعمال ہوئے تھے پاکستانی جنرل احمد شریف چودھری نے بھارت کے اُس دعوے کی تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی افواج نے بھارت میں 15 مقامات پر حملے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے جھوٹی کہانی بنائی ہے تاکہ میڈیا میں شور مچایا جا سکے حالانکہ ’ہر میزائل کا ایک ڈیجیٹل سراغ اور دستخط ہوتا ہےذرائع ابلاغ نے اس تصادم کو جنوبی ایشیا کے ’جوہری صلاحیت کے حامل ہمسایہ ممالک‘ کے درمیان ’پہلی ڈرون جنگ‘ قرار دیا تھا خاص طور پر اسرائیلی و بھارتی ڈرونوں کی تعیناتی توجہ کا مرکز تھی ,9 مئی کو میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارت نے ننکانہ صاحب میں واقع گردوارہ جنم استھان کو نشانہ بنایا تھا پاک فوج نے یہ بھی دعویٰ کیاتھا کہ 6 مئی سے اب تک اُس نے بھارت کے 77 ڈرونوں کو ناکارہ بنایا ہے۔ جمعہ کی صبح فائرنگ کا تبادلہ رک گیا تھا، لیکن ”تقریباً 13 گھنٹے کی خاموشی“ کے بعد دوبارہ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ایل او سی پر کپواڑہ، پونچھ، اڑی اور سانبہ کے علاقوں میں توپ خانے سے گولہ باری شروع ہوئی پاکستان نے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر شمال میں بارہ مولہ سے لے کر جنوب میں بُھج تک 26 مقامات کو نشانہ بنایا تھاجن میں مسلح ڈرون بھی شامل تھے۔ 9 مئی کو پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل احمد شریف چودھری نے پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے اعلیٰ حکام کے ہمراہ ایک پریس بریفنگ دی تھی۔ پاک فوج نے بھارتی الزامات کی تردید کی تھی کہ پاکستان نے بھارتی عسکری تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔ انھوں نے بھارت سے ان الزامات کے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھااور پہلگام واقعے کے بعد بھارتی میڈیا کی خبروں کو غلط قرار دیاتھا۔ پاکستانی حکام نے کہا تھاکہ ان کا رد عمل صرف ان بھارتی چوکیوں تک محدود تھا جن سے پاکستانی شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور پہلگام حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیاتھا۔ پاکستان نے ایک غیر جانب دار تیسرے فریق سے تحقیقات کی تجویز بھی دی جس پر ان کے بقول بھارت کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں دیا گیاتھا اسی بریفنگ میں پاکستان نے دعویٰ کیاتھا کہ بھارت نے آدم پور سے چھ بیلسٹک میزائل داغے، جن میں سے پانچ امرتسر کے قریب اور ایک آدم پور ہی میں گراتھا۔ پاکستانی حکام نے کہا تھاکہ ان میزائلوں کے ہدف سِکھ علاقے تھے تاکہ داخلے تائید وصول کی جا سکے۔ ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے 6 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جانے کا بھی دعویٰ کیاتھا جن میں پر رافال طیارے بھی شامل تھے اور اس کے لیے آڈیو ریکارڈنگ اور پرواز کا ڈیٹا بطور شواہد پیش کیے گئےتھے 10 مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملے کیے تھے، جن میں سری نگر سے پانچ میزائل داغے گئے تھے بتایا گیا کہ نشانے پر اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی اور تین ہوائی تنصیبات (نور خان، رفیقی اور مرید) تھے جنھیں پاکستان کے مطابق روک لیا تھاپاکستان بھر میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔
پاکستان نے 10 مئی کو باضابطہ طور پر جوابی کارروائی ’آپریشن بُنیان مرصوص‘ کے تحت شروع کی تھی قرآن سے ماخوذ بُنیان مرصوص کا مطلب ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ ہے، جس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ قوم کسی اعلیٰ مقصد کے لیے لڑ رہی ہے۔ میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ آپریشن کے ایک حصے کے طور پر پاکستان نے بھارت کے حساس آن لائن نظام پر سائبر حملہ کیا تھا جس میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، ’’بارڈر سیکیورٹی فورس‘‘ اور ’’کرائم ریسرچ انویسٹی گیشن ایجنسی‘‘ کی ویب سائٹس شامل تھیں پاکستانی افواج نے بھارتی فوجی سیٹلائٹ اور سرکاری ای میل سرور پر سائبر حملے کا دعویٰ بھی کیا تھا
الجزیرہ نے اطلاع دی تھی کہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے قریب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر شدید لڑائی جاری تھی بھارتی زیر انتظام کشمیر کے شہر راجوری کے نزدیک بھی شدید گولہ باری اور فائرنگ کی اطلاعات آئیں تھی ۔ بعد ازاں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اطلاع دی تھی کہ شہر کے کمشنر راج کمار تھاپا پاکستانی گولہ باری سے اپنی رہائش گاہ پر ہلاک ہو گئےتھے ۔ بھارتی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی مشترکہ پریس بریفنگ میں حکام نے تصدیق کی تھی کہ پاکستان نے اپنی افواج کو اگلی چوکیوں پر متحرک کر دیا ہے، جس سے صورتِ حال کی سنگینی میں اضافہ ہوا پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ بھارتی فضائی حملے میں شیخ زاید بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نقصان پہنچاتھا۔
جنگ بندی پاکستانی وقت کے مطابق 4:30 بجے نافذ ہوئی جو 36 ممالک کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ تھی بھارتی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے سرکاری بیانات سے قبل اس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کیا تھا 10 مئی کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے فتح پر 11 مئی کو ”یومِ تشکر“ قرار دیاتھا11 مئی کو مقررہ وقت کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیاتھا۔12 مئی کو بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیاتھا کہ جموں و کشمیر کے ضلع سانبہ میں ”مشکوک ڈرونوں“ کی نشان دہی کی گئی احتیاطی تدابیر کے طور پر امرتسر سمیت کئی سرحدی قصبوں میں بلیک آؤٹ نافذ کیا گیا آدھی رات کے بعد بھارتی فوج کا کہنا تھا: ”حال ہی میں کسی ڈرون کی سرگرمی مشاہدے میں نہیں آئی اور جنگ بندی کی صورتِ حال برقرار ہے۔“ 12 مئی کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیاتھا کہ 10 مئی ہر سال یومِ معرکۂ حق کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ اعلان آپریشن بنیان مرصوص کی تکمیل کے بعد کیا گیاتھا7 مئی کو بھارتی اور پاکستانی لڑاکا طیاروں کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد دیر تک فضائی جھڑپ جاری رہی۔ پاکستان کے مطابق بھارتی فضائیہ کے تین داسو رافال، ایک مگ 29 اور ایک ”ایس یو 30 ایم کے آئی“ لڑاکا طیارہ مار گرائے گئے۔ یہ پہلا موقع تھاجب فرانسیسی ساختہ داسو رافال جنگ میں تباہ ہوا ہو جسے جے 10 نے مار گرایاتھا۔ اس واقعے اور چینی ساختہ ”پی ایل 15“ میزائلوں کی کارکردگی کو عالمی توجہ حاصل ہوئی پاکستان کے مطابق پاک فضائیہ نے اسرائیلی ساختہ 84 ہاروپ ڈرونوں کو تباہ کیا تھاجو بھارت کے دعوے کے مطابق دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجے گئے تھے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع میں پاکستان کو سفارتی برتری ملی جو بھارت کی ناکامی قرار دے دی گئی۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاک بھارت تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دے دی، جس کو سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے بھارت کے لیے سفارتی ناکامی قرار دیا ، بھارت کے لیے یہ اس لیے ناکامی ہے کیوں کہ وہ دہشت گردی کو عالمی ایجنڈے کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی تصادم دونوں ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے پر لے گیا تھا، سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے اس کو بھارت کے لیے سفارتی ناکامی قرار دیا اور کہاتھا کہ بھارت برسوں سے کوشش کر رہا تھا کہ وہ خود کو پاکستان سے الگ کرے اور عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کرائے لیکن امریکی مداخلت نے دونوں ممالک کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیاتھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دلا دی ہے اور اس حالیہ تنازع کی وجہ سے عالمی توجہ بھارت کے دہشت گردی کے ایجنڈے سے ہٹا کر ایٹمی خطرے کی طرف مبذول ہوچکی ہے۔ اسی طرح عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیاتھا کہ بھارت نے پاکستان کیخلاف طاقت دکھانے کی کوشش کی لیکن کمزوری عیاں ہوگئی، امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو بھارت میں کچھ لوگوں نے امریکی دباؤ میں مودی حکومت کی پسپائی کی علامت سمجھا جب کہ کشمیر پر ثالثی کی ان کی پیشکش کو اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ تیسرے فریق کی مداخلت سے بھارت کی جانب سے دیرینہ مسترد کرنے کا بیانیہ کمزور ہوا ہے، جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست میں تاثر اکثر حقیقت سے آگے نکل جاتا ہے جب تک کہ حقیقت اس کو کاٹ نہ جائے۔ آرٹیکل میں لکھا گیا تھاکہ ہندوستان نے طویل عرصے سے علاقائی تسلط کا اندازہ لگایا ہے جس کو اقتصادی ترقی اور جوہری طاقت سے تقویت ملی ہے، اس کے باوجود کشمیر میں مزاحمتی محاذ کے ذریعہ 22 اپریل کے قتل عام کے بعد اس کے اقدامات نے اس کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیاتھا، طاقت کا دعویٰ کرنے کے ارادے سے بھارت کا ردعمل ناکام ہوا، جس سے پاکستان کی علاقائی حیثیت میں اضافہ ہوا اور مودی کی حکومت سفارتی طور پر کمزور پڑ گئی
نیو یارک ٹائمز کے مطابق مغربی مبصرین نے بھارت کے کردار کو ”تَحکُمانہ“ اور ”جارحانہ“ قرار دیا تھااور ممکنہ طور پر اسے پاکستان کے خلاف ایک نئے مزاحمت کے توازن کو قائم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھاتھا۔ تاہم ان مبصرین نے بھارت کی فوجی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری محسوس نہیں کی۔ اٹلانٹک کونسل کے مطابق اس جنگ نے پاکستان کے اندر منقسم سیاسی قوتوں کو متحد کر دیا تھااور جنگ بندی کے مذاکرات میں امریکی صدر ٹرمپ کی شمولیت کے پس منظر میں پاکستان کو سفارتی برتری حاصل ہوئی تھی بر طانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے لکھا تھاکہ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ جنگ بندی کا نتیجہ بھارت کے لیے نقصان دہ رہا جبکہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر سبقت حاصل کی تھی فرانسیسی اخبار کے مطابق پاکستان کے خلاف اس فوجی آپریشن نے بھارتی فضائیہ کی کمزوریوں کو ظاہر کیا تھااور پاک فضائیہ کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس کے بیشتر ہوا باز بہتر تربیت اور جنگی تجربے کے حامل تھے کیونکہ وہ انسداد دہشت گردی کی فضائی مہمات میں حصہ لیتے رہے امریکی جغرافیائی سیاسی تجزیہ کار برینڈن جے۔ وائیکرٹ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپ کو پاکستان کی واضح فتح قرار دیاتھا، کیونکہ مغربی مبصرین یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ چین ساختہ ہتھیار رافال طیاروں کو مار گرا سکتے ہیں اور انھوں نے پوری قطعیت سے کہا تھا کہ پاکستانیوں نے بھارتی فضائیہ کے کل 6 جنگی طیارے کامیابی سے مار گرائے 10 مئی 2025ء بروز ہفتہ دوپہر کے وقت ریاستہائے متحدہ امریکا کی ثالثی کے نتیجے میں ایک نازک جنگ بندی عمل میں آئی۔ امریکی حکومت کو اس بات پر تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں پاک بھارت تنازع جوہری تصادم میں نہ تبدیل ہو جائے۔ اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی وقت کے مطابق صبح 4 بجے سے رابطے شروع کیے اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر، مشیر قومی سلامتی عاصم ملک اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارتی حکام بشمول وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطے میں رہ کر معاملے کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ نے بھی جنگ بندی کی اپیلوں اور پس پردہ سفارتی مداخلت میں کردار ادا کیا

 


دوسری جانب سال 2025 پاکستان کو دنیا بھر کے سفارتی میدانوں میں بہت اہمیت ملی، اس سال صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے 5 غیر ملکی دورے کیے، وزیراعظم شہباز شریف نے 28 جبکہ نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے 43 غیر مُلکی دورے کیے۔ سفارتی لحاظ سے یہ انتہائی اہم سال تھا جس میں پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ امن عمل میں اہمیت ملی، دنیا کے مختلف ممالک نے پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی اور کاروباری تعلقات بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی26 مئی کو وزیراعظم شہباز شریف ایران، ترکیہ اور آذربائیجان کے دورے کیے جن میں فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ان کے ہمراہ تھے،ان دوروں کا مقصد پاک بھارت فوجی کشیدگی کے دوران ان ممالک کا شکریہ ادا کرنا تھا۔ستمبر کا مہینہ پاکستانی قیادت کے بیرونِ ملک دوروں کے اعتبار سے سب سے اہم رہا کیوں کیونکہ 17 ستمبر کو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ ہوا، جہاں وزیراعظم شہباز شریف کو سعودی فضاؤں میں پہنچنے کے بعد فضائی سلامی، توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر دیا گیا۔ستمبر کے مہینے ہی میں نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اِجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے شرکت کی جس کے بعد 26 ستمبر کو وزیراعظم اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی، اُس ملاقات سے قبل جون میں صدر ٹرمپ نے جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر مدعو کیا تھا جس میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کی۔سال 2025 میں وزیراعظم محمد شہباز شریف اور نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے متعدد اہم عالمی فورمز میں شرکت کر کے پاکستان کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر پیش کیا، وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں شرکت کی جہاں انہوں نے عالمی امن، مسئلہ کشمیر اور فلسطین سمیت اہم عالمی امور پر پاکستان کا نقطہ نظر بیان کیا، جبکہ اسی موقع پر عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کی وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس، اقتصادی تعاون تنظیم سمٹ، سعودی عرب میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو فورم اور ترکمانستان میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بین الاقوامی امن و غیر جانبداری فورم میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس، شنگھائی تعاون تنظیم کے وزارتی و سربراہی سیشنز، متحدہ عرب امارات میں سر بنی یاس فورم اور دیگر علاقائی و عالمی سفارتی اجلاسوں میں شرکت کی۔ ان عالمی فورمز میں شرکت کا مقصد پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سفارتی مفادات کا تحفظ، عالمی برادری کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانا اور خطے و دنیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کا مؤقف مؤثر انداز میں اجاگر کرنا تھا۔افغانستان سے دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے چین کی سربراہی میں پہلے سہ فریقی مذاکرات 21 مئی کو چین کی میزبانی میں ہوئے، اس سے قبل اسی سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا جو پاکستان کی کسی اہم حکومتی شخصیت کا ایک طویل عرصے کے بعد دورہ تھا۔20 اگست کو پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ایک بار پھر کابل میں ہوئے جس میں سی پیک ٹو کو افغانستان تک توسیع دینے کی بات کی گئی لیکن یہ عمل زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوا جب اکتوبر میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی کشیدگی ہو گئی۔سال 2025 اس لحاظ سے انتہائی اہم تھا کہ اقوام متحدہ سے لے کر ماسکو فارمیٹ اور ایران میں ہونے والی علاقائی ممالک کی کانفرنس میں سب جگہ پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کیا گیا اور افغانستان پر دہشت گردی پر قابو پانے پر زور دیا گیا۔22 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے ڈھاکہ کا تاریخی دورہ کیا، جس کے بعد 19 جون کو پاکستان بنگلہ دیش اور چین کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے جس میں تینوں ممالک نے تعلقات کی مضبوطی پر زور دیا۔وزیراعظم شہباز شریف کے دورے بنیادی طور پر اقتصادی تعاون، علاقائی امن اور عالمی فورمز میں پاکستان کی نمائندگی پر مرکوز رہے۔سعودی عرب اور آذربائیجان وہ ممالک ہیں جہاں وہ چار چار بار گئے، سال کا آغاز متحدہ عرب امارات کے دورے سے ہوا اور اختتام آذربائیجان میں کاپ 29 کانفرنس پر ہوا۔وزیراعظم شہباز شریف نے سال کا پہلا اہم دورہ یکم فروری 2025 کو متحدہ عرب امارات (دبئی) کا تھا، جہاں وہ ورلڈ گورنمنٹس سمٹ میں شریک ہوئے جبکہ 19 تا 22 مارچ 2025 کو سعودی عرب (مدینہ، مکہ، جدہ) کا دورہ کیا۔وزیراعظم 10 تا 11 اپریل 2025 کو بیلاروس (منسک) گئے، اس کے بعد 12 اپریل کو برطانیہ اور 22 اپریل کو ترکیہ کا دورہ کیا، 25 تا 30 مئی 2025 کو ایک سے زیادہ ممالک کا دورہ کیا جن میں ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان شامل ہیں۔شہباز شریف نے 12 جون 2025 کو متحدہ عرب امارات (ابوظہبی) اور جون میں آذربائیجان (خانکندی) کا دورہ کیا، جہاں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن سمٹ میں شرکت کی، اس کے علاوہ 30 اگست تا 4 ستمبر 2025 کو چین (تیانجن، بیجنگ) کا دورہ کیا، جہاں ایس سی او سمٹ اور ملٹری پریڈ میں شریک ہوئے۔وزیراعظم شہباز شریف نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے امریکا (نیویارک) کا دورہ کیا اور 25 ستمبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، 5 تا 7 اکتوبر 2025 کو وہ ملائیشیا گئے اور 13 اکتوبر کو مصر (شرم الشیخ) میں امن سمٹ میں شرکت کی۔وزیراعظم 7 تا 8 نومبر 2025 کو آذربائیجان میں وکٹری ڈے تقریبات میں شریک ہوئے، 9 نومبر کو وکٹری ڈے کے موقع پر تقریبات میں موجود رہے اور 11 نومبر کو آذربائیجان (باکو) میں کاپ 29 اجلاس میں شرکت کی۔نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے زیادہ تر دورے سفارتی نوعیت کے تھے، جن میں او آئی سی، ایس سی او اور دیگر عالمی فورمز شامل رہے۔ سعودی عرب 7 بار، ترکیہ، آذربائیجان اور متحدہ عرب امارات 4،4 بار، امریکا، افغانستان اور چین 3،3 بار، ایران، ملائیشیا اور قطر 2،2 بار، اور دیگر ممالک ایک ایک بار ان کے دوروں میں شامل رہے۔سال 2025 میں کئی عالمی رہنماؤں نے پاکستان کے دورے بھی کیے جن میں سب سے پہلا دورہ 12 سے 13 فروری تک ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا تھا، اس کے بعد 3 اگست کو ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے پاکستان کا دورہ کیا۔اکتوبر میں ملائیشیا کے وزیراعظم داتو سری ابراہیم پاکستان کے دورے پر آئے، اکتوبر ہی میں پولینڈ کے نائب وزیراعظم پاکستان کے دورے پر آئے، جبکہ 15 نومبر کو اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے پاکستان کا دورہ کیا۔دسمبر میں انڈونیشیا کے صدر ابووسو بیانتو پاکستان کے دورہ پر آئے اور تجارت، صحت، تعلیم، آئی ٹی کے ساتھ ساتھ سکیورٹی تعاون پر بھی بات چیت ہوئی، دسمبر میں ہی متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید نے پاکستان کادورہ کیا جس میں اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X