LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ مشترکہ ذمہ داری

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) وزیر اعظم شہباز شریف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا زندگی کے ہر شعبے میں مسیحی برادری کی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ کہنا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ پاکستان کے نظریے کی بنیاد ہے آئینِ پاکستان میں درج تمام شہریوں کے وقار تحفظ مساوی حقوق کا دفاع کریں گے پاکستان کی طاقت اس کے تنوع مساوی مواقع اور مذہب نسل ذات اور عقیدے سے بالاتر مشترکہ آئینی اقدار میں مضمر ہے اسلام نے انسان کو ایک عظیم مرتبہ عطا کیا ہے، قرآن پاک میں یہ صاف طور پر واضح کردیا گیا ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کائنات کو اس کی خدمت کے لئے مسخر کر دیا ہے انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام وقار اور مساوات پر مبنی ہے قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی ہے قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالی نے فرشتوں کو حضرت آدم کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی گئی اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے اسلام دینِ امن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی فرمایا گیا :ترجمہ دین میں کوئی زبردستی نہیں (البقرہ، 2 : 256)اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے)نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور ان سے عدل و انصاف کا برتا کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ( الممتحن، 60 : 8) اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے خبردار! جس کسی نے کسی معاہد) اقلیتی فرد (پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے) مسلمان کے خلاف جھگڑوں گا حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے غیر مسلم شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باسی ہوں یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدہ امن کیا ہو اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ملک کے شہری جو اس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں معاہد کے زمرے میں آئیں گے جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلتیں جو اس آئین کے تحت باقاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور اپنے ملک کے آئین و قانون کو اس کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں آج کے دور میں تو یہ اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی چنانچہ جدید تناظر میں معاہد کا ترجمہ غیر مسلم شہری ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو وہ حقوق اور تحفظ حاصل ہے جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا اسلامی ممالک میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ان حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے جو انہیں ہر قسم کے بیرون اور اندرون ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوتا ہے تا کہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں مگر بد قسمتی سے پاکستان میں کافی عرصہ سے اکثر وبیشتر اقلیتوں کی عبادت گاہوں گھروں اور کاروباری مراکز پر حملے قرآن پاک کے احکامات کی نفی اورنی پاکستان کی اقلیتوں کو دی گئی ضمانت کی خلاف ورزی ہیں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران مذہبی جنونیت کے ہاتھوں قومی سطح پر جانی ومالی نقصان کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمارے معاشرے میں یہ رحجان وسیع پیمانے پر اور بہت گہرائی تک سرایت کرچکا ہے اس قسم کے وقعات کی روک تھام کے لئے جامع اور طویل المیعاد حکمت عملی اور عملی پلان کی ضرورت ہے**

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X