اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) آل پاکستان جمعیت القریش میٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اور ممبر لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ خورشید احمد قریشی نے کہا ہے کہ پنجاب میں ون ڈش اور شادی بیاہ کے کھانوں سے متعلق حالیہ فیصلوں نے ملک بھر میں مٹن اور بیف پر غیر معمولی دباؤ ڈال دیا ہے، جس کے باعث گوشت کی شدید قلت پیدا ہو رہی ہے اور قیمتیں خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گوشت کھانے والے فرد کی اوسط کھپت تقریباً 300 گرام فی کس ہے۔ عام حالات میں، جب ون ڈش نہیں ہوتی، تو تقریبات میں مرغی، سبزیوں،بڑا گوشت چاول، باربی کیو،چکن تکہ اور دیگر کھانوں کا استعمال بھی ہوتا ہے، جس سے مٹن پر اضافی بوجھ نہیں پڑتا۔ مگر ون ڈش کے فیصلے کے بعد زیادہ تر تقریبات میں مٹن ہی پکایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں مٹن اور بیف کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف پاکستان سے مٹن اور بیف کی بے تحاشہ برآمدات جاری ہیں اور اعلیٰ سطح پر روزانہ گوشت کی ایکسپورٹ کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب ایران جانے والا گوشت بھی مقامی منڈیوں پر اضافی دباؤ ڈال رہا ہے۔ اگر اس معاملے پر مؤثر نگرانی اور مکمل پابندی نہ لگائی گئی تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
صدر جمعیت القریش اور ممبر لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ نے سوال اٹھایا کہ حکومت نے ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے کون سے نئے کیٹل فارم، گوٹ فارم یا لائیوسٹاک منصوبے شروع کیے ہیں؟ نہ کوئی بڑے پیمانے پر فارم قائم کیے گئے اور نہ ہی مویشی پال کسانوں کو عملی سہولت دی گئی، جس کے باعث سپلائی میں اضافہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ون ڈش جیسے فیصلے، بے قابو برآمدات اور ایران جانے والے گوشت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو آنے والے دنوں میں مٹن کی قیمت 3 ہزار روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے، اور اس کے بعد قیمت کہاں جا کر رکے گی، یہ کہنا مشکل ہے خورشید احمد قریشی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یا تو شادی بیاہ اور تقریبات میں کھانوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے یا پھر ون ڈش کے فیصلے پر فوری نظرثانی کی جائے۔ ساتھ ہی گوشت کی برآمدات کو ریگولیٹ، ایران جانے والے گوشت پر مؤثر پابندی اور ملکی سطح پر مویشیوں کی افزائش کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں انہوں نے کہا کہ بروقت اور سنجیدہ فیصلے نہ کیے گئے تو پاکستان میں گوشت کا بحران سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے، جس کا براہِ راست بوجھ عام صارف پر پڑے گا۔