اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) موجودہ حکومت کے اقدامات اور کامیاب عسکری سفارت کاری نےپاکستان کو خطے کا سفارتی فاتح” بنا دیا ہے, امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کو “خطے کا سفارتی فاتح” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے متوازن اور مؤثر خارجہ پالیسی کے ذریعے عالمی منظرنامہ بدل دیا ,سال 2025 پاکستان کے لیے سفارتی لحاظ سے اہم اور کامیابیوں سے بھرپور سال رہا اور اس سال پاکستان نے سفارتی محاذ پر بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ لیکن مئی 2025 سے پہلے اور اُس کے بعد پاکستان کی سفارتی پوزیشن میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مئی 2025 سے پہلے پاکستان کو سفارتی لحاظ سے کئی چیلنجز کا سامنا تھا جو اُس کے بعد یکسر بدل گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں اور تعریفیں ہوں یا پاک سعودی دفاعی معاہدہ، چین کے ساتھ تعلقات میں قربت ہو یا پھر ایرانی پارلیمنٹ میں تشکر پاکستان کی گونج، اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی صدارت ہو یا غزہ امن معاہدے میں اہم کردار، جنرل عاصم منیر کو سعودی اعلٰی اعزاز کا ملنا یا بنگلہ دیش میں پاکستان کی خصوصی اہمیت، پاکستان کو یہ ساری سفارتی کامیابیاں مئی 2025 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ملیں۔اس لحاظ سے پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کو ہم 2 ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک مئی 2025 سے پہلے دوسرا مئی 2025 کے بعد۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بھارت کو جارح اور بھارتی اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ جو ایک لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہے کیونکہ اس کے ذریعے پاکستان کے مؤقف کو بین الاقوامی پذیرائی اور تائید ملی۔ اس سال پاکستان کی ایک اور بہت بڑی سفارتی کامیابی یہ رہی کہ اقوام متحدہ ماہرین کی ایک رپورٹ جو 15 دسمبر کو جاری کی گئی اُس میں بھارت کو جارح ملک قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے ردعمل میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر ‘غیر قانونی طاقت کے استعمال’ سے بظاہر زندگی کے حق اور شخصی سلامتی کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔مزید کہا گیا کہ پہلگام حملے کے بعد بھارت کے فوجی ردِعمل کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا فیصلہ بظاہر کام اور روزگار کے حق، مناسب معیارِ زندگی کے حق جس میں پانی اور خوراک کے حقوق شامل ہیں نیز صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول اور ترقی کے حق کی خلاف ورزی کے خطرات پیدا کرتے ہیں۔مئی میں ہونے والی پاک بھارت فوجی کشیدگی کے وقت اور بعد میں بھارت کی بے پناہ کوششوں کے باوجود دنیا نے بھارتی مؤقف کو تسلیم نہیں کیا اور بھارتی مؤقف کو عالمی پذیرائی نہ مل سکی جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی کامیابی کی صورت ہے۔سال 2025 میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں نمایاں مضبوطی اور غیر معمولی گرم جوشی دیکھنے میں آئی، جس کا اظہار اعلیٰ سطحی سیاسی و عسکری روابط، مسلسل مشاورت اور کثیرالجہتی تعاون سے ہوا۔ 22 دسمبر کو چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر کو سعودی حکومت کی جانب سے پاک سعودی تعلقات کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ’کِنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس‘ سے نوازا گیا۔ اس سال دونوں ممالک نے دفاعی و عسکری تعاون کو مزید وسعت دی، مشترکہ تربیت، سکیورٹی رابطوں اور دفاعی ہم آہنگی پر اتفاق کیا، جبکہ معاشی و سرمایہ کاری شعبے میں سعودی عرب نے پاکستان میں توانائی، معدنیات، انفراسٹرکچر اور ریفائنری منصوبوں میں سرمایہ کاری کے عزم کا اعادہ کیا۔پاکستان اور سعودی حکومت کے درمیان سب سے اہم سنگ میل 17 ستمبر 2025 کو پاک سعودی دفاعی معاہدے کی شکل میں سامنے آیا۔ توانائی کے شعبے میں تیل کی فراہمی، مؤخر ادائیگی کی سہولیات اور طویل المدتی تعاون پر بات چیت آگے بڑھی، جبکہ محنت کشوں اور افرادی قوت سے متعلق معاہدات کے تحت پاکستانی ورکرز کے لیے مواقع بڑھانے، اسکل ڈویلپمنٹ اور لیبر پروٹیکشن کو مضبوط کیا گیا۔ اسی طرح مالی تعاون میں ڈپازٹس، اسٹیٹ بینک کے تعاون اور اقتصادی استحکام کی حمایت جاری رہی، جب کہ سیاسی و سفارتی سطح پر فلسطین، امتِ مسلمہ اور علاقائی امن کے امور پر قریبی ہم آہنگی برقرار رہی۔ مجموعی طور پر 2025 میں پاک سعودی تعلقات ایک اسٹریٹجک شراکت داری کے طور پر مزید مستحکم ہوئے، جس کی بنیاد باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات اور طویل المدتی تعاون پر قائم رہی۔ سال 2025 میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں عملی گرم جوشی اور اعتماد کی بحالی واضح طور پر نظر آئی، جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے بیرونِ ملک رابطوں نے اہم کردار ادا کیا۔ فروری 2025 میں وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی فورمز اور امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دوران واشنگٹن کے ساتھ معاشی استحکام، تجارت اور سرمایہ کاری پر بات چیت کی، جبکہ اسی عرصے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکی دفاعی اور سکیورٹی حکام سے رابطوں میں انسدادِ دہشت گردی، فوجی پیشہ ورانہ تعاون اور ادارہ جاتی روابط کو آگے بڑھایا گیا
ان ملاقاتوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان آئی ایم ایف پروگرام پر ہم آہنگی برقرار رہی، امریکی نجی شعبے کی پاکستان میں توانائی، آئی ٹی اور معدنیات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی، اور دوطرفہ تجارت کے فروغ پر اتفاق ہوا۔ مزید برآں، ستمبر 2025 میں اعلیٰ سطحی سفارتی روابط کے تسلسل کے تحت معاشی تعاون، موسمیاتی فنانس اور ترقیاتی منصوبوں میں شراکت داری کو وسعت دینے پر بات چیت کی گئی۔ مجموعی طور پر 2025 میں پاک-امریکہ تعلقات ایک بار پھر عملی تعاون، معاشی شراکت اور سکیورٹی ہم آہنگی کی بنیاد پر آگے بڑھے، جس میں سیاسی اور عسکری قیادت کے مربوط سفارتی کردار نے مرکزی حیثیت اختیار کی۔ سال 2025 میں پاکستان اور چین کے تعلقات میں غیرمعمولی اضافہ اور مضبوطی دیکھی گئی، جو سیاسی، معاشی، دفاعی اور تکنیکی شعبوں میں متعدد عملی پیش رفت سے ظاہر ہوتی ہے۔ سال کے آغاز میں 10 جنوری 2025 کو بیجنگ میں دوطرفہ سیاسی مشاورتی اجلاس کا چوتھا دور ہوا، جس میں دونوں ممالک نے ‘آل‑ویدر اسٹریٹجک تعاون’ کو مزید گہرا کرنے اور سی پیک 2.0 پر پیش قدمی جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ 5 سے 7 فروری 2025 کو صدر آصف علی زرداری کے سرکاری چین دورے کے دوران دونوں ممالک نے 300 ملین ڈالر مالیت کی مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے، جو توانائی، کوئلہ، سیمنٹ اور دیگر شعبوں میں تعاون کے لیے تھے۔ بعد ازاں 29 مئی 2025 کو اسلام آباد میں ملاقات میں پاکستان اور چین نے سی پیک 2.0پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی، جس میں علاقائی کنیکٹیویٹی، زرعی جدیدکاری اور اسٹریٹجک انفراسٹرکچر کو اجاگر کیا گیا۔ 30 اگست سے 4 ستمبر 2025 تک وزیراعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں چینی وزیرِاعظم لی چیانگ سے ملاقات کی اور سی پیک 2.0کے لیے 21 مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 8.5 بلین ڈالر تھی۔ ان معاہدات میں سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی، میڈیا، زرعی تعاون، سرمایہ کاری اور صنعتی شراکتیں شامل تھیں۔ اسی ماہ صدر زرداری نے 16 ستمبر 2025 کو اُرُمچی اور شنگھائی میں کل چھ مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کا مشاہدہ کیا، جن میں جدید لائیو اسٹاک انڈسٹری، ٹیکسٹائل پارک، فائر ٹرکس/ایمرجنسی آلات، زرعی سائنسی پارک، ٹیکنالوجی تربیت اور ماس ٹرانزٹ انفراسٹرکچر کے شعبے شامل تھے۔ اس کے علاوہ 26 سے 27 ستمبر 2025 کو بیجنگ میں 14ویں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی جے سی سی کے اختتام پر سی پیک فیز ٹو کا باقاعدہ آغاز ہوا، جس کے تحت پانچ نئے ترقیاتی کوریڈورز قائم کیے گئے اور صنعت، ٹیکنالوجی، زرعی جدیدکاری، ہنر مند لیبر اور ماحولیاتی ترقی کو فروغ دیا گیا۔ سال کے آخر میں 27 اکتوبر 2025 کو پاکستان اور چین نے کوانٹم ٹیکنالوجی میں مشترکہ تعاون کے لیے مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے، جس کے تحت قومی کوانٹم کمپیوٹنگ سینٹر کی تشکیل اور جدید تکنیکی شراکت داری کو فروغ دیا جائے گا۔ مجموعی طور پر 2025 میں پاکستان‑چین تعلقات نہ صرف سیاسی اور سفارتی سطح پر بلند ترین سطح پر پہنچے بلکہ سی پیک 2.0، کلیدی مفاہمتی یاداشتیں، سرمایہ کاری کے معاہدات اور تکنیکی تعاون کے ذریعے ایک ہمہ جہت، دیرپا اور عملی اسٹریٹجک اتحاد کے طور پر مستحکم ہوئے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان ہمہ موسمی اسٹریٹجک شراکت داری’ کو مزید مضبوط بنیاد فراہم کی۔ سال 2025 میں پاکستان نے غزہ کے معاملے پر ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کیا، جس میں بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ، جنگ بندی کی حمایت اور امن کے لیے عالمی کوششوں میں شرکت شامل تھی۔ 16 جنوری 2025 کو پاکستان نے غزہ میں جنگ بندی کے بعد اپنے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے فلسطینی مسئلے کے منصفانہ اور دیرپا حل، یعنی ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی اور موجودہ جنگ بندی کے مؤثر نفاذ اور انسانی امداد کے تسلسل پر زور دیا۔ اسی سال 4 اکتوبر کو وزیراعظم شہباز شریف نے حماس کے امریکی امن منصوبے پر مثبت ردعمل کا خیرمقدم کیا اور اسے فوری جنگ بندی اور خونریزی ختم کرنے کا ایک اہم موقع قرار دیا، جبکہ پاکستان نے امریکی اور دیگر مسلم و عرب ممالک کی کوششوں کو سراہا۔ 22 اکتوبر 2025 کو پاکستان نے غزہ میں اسرائیل کی تازہ فضائی کارروائیوں کی سخت مذمت کی، ان حملوں کو فلسطینی امن معاہدے کی روح کی خلاف ورزی قرار دیا اور عالمی برادری سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا تاکہ شہریوں کی حفاظت اور انسانی امداد کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے۔ اسی سلسلے میں 29 اکتوبر 2025 کو پاکستان نے اسرائیلی افواج کی غزہ میں امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کی سخت مذمت کی، اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور امن کوششوں کو نقصان پہنچانے والا عمل قرار دیتے ہوئے عالمی طاقتوں سے فوری کارروائی اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے لیے مضبوط حمایت کا مطالبہ کیا۔ مجموعی طور پر سال 2025 میں پاکستان نے متعدد مواقع پر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی، انسانی بنیادوں پر تشویش، اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری جیسے اصولی مؤقف پر زور دیا اور امن و استحکام کے لیے اپنے سفارتی اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کیا۔ سال 2025 میں پاکستان اور ایران کے سفارتی تعلقات میں نمایاں مضبوطی اور فعال پیش رفت دیکھنے میں آئی، جس میں سیاسی، اقتصادی، سیکیورٹی اور تجارتی شعبوں میں متعدد اہم اقدامات شامل تھے۔ سب سے اہم موقع جب جون میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور پاکستان نے ایران کو بھرپور سفارتی مدد فراہم کی جس کا اظہار ایرانی پارلیمان میں تشکر پاکستان کے نعروں کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ 2 سے 3 اگست 2025 کو ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پاکستان کا باضابطہ ریاستی دورہ کیا، جس میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں کے دوران دونوں رہنماؤں نے مشترکہ تعاون، باہمی وقار اور تعلقات کی مضبوط بنیادوں پر زور دیا، اور اس دورے نے دونوں ملکوں کے تعلقات کی تجدید اور گہرائی کو اجاگر کیا۔اسی سال 1 ستمبر 2025 کو وزیراعظم میاں شہباز شریف نے شنگھائی تعاون سربراہان کے اجلاس کے موقع پر چین میں ایران کے صدر سے ملاقات کی، جس میں پاک‑ایران تعلقات کے مثبت رجحان کی تصدیق اور تعاون کے مزید مواقع پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس سے سیاسی اعتماد میں اضافہ ہوا۔بعد ازاں 15 سے 16 ستمبر 2025 کو تہران میں 22ویں پاک ایران جوائنٹ اکنامک کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں دونوں ممالک نے اہم پروٹوکولز پر دستخط کیے اور 10 ارب ڈالر کے تجارتی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اقتصادی، تجارتی، توانائی، زراعت اور ثقافتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ اس کے علاوہ، 25 اکتوبر 2025 کو اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں پاک و ایران نے بلو اکنامی، سمندری و زمینی رابطوں، پورٹ انفراسٹرکچر اور تجارت کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا، جس سے باہمی تجارت اور نقل و حمل کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں نئی سمت سامنے آئی۔ اس کے علاہ 25 سے 26 نومبر 2025 کو ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی اردشیر لاریجانی نے پاکستان کا دورہ کیا، جس میں سیاسی، اقتصادی، سیکیورٹی اور علاقائی مسائل پر بات چیت ہوئی اور دونوں فریق نے تعلقات کو گہرا کرنے، سرحدی سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ سال 2025 کے دوران پاک ایران باہمی تجارت 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں واضح پیش رفت کا عملی ثبوت ہے۔مجموعی طور پر 2025 میں پاکستان اور ایران نے ریاستی دوروں، اعلیٰ سطحی ملاقاتوں، اقتصادی معاہدات، سرحدی تعاون اور مشترکہ سیکیورٹی اقدامات کے ذریعے تعلقات میں قابلِ ذکر مضبوطی پیدا کی، جس سے خطے میں امن، تجارت اور معاشی شراکت داری کو فروغ ملا سال 2025 میں پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں متعدد اہم پیش رفتیں دیکھنے میں آئیں، جنہوں نے دونوں برادر ملکوں کے تاریخی رشتے کو سفارتی، اقتصادی، دفاعی اور علاقائی سطح پر مزید مضبوط کیا۔ 12 سے 13 فروری 2025 کو ترک صدر رجب طیب اردوان اسلام آباد کے دو روزہ سرکاری دورے پر آئے اور وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ساتویں پاک ترک ہائی لیول اسٹریٹیجک کوآپریشن کونسل کی صدارت کی، جس کے دوران 24 اہم معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں میں تجارت، آبی وسائل، زراعت، توانائی، ثقافت، بینکنگ، تعلیم، دفاع اور صحت جیسے شعبے شامل تھے، جس سے دونوں ممالک کی شراکت داری مزید مستحکم ہوئی۔ اسی دن دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کو اسٹریٹیجک پارٹنرشپ میں تبدیل کرنے کا عہد کیا۔ اس اجلاس میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی، جس سے سیکیورٹی اور دفاعی شراکت داری کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ 7جولائی 2025 کو وزیراعظم شہباز شریف نے ترک وزرائے خارجہ اور دفاع سے اسلام آباد میں ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کا عہد کیا گیا اور باہمی تجارت کے حجم کو 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف بھی طے پایا۔ اسی ماہ 9 سے 10 جولائی 2025 کو ترکی کے وزرائے دفاع کے اسلام آباد دورے میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سے بات چیت ہوئی، جس میں علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے بعد 10 جولائی 2025 کو دونوں ممالک نے اقتصادی شراکت داری اور خصوصی اقتصادی زون کے قیام پر بھی پیش رفت کو اجاگر کیا، جس میں ترک کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ مئی 2025 میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کے موقف کے حق میں باہم رابطے اور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران ترکئے کی یکجہتی واضح کی، جس سے دونوں ملکوں کے سیاسی تعاون کو مزید تقویت ملی۔ مجموعی طور پر سال 2025 میں پاکستان‑ترکی تعلقات میں یہ پیش رفتیں سفارتی دوروں، اعلیٰ سطحی مذاکرات، کلیدی معاہدات، دفاعی گفت و شنید اور اقتصادی شراکت داری کی وسیع سطح پر پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہیں، جس سے دونوں ممالک نے اپنے روایتی بھائی چارے کو اسٹریٹیجک شراکت داری کی شکل میں آگے بڑھایا۔
افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی بین الاقوامی تائید
سال 2025 میں پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے امن، خودمختاری، دہشت گردی کے خلاف تعاون اور علاقائی ہم آہنگی کے مؤقف کو عالمی اور علاقائی فورمز پر تائید اور تقویت ملی، اور پاکستان نے نہ صرف اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کی بلکہ چین، روس اور ایران کے ساتھ علاقائی سطح پر بھی اپنے اصولی موقف کو مضبوط بنایا۔ سال 2025 میں افغانستان کے معاملے پر پاکستان نے اپنے موقف کو واضح اور مستقل انداز میں برقرار رکھا، جس میں سرحدی سیکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور علاقائی خودمختاری کے اصول نمایاں رہے۔ پاکستان نے بار بار افغان سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ کو اپنے موقف کی تائید کے طور پر پیش کیا، جس میں واضح کیا گیا کہ دہشت گرد عناصر کی افغانستان میں موجودگی خطے کی سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
28 ستمبر 2025 کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کے موقع پر پاکستان، چین، روس اور ایران کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دی جائے گی، جس سے پاکستان کے موقف کو علاقائی سطح پر بھی حمایت حاصل ہوئی۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان نے افغان طالبان حکومت کو سرحد پار دہشت گرد گروہوں کی معاونت ختم کرنے اور ان کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کا واضح انتباہ دیا، جس میں خطے میں استحکام اور جنگ بندی کے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ان کھنڈرات پر اب عمارت بننا شروع ہو چکی ہے جو گزشتہ حکومت چھوڑ کر گئی تھی اہم معاملات میں اب پاکستان کے مؤقف کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جریدے کے مطابق پاکستان نے امریکا، چین، سعودی عرب، ترکیہ، ایران اور ملائیشیا کے ساتھ تعلقات میں نئے سنگِ میل قائم کیے ہیں جو ملک کی سفارتی بحالی اور مؤثر خارجہ حکمتِ عملی کا واضح ثبوت ہیں۔ فارن پالیسی نے رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پاکستان نے امریکا سے تعلقات بحال کر کے خطے میں سفارتی توازن پیدا کیا، پاکستان کی جانب سے داعش خراسان کے دہشت گرد جو کابل ایئرپورٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا کی گرفتاری نے واشنگٹن میں اعتماد اور تعاون کا نیا باب کھولا۔ امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی اقدامات کو “غیر معمولی اور مؤثر” قرار دیا، سعودی عرب سے اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ نے خطے میں نئی سفارتی لہر پیدا کی، چین سے دفاعی اور اقتصادی تعاون میں توسیع نے بیجنگ-اسلام آباد تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ امریکا اور پاکستان کے بڑھتے تعلقات نے امریکااوربھارت کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے ، بھارت کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کی طرف جھکاؤ سے اس کی 25 سالہ سفارتی محنت ضائع ہو جائے گی۔ جریدے نے مزید لکھا کہ ٹرمپ اور مودی کی حالیہ تلخ فون کال کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی جس سے پاکستان کیلئے نئی راہیں کھل گئیں۔ رپورٹ کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ٹرمپ کے درمیان جون میں ہونے والی دو گھنٹے طویل ملاقات نے دوطرفہ تعلقات میں نئی گرمجوشی پیدا کی جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کی غزہ امن کانفرنس میں متحرک کردار اور امریکی سرمایہ کاری کے معاہدے پاکستان کی عالمی اثر و رسوخ میں اضافے کا ثبوت ہیں۔ فارن پالیسی نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ سے شاندار تجارتی پیکیج حاصل کیا جس کے تحت ایک امریکی کمپنی نے 500 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ جریدے نے کہا کہ پاکستان نے غیر نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود امریکا، چین اور سعودی عرب کے ساتھ بیک وقت تعلقات مستحکم کر کے سفارتکاری کا نیا باب رقم کیا ہے، پاکستان اب عالمی منظرنامے پر ایک اہم اور فعال ملک کے طور پر ابھر چکا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں سفارتکاری کا میدان صرف بند کمروں میں مذاکرات تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ “بیانیے کی جنگ” کا روپ دھار چکا ہے۔ پاکستان نے اس محاذ پر بھی مثالی کارکردگی دکھائی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ، تھنک ٹینکس اور ماہرین بین الاقوامی سیاست اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے منفی پروپیگنڈے، ڈس انفولیب کے جھوٹے نیٹ ورکس اور پلوامہ جیسے سازشی ڈراموں کو بے نقاب کر کے سچائی کی طاقت سے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہ بیانیہ صرف دفاعی اقدام نہیں بلکہ ایک دانشمندانہ حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے پاکستان نے اپنے امن پسند کردار کو اجاگر کیا۔ اس جنگ میں بارود نہیں بلکہ دلیل اور دیانتداری سے کام لیا گیا۔ اسحاق ڈار کی قیادت میں پاکستان نے بین الاقوامی سفارتکاری کے میدان میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو برسوں سے خالی تھا۔
یہ سفارتی کامیابیاں کسی ایک لمحے کی پیداوار نہیں بلکہ ایک طویل المدتی وژن، اجتماعی قومی حکمت عملی اور مسلسل محنت کا نتیجہ ہیں، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کامیابیوں کو پائیدار بنانے کے لیے اندرونی سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ ہمیں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ گورننس، قانون کی بالادستی اور معاشرتی انصاف کو بھی یقینی بنانا ہو گا تاکہ ہم عالمی میدان میں ایک مستحکم، ترقی یافتہ اور باوقار ریاست کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھ سکیں۔ یقین ہے کہ امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ، ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور دیگر سفارتی کامیابیاں ایک نئی صبح کی نوید ہیں۔ وہ صبح جس میں پاکستان باوقار، پرامن، خودانحصار اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمایاں ہو۔ یہ بیانیہ کسی مصلحت کا نہیں بلکہ یقین اور عزم کا آئینہ دار ہے