LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) موسمیاتی تبدیلی معاشی ترقی سے جڑی حقیقت ,وزیراعظم پاکستان کی اسٹریٹجک پلان کی منظوری

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان اس سال موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہوا اور اسے معمول سے 15 فیصد زیادہ بارشوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سب سے کم تیار ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کی معاشی ترقی سے جڑی بنیادی حقیقت ہے، پاکستان کے مستقبل کی خوشحالی موسمیاتی خطرات سے نمٹنے سے مشروط ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ برس مون سون کے ممکنہ خطرات سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔این ڈی ایم اے کی پیش گوئی کے مطابق 2026 کے مون سون میں 22 سے 26 فیصد بارشیں زیادہ ہوں گی اس لیے حکومت نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے
وزیراعظم نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے قلیل مدتی منصوبے کی فوری منظوری دیتے ہوئے حکم دیا کہ اس پر فوراً عملدرآمد شروع کیا جائے۔ اس منصوبے کا مقصد بروقت پیش بندی اور مؤثر حکمت عملی کے ذریعے نقصانات کو کم سے کم کرنا ہے اجلاس میں وفاقی وزراء اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اور وزیراعظم نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی، وزارتِ منصوبہ بندی، اور این ڈی ایم اے کو صوبوں کے ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مربوط پلان تشکیل دینے کی ہدایت کی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کی ایک اہم وزارت ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچانا اور ان کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے مون سون 2026 کے لیے ایک قلیل مدتی منصوبہ تیار کیا ہے، جس کی منظوری وزیراعظم شہباز شریف نے دی ہے۔ اس منصوبے کا مقصد بروقت پیش بندی اور مؤثر حکمت عملی کے ذریعے نقصانات کو کم سے کم کرنا ہے مون سون 2026 کے لیے خاص اقدامات میں آبی گزرگاہوں سے تجاوزات کا خاتمہ,,نکاسی آب کے نظام کو کشادہ کرنا, نیا انفراسٹرکچر تعمیر کرنا,,ارلی وارننگ سسٹم کو فوری طور پر مربوط بنانا,تحصیل اور ضلع کی سطح پر ارلی وارننگ سسٹم فعال بنانا شامل ہیں, وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے تمام اقدامات کو شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم میں تقسیم کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے تیار کردہ مون سون 2026 کے اسٹریٹجک پلان کی منظوری دے دی، مون سون 2026 کے اسٹریٹجک پلان کی دستاویزی تفصیلات سامنے آگئیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے پلان کو اثرات اور قابلِ عمل اقدامات کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، 240 دن میں گزشتہ مون سون سے تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی مرمت کی جائے گی، تمام نکاسی آب کی نہروں اور فلڈ گیٹس کی بحالی کی جائے گی۔ پلان کے مطابق شہری علاقوں کے متاثرہ یا بند ڈرینیج سسٹمز کو پیشگی درست کیا جائے گا، 1 سے 3 سال میں موجودہ انفرا اسٹرکچر کو بہتر اور توسیع دی جائے گی، 4 سے 5 سال میں نیا لچکدار انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جائے گا۔ پلان تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نے تمام اقدامات کو شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم میں تقسیم کیا ہے، سیلابی اثرات کو کم کرنے کے اقدامات کو مختلف گروپس میں منظم کیا جائے گا، لچکدار انفرا اسٹرکچر کی تعمیر مستقبل کے موسمی خطرات کم کرے گی، ملک بھر میں یہ تمام تر اقدامات صوبوں کی مشاورت اور تعاون سے کیے جائیں گے۔
2026 کی مون سون سے متعلق پیش گوئیاں تشویش ناک ہیں یہ محض ماحولیاتی چیلنج نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے انتباہ کہ رواں سال کے مقابلے میں آئندہ مون سون 22 سے 26 فیصد زیادہ شدت کے ساتھ متوقع ہے ملک ابھی تک گزشتہ سیلابوں کے منفی اثرات سے باہرنہیں آیا، ہم 3 سے 4 فیصد شرحِ نموکے لیے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ آمدہ موسمیاتی آفات جی ڈی پی کے 9 فیصد تک نقصان پہنچا سکتی ہیں جس سے شرح نمو منفی پانچ فیصد ہو سکتی ہے اور یہ خسارہ کسی بیرونی قرض سے پورا نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے 2026 کی مون سون تیاریوں کے ابھی سے آغازکی ہدایت مؤثرہوں گی زمینی سطح پرعملی اقدامات کا مطلب صرف خیمے، دوائیاں اورراشن جمع کرنا نہیں، بلکہ سائنٹیفک بنیادوں پر اقدامات اور سیلابوں سے محفوظ مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیرناگزیرہے ہمارے پاس مون سون 2026 کے لیے صرف 240 دن کی مہلت ہے۔ اس مہلت کوبروئے کارلاتے ہوئے دیہی، شہری اور صنعتی علاقوں میں نکاسیِ آب کے تمام راستوں اور نالوں کی فوری صفائی، پنجاب اورسندھ میں دریاوں کے پشتوں کی مضبوطی، اور شمالی علاقوں میں بڑھتی ہوئی گلیشیائی جھیلوں کے ممکنہ شگافوں سے نمٹنے کے لیے سپل ویزکی معیاری تعمیر انتہائی ضروری ہے مون سون ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زرعی شعبہ شدید خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اہم نقد آورفصل کپاس مسلسل غیرمعمولی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہورہی ہے۔ اگرکسان تباہ ہوگا توصنعت بھی تباہ ہو جائے گی جس سے برامدات بھی متاثر ہوں گی وزارتِ نیشنل فوڈ سیکیورٹی فوری طورپرسیلاب برداشت کرنے والی بیج اقسام متعارف کرائی جائیں اورکسانوں کوبدلتے ہوئے موسمیاتی مسائل سے متعلق آگاہی دی جائے نیشنل ریزیلینس پلان پرنجی شعبے کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ صنعتی علاقوں کو بارشوں کے سیلاب سے محفوظ بنایا جا سکے بارش کوروکنا ہمارے بس میں نہیں، مگر سستی اور بد انتظامی کوضرورروکا جا سکتا ہے موسمیاتی تبدیلی تیزہورہی ہے لہٰذا ہماری قومی تیاری بھی اسی رفتارسے بڑھنی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے امپیریل کالج کے گرانتھم انسٹی ٹیوٹ میں قائم ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ سے وابستہ 18 سائنس دانوں اور محققین کے ایک گروپ نے قرار دیا کہ یہ غیر معمولی صورتحال انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ تھی، جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے بحران کو مزید بڑھا دیا۔اس گروپ میں پاکستان، برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز کی یونیورسٹیوں اور محکمہ موسمیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل تھے، انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب معمول سے زیادہ شدید بارشوں کی وجہ سے آئے، اور اس غیر معمولی موسم کی ذمہ داری انسانی سرگرمیوں پر عائد کی۔ پاکستان میں مون سون کا موسم جون کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر میں ختم ہوتا ہے، یہ موسم ملک کی سالانہ بارش کا 70 سے 80 فیصد حصہ لاتا ہے، لیکن اکثر اوقات سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ مون سون کی بارشیں آبی ذخائر کو بھرنے کے لیے بہت اہم ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ مزید شدید ہو گئی ہیں۔ امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمینٹل پالیسی سے وابستہ ڈاکٹر مریم زکریا نے کہا کہ پاکستان کا مون سون اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ اب معمولی حد تک تیز بارش والے مہینے بھی زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن رہے ہیں رپورٹ میں تجزیہ کی گئی بارشیں ’ریکارڈ توڑ‘ نہیں تھیں، لیکن یہ ایک وسیع تر رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سیلاب کو تیزی سے خطرناک بنا رہی ہے۔ شدید مون سون بارشوں کے بعد آنے والے ان سیلابوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا۔ ملک کے کئی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، سیلابی پانی نے سڑکیں ڈبو دیں، مکانات تباہ کر دیے اور فصلیں برباد کر دیں۔ مطالعے میں تجزیہ کیا گیا کہ 26 جون سے 3 اگست کے دوران، ملک بھر میں 300 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے 242 اموات شمالی پاکستان کے علاقے میں ہوئیں۔ تاریخی بارشوں کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ حالیہ شمالی پاکستان میں ہونے والی بارشیں دیگر برسوں کے مقابلے میں خاص طور پر غیر معمولی نہیں تھیں۔ آج کی ماحولیات، جس میں عالمی درجہ حرارت 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اسی طرح کے 30 دن کے شدید مون سون کے واقعات ہر 5 سال بعد متوقع ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر انسانوں نے فوسل فیول جلا کر ماحول کو گرم نہ کیا ہوتا تو بارش کی شدت کہیں کم ہوتی، محققین نے پایا کہ موسم کے ڈیٹا کو آب و ہوا کے ماڈلز کے ساتھ ملا کر موسمیاتی تبدیلی نے مون سون کی شدید بارشوں کو تقریباً 15 فیصد زیادہ شدید بنا دیا ہے۔ پاکستان (جو دنیا کی تاریخی کاربن کے اخراج کا صرف 0.5 فیصد ذمہ دار ہے) موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کی تیاری کے لحاظ سے دنیا میں 152ویں نمبر پر ہے، یہ نمبر ہیٹ ویوز، خشک سالی اور سیلاب کے اثرات کو مزید شدید بنا دیتا ہے۔ رپورٹ میں موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ کمیونٹیز کو ان خطرات سے بچایا جا سکے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان میں مون سون کی بارشیں اس وقت تک مزید شدید ہوتی رہیں گی، جب تک دنیا فوسل فیول سے قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقل نہیں ہو جاتی۔ درجہ حرارت میں ہر ایک دسویں حصے کے اضافے سے مون سون کی بارشیں زیادہ شدید ہوں گی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف تیز تر منتقلی کتنی ضروری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی موافقت کے لیے فوری مالی امداد کی ضرورت ہے، اور ملک کو موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اگر بڑے پیمانے پر تبدیلی پر مبنی اقدامات نہ کیے گئے، تو اقوام متحدہ کی ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق 2050 تک شدید موسمی حالات پاکستان کو تقریباً ایک ہزار 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کوپ اجلاس میں امیر ممالک (جو سب سے زیادہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں) نے ترقی پذیر ممالک کے لیے 2035 تک 300 ارب ڈالر کی موسمیاتی مالی امداد بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم رپورٹ نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے فراہم کردہ موجودہ امداد اور درکار رقم کے درمیان اب بھی بڑا خلا موجود ہے۔ رپورٹ نے اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک فی الحال سالانہ صرف 28 ارب ڈالر فراہم کر رہے ہیں، جو درکار رقم سے 187 سے 359 ارب ڈالر کم ہے۔ بتایا گیا کہ 2022 کے سیلابوں میں ایک ہزار 700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کتنا غیر محفوظ ہے، لیکن 3 سال بعد بھی مون سون کے سیلاب ہلاکتوں کا سبب بن رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی مالی امداد اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی کمی ہے، شمالی پاکستان میں ریکارڈ توڑ 48.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور اس کے بعد جولائی میں مہلک بارشیں، اس بات کی ایک اور واضح یاد دہانی ہیں کہ صرف 1.3 سینٹی گریڈ کی عالمی گرمی میں ہی پاکستان کن خطرات سے گزر رہا ہے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے آئندہ برس مون سون میں کسی بھی جانی و مالی نقصان سے بچنے کیلئے ابھی سے تیاری کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزرات موسمیاتی تبدیلی، وزارت منصوبہ بندی اور نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مربوط منصوبہ سازی کریں۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچاؤ کی حکومتی حکمت علی پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ وزیراعظم نے اجلاس میں ہدایت کی کہ آئندہ برس مون سون کے نقصانات سے بچنے کیلئے ابھی سے تیاری کی جائے، وزرات موسمیاتی تبدیلی، وزارت منصوبہ بندی اور این ڈی ایم اے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مربوط منصوبہ سازی کریں۔ انہوں نے پانی کے بہتر انتظام کے حوالے سے قومی سطح پر منصوبہ سازی کیلئے نیشنل واٹر کونسل کا اجلاس منعقد کرنے کی تیاری کی بھی ہدایت کی، شہباز شریف نے حکم دیا کہ پیش کردہ قلیل مدتی منصوبے پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے، جہاں پر کلاؤڈ برسٹ جیسی آفات آئندہ بھی آتی رہیں گی، چنانچہ اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی ہے۔ آفات سے نمٹنے کے لیے یہاں ایڈوانس وارننگ سسٹم موجود ہونا چاہیے،ملک نے 2022 کے دوران بھی سیلاب کی صورت میں قدرتی آفات کا سامنا کیا، موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے متعلقہ اداروں کو مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے عالمی سطح پر سادہ اور تیز کلائمیٹ فنانسنگ تک رسائی کا مطالبہ کرتے ہوئےکہاہے کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے ’بقا کا خطرہ‘ بن چکی ہے فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے برازیل میں منعقدہ کوپ 30 کلائمیٹ فنانس ڈائیلاگ سے ویڈیو لنک کے زریعے خطاب کرتے ہوئے گرین کلائمیٹ فنڈ کے پیچیدہ طریقہ کار پر اظہار تشویش کیا اور پاکستان کی این ڈی سیز، نیشنل ایڈاپٹیشن پلان اور کلائمیٹ پراسپیرٹی پلان پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ اب وقت عملدر آمد اور نتائج پر توجہ دینے کا ہے، فنڈ کو نقصانات کے عملی ادائیگیوں کا آغاز کرنا چاہیے۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے پاکستان کے لیے 2 ارب ڈالر سالانہ پیکج میں سے ایک تہائی کلائمیٹ منصوبوں کے لیے ہے۔ وزیر خزانہ نے ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کی معاونت کا اعتراف کیا اور کہا کہ پاکستان نئےکلائمیٹ فنانسنگ ذرائع کو متنوع بنا رہا ہے، ملک کے پہلے پانڈا بانڈ کا اجراء رواں سال کے آخر تک ہو جائے گا۔ گرین سکوک اور کاربن مارکیٹ منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، قابلِ سرمایہ کاری کلائمیٹ پروجیکٹس کے لیے تکنیکی معاونت کی اہمیت ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 184 ممالک پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف ایک تاریخی معاہدہ تشکیل دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں، ان ملکوں کو آگاہ کیا گیا کہ ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا جس کے ذریعے ماحولیاتی نظام کو تباہ اور سمندروں کو آلودہ کرنے والے عالمی بحران سے نمٹا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 10 روزہ مذاکرات کے آغاز پر ان مذاکرات کی صدارت کرنے والے ایکواڈور کے سفارت کار لوئس ویاس والڈیوئیسو نے ایک ہزار 800 سے زائد مذاکرات کاروں سے کہا کہ ہم ایک عالمی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
پلاسٹک کی آلودگی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہے، ہمارے سمندروں اور دریاؤں کو آلودہ کر رہی ہے، حیاتیاتی تنوع کو خطرے میں ڈال رہی ہے، انسانی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد پر غیر منصفانہ بوجھ ڈال رہی ہے۔ یہ معاملہ نہایت ہنگامی نوعیت کا ہے، ثبوت بالکل واضح ہیں اور اس کے حل کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی اس قدر عام ہو چکی ہے کہ مائیکرو پلاسٹکس دنیا کی بلند ترین چوٹیوں، سمندر کی گہرائیوں، اور تقریباً انسانی جسم کے ہر حصے میں پائے جا چکے ہیں، تاہم 5 مرحلوں پر مشتمل بات چیت اور 3 سال کے مذاکرات دسمبر میں جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس وقت ناکام ہو گئے تھے، جب تیل پیدا کرنے والے ممالک نے اتفاقِ رائے کو روک دیا۔ کلیدی شخصیات جو اس نئی کوشش کی قیادت کر رہی ہیں، اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ اس بار معاہدہ ممکن ہے، اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ بوسان کے بعد سے وسیع سفارت کاری ہوئی ہے۔ یو این ای پی ان مذاکرات کی اینڈرسن نے کہا کہ مختلف خطوں اور مفاداتی گروہوں کے درمیان بات چیت نے ایک نیا جذبہ پیدا کیا ہے، دنیا بھر میں ہر سال 40 کروڑ ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے، جس میں سے نصف صرف ایک بار استعمال کے لیے ہوتا ہے، پلاسٹک کے کچرے کا صرف 15 فیصد جمع کیا جاتا ہے تاکہ اسے ری سائیکل کیا جا سکے، لیکن صرف 9 فیصد ہی حقیقتاً ری سائیکل ہو پاتا ہے۔ تقریباً 46 فیصد لینڈ فل میں چلا جاتا ہے، 17 فیصد جلا دیا جاتا ہے اور 22 فیصد مناسب طریقے سے نہ سنبھالا جانے والا کچرا بن جاتا ہے۔ 2022 میں، ممالک نے اس بحران کو 2024 کے آخر تک حل کرنے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا تھا، تاہم سمندری پلاسٹک سمیت ایک قانونی طور پر پابند معاہدے پر بوسان میں ہونے والے آخری مذاکرات ناکام ہو گئے۔ کچھ ممالک ایک ایسا سخت معاہدہ چاہتے تھے، جو پلاسٹک کی پیداوار کو محدود کرے اور نقصان دہ کیمیکلز کو ختم کرے، مگر زیادہ تر تیل پیدا کرنے والے ممالک نے پیداوار پر پابندی کو مسترد کر دیا اور توجہ کچرے کے انتظام پر مرکوز رکھنا چاہی۔ پلاسٹک کی پیداوار پر حد لگانا جنیوا میں ہونے والی بحث کے سب سے نازک نکات میں سے ایک ہے، سوئٹزرلینڈ کی ماحولیاتی وزارت کی ڈائریکٹر کیٹرین شنئبرگر نے کہا یہ کوئی مطالبہ نہیں کہ پیداوار پر حد لگائی جائے، غیر رسمی ملاقاتوں میں یہ پیغام پیدا کرنے والے ممالک تک پہنچانا ضروری تھا۔ یہ معاہدہ پلاسٹک کی پوری زندگی (پیداوار سے لے کر کچرے تک) کا احاطہ کرے گا۔ ہمیں پلاسٹک بنانا بند کرنا ہوگا۔جنوبی ایشیا میں پلاسٹک کی آلودگی کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں چھ ممالک پر سرحد پار آلودگی کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے، سرحد پار ماحولیاتی آلودگی میں پلاسٹک، صنعتی فضلے، گھریلو ضائع شدہ پانی اور 20 بڑے دریاؤں کے ذریعے مائیکرو پلاسٹک شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دریاؤں اور دیگر سرحد پار ماحولیاتی آلودگی جیسے کہ فضائی آلودگی کے علاوہ، یہ ممالک سماجی اقتصادی اور فضلے کے شعبے کے چیلنجز میں شراکت دار ہیں۔ دو بڑے سرحد پار دریا طاس، گنگا-براہم پترا میگھنا (جی بی ایم، جس میں بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت اور نیپال) اور سندھ طاس (جس میں افغانستان، بھارت اور پاکستان شامل ہیں) میں پلاسٹک کے فضلے کی اخراج کی بلند شرح کی نشاندہی کی گئی ہے۔پورے جنوبی ایشیا میں، خاص کر ایک بار استعمال ہونے والا پلاسٹک ناکارہ ویسٹ منیجمنٹ سسٹم کے باعث ندی، نالوں، دریاؤں میں خارج ہوتا ہے، کاپ 30 کے میزبان برازیل نے اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات میں شامل ممالک کے درمیان ایک سمجھوتے کا پہلا مسودہ پیش کر دیا ہے رپورٹ کے مطابق اس مسودے میں مشکل ترین معاملات پر متعدد اختیارات شامل ہیں، جو بیلم میں موجود تقریباً 200 ممالک کے درمیان گہری خلیج اور آخری سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے اب بھی درپیش کام کو ظاہر کرتے ہیں۔ 9 صفحات پر مشتمل گلوبل موتیراؤ دستاویز جو ایک مقامی تصور یعنی مشترکہ مقصد کے لیے یکجا ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔ متن میں بیلم کے حساس نکات، تجارتی اقدامات، غریب ممالک کے لیے مالیاتی معاونت، اور کاربن میں کمی کے عالمی سطح پر ناکافی اہداف پر متعدد امکانات کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان پیچیدہ نکات پر مسودے کی تیزی سے تیاری یہ ظاہر کرتی ہے کہ کاپ 30 کی صدارت کو جلد ہی نتیجہ حاصل ہونے کا اعتماد ہے۔ ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ماہرِ موسمیات لی شو نے کہا کہ یہ پچھلے متن سے واضح پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے، اور غالباً حالیہ سی او پیز کی تاریخ میں اتنی جلدی اس قدر صاف مسودہ جاری ہونے کی مثالوں میں سے ایک ہے۔ مسودہ اُس واضح تقسیم کو بھی ظاہر کرتا ہے جو ایک ایسے اتحاد کے درمیان ہے جو فوسل فیول کے خاتمے کے لیے ’روڈ میپ‘ کا مطالبہ کرتا ہے، اور دوسرا بلاک جو تیل پیدا کرنے والے ممالک کی قیادت میں ہے اور اس قسم کی کسی کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔ اس میں ایک اختیاری ورکشاپ کی تجویز بھی شامل ہے جس میں کم کاربن حلوں پر بحث کی جائے، یا وزارتی سطح کے ایک اجلاس کی تجویز ہے، جس میں ایسے راستوں پر بات کی جائے جو ممالک کو فوسل فیول پر اپنے انحصار کو بتدریج کم کرنے میں معاون ہوں، ایک تیسرا اختیار یہ بھی پیش کرتا ہے کہ اس موضوع پر کوئی متن شامل ہی نہ کیا جائے۔ مسودہ یہ امکان بھی اٹھاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ممالک کے قومی سطح کے وعدے ہر 5 سال کے بجائے ہر سال جانچے جائیں، تاکہ گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کے عالمی پیش رفت کا زیادہ کثرت سے جائزہ لیا جاسکے۔
پاکستان کا فوکس کاپ 30 میں کلائمیٹ فنانسنگ پر مرکوزر ہا، پاکستان نے ہر سال کے لیے 50 سے 60 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ پیش کیا۔ کاپ 30 میں چاروں صوبے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پروجیکٹس پیش کیے گئے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی نےصوبوں کو ان منصوبوں میں انتظامی اور تکنیکی سپورٹ فراہم کی، حکام وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کلائمیٹ فنانس کے تحت مختلف پروجیکٹس کی نوعیت میں موصول ہوچکے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2030 تک 348 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ درکار ہے، ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی معاونت درکار ہے۔ کاپ 30 میں پاکستان موسمیاتی فنانسنگ کے لیے عالمی برادری سے ٹھوس حمایت مانگے ہیں ,وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں اپنے نئے قومی ماحولیاتی اہداف (این ڈی سی 3.0) جمع کرا دیے، جس میں 2035 تک ماحولیاتی اہداف کے لیے 565.7 ارب ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کے تحت ہر ملک اپنے ماحولیاتی اہداف ہر پانچ سال بعد جمع کراتا ہے، دستاویزات کے مطابق پاکستان نے 2021 سے 2025 کے دوران این ڈی سی 2.0 کے تحت 37 فیصد گرین ہاؤس گیسز میں کمی کا ہدف حاصل کیا اور یہ ہدف پاکستان نے کسی بین الاقوامی مالی امداد کے بغیر حاصل کیا۔ نئے اہداف کے تحت پاکستان نے 2035 تک 2 ارب 55 کروڑ 90 لاکھ ٹن کے بجائے ایک ارب 28 کروڑ ٹن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا ہدف مقرر کیا ہے، اس دوران پاکستان اپنے وسائل سے 17 فیصد کمی کرے گا، جب کہ باقی 33 فیصد کمی کے لیے 5 کھرب 65 ارب 70 کروڑ ڈالر کی بین الاقوامی فنانسنگ اور ٹیکنالوجی کی فراہمی لازمی قرار دی گئی ہے، پاکستان نے عالمی برادری سے 5 کھرب 65 ارب 70 کروڑ ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ کا مطالبہ کیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 2035 تک پاکستان میں 38 ہزار میگاواٹ سے زائد قابلِ تجدید اور کلین انرجی متوقع ہے، اسی طرح 2030 تک ملک میں 30 فیصد نئی گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی اور 3 ہزار الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔ انرجی ایفیشنسی پالیسی کے تحت پاکستان نے 2030 تک 3 کروڑ 50 لاکھ ٹن اخراج میں کمی کا ہدف بھی مقرر کیا ہے، جب کہ سستی ماحول دوست ٹیکنالوجی اور استعداد کار بڑھانے کے لیے عالمی تعاون کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X