LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان کی مسلح افواج اور قوم دہشت گردی کے خلاف متحد

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ دہشت گردی دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہے، دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج اور پاکستانی قوم متحد ہیں۔وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان بہت اہم ہے۔ دہشت گردی واقعی ایک بڑا خطرہ ہے جس کا سامنا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کو ہے۔پاکستان کی مسلح افواج اور قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں اور یہ اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک جسم ہیں پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور قوم کے ساتھ مل کر لکھ رہی ہے کہ خون کی آخری بوند تک لڑیں گے۔یاد رہے کہ افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر دوسری طرف سے ہماری فوج کو انگیج کرکے دہشتگردوں اور اسمگلروں کو سرحد پار کرایا جاتا ہے، دہشت گردی دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہے، دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج اور پاکستانی قوم متحد ہیں۔ترجمان دفترخارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی معاونت ختم نہ ہونے تک افغانستان کے ساتھ تجارت بند رہے گی۔جمعے کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ سے اظہار خیال کرتے ہوئے ترجمان طاہر اندرابی نے کہا کہ پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ تجارت بند کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، افغانستان نے پاکستان کے تاجروں اور تجارت پر حملے کیے، پاکستان اپنے شہریوں کی زندگی کی قیمت پر افغانستان کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتا۔پاکستان نے ہمیشہ سیکیورٹی اور تجارت کو الگ رکھنے کی کوشش کی مگر افغانستان سے پاکستان پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کے دو الگ الگ آپریشنز میں بھارتی حمایت یافتہ فتنۃ الخوارج کے 13 دہشتگرد ہلاک ہوگئے۔انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق 20-21 نومبر کو خیبر پختونخوا میں دو الگ آپریشنز کے دوران بھارتی حمایت یافتہ فتنۃ الخوارج کے 13 خوارج ہلاک ہو گئے۔خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لکی مروت ڈسٹرکٹ کے عمومی علاقے پہاڑخیل میں مشترکہ انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیا۔آپریشن کے دوران،سیکیورٹی فورسز نے خوارج کے ٹھکانے کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا اور شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد 10 خوارج کو ہلاک کردیا۔ایک اور انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کیا گیا، جہاں فائرنگ کے تبادلے کے دوران سیکیورٹی فورسز نے تین خوارج کو ہلاک کر دیا۔ہلاک شدہ بھارتی حمایت یافتہ خوارج سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا، جو سیکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بے گناہ شہریوں پر قاتلانہ حملوں سمیت متعدد دہشت گرد سرگرمیوں میں فعال طور پر ملوث تھے۔آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں موجود کسی اور بھارتی حمایت یافتہ خوارج کو ختم کرنے کے لیے سینیٹائزیشن آپریشنز جاری ہیں، مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر ملکی حمایت یافتہ اور اسپانسرڈ دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے فیڈرل ایپیکس کمیٹی کے قومی ایکشن پلان کے تحت منظور شدہ وژن ’عزم استحکام‘ کے تحت جاری انسدادِ دہشتگردی مہم کو بھرپور رفتار سے جاری رکھیں گے۔پاکستانی حکومت اور فوج ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ کو برقرار رکھتی ہے۔ ملک کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کرنا، انتہا پسندانہ پروپیگنڈے کو دبانا، دہشت گردی کی مالی معاونت کا مقابلہ کرنا، اور دہشت گرد گروہوں اور انفراسٹرکچر کو ختم کرنے کے لیے فوجی اور نیم فوجی دستوں کا استعمال شامل ہے۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) ان کوششوں کو مربوط کرتی ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسیاں تیار کرتی ہے، جسے قومی سلامتی کے ایک اہم مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کے مقدمات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، پراسیکیوٹرز اور عدالتوں کے اختیارات کو بڑھانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 جیسے قوانین بنائے اور اس میں ترمیم کی فوج دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور حکومتی کنٹرول کو بحال کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے، جیسا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، بشمول منی لانڈرنگ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث این جی اوز کو غیر رجسٹر کرنا، اور ممنوعہ گروہوں کو فنڈز اکٹھا کرنے سے روکنا، فریڈرک-ایبرٹ-سٹیفٹنگ نوٹ کرتے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان منصوبہ جو 2014 میں تیار کیا گیا تھا، ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کا خاکہ پیش کرتا ہے جس میں انتہا پسندانہ بیانیے اور نفرت انگیز تقریروں کا مقابلہ کرتے ہوئے “آئیڈیشنل ڈومین” کو حل کرنا اور انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے ذریعے “سماجی و اقتصادی ڈومین” کو حل کرنا شامل ہے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی تیار کرنے، اداروں کے درمیان کوششوں کو مربوط کرنے اور آن لائن اور جسمانی دونوں شعبوں میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی طویل مدتی استحکام پیدا کرنے کے لیے خالصتاً حرکیاتی کارروائیوں سے زیادہ پائیدار، غیر حرکیاتی اقدامات کی طرف توجہ مرکوز کرتی ہے۔ سرکاری بیانات دہشت گردی اور دیگر سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عوام اور مسلح افواج کے درمیان قومی اتفاق اور اتحاد پر زور دیتے ہیں۔
مسلح افواج کو ملک کی سالمیت اور خوشحالی کے لیے لڑنے میں ایک اہم اثاثہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایک ایسا موقف جس کی حمایت ایک متحد قوم کرتی ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کا قومی بیانیہ ایک مستقل پالیسی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) شامل ہیں پاکستان 20 سال سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔
آپریشن عزم استحکام ضربِ عضب‘ ردالفساد‘ خیبر وَن‘ خیبر ٹو‘ آپریشن راہِ راست‘آپریشن راہِ نجات و دیگر آپریشنز کا تسلسل ہی ہے۔ اس کا مقصد قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح پھونکنا اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔آپریشن عزم استحکام صرف ایک آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک حکمت عملی‘ ایک ویژن کا نام ہے۔ یہ دہشت گردوں کو تباہ کرنے‘ ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے کے عزم کا اعادہ ہے۔ عزمِ استحکام کا مقصد انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جا سکے کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی دہشت گردی کے انسداد کیلئے آپریشن عزم استحکام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے دشمن کو بتایا گیا تھاکہ افواج اور عوام‘ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کیلئے پُرعزم اور متحد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وطنِ عزیز نہایت نازک دور سے گز رہا ہے۔ ایسے میں افواجِ پاکستان اپنا فرض بخوبی نبھا رہی ہیں۔ 2014ء میں دشمن نے جو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تھا‘ وہ حملہ سکول پر نہیں بلکہ قوم کے مستقبل پر ہوا تھا جس میں اس مادرِ وطن کے معصوم معماروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور بچوں سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ انکے لہو کا دشمن سے حساب لینے کیلئے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت آپریشن ضربِ عضب کی کارروائیوں میں مزید تیزی لائی گئی۔ یہ آپریشن اُس وقت کی عسکری قیادت کے اتفاقِ رائے سے کیا گیا تھا۔ اس آپریشن سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی اور ملک میں امن و امان قائم ہوا تھا۔ لیکن جب ملکی سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد میں توسیع کرتے ہوئے آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا تھاتو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھاکہ آپریشن عزم استحکام درحقیقت آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے فیصلہ پر سیاسی جماعتوں میں نظر آنے والی تقسیم دہشت گردوں کو یہ شہ دینے کے مترادف ہے کہ وہ ہمارے ملک میں جیسے چاہے دندناتے پھریں۔ خدارا سبھی سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور ملکی امن و امان اور سالمیت کو جھوٹی اَنا اور ذاتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔ ہم آج اگر اپنے گھروں میں محفوظ ہیں تو پاک فوج کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج کے جانبازوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر ان دہشت گردوں کو محدود کر رکھا ہے اور آپریشن عزم استحکام سے ملک کا امن مزید مستحکم ہو گا۔ ان شاء اللہ! افسوس سیاسی انتشار اور ذاتی مفادات کی جنگ سکیورٹی اداروں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہمارے حکمران تو نیشنل ایکشن پلان کے 22نکات میں سے اُن 17نکات‘ جن پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے‘ پر عملدرآمد میں ناکام رہے بلکہ عوام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے نقصانات کے حوالے سے کوئی بیانیہ بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ رواں برس مئی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق افواجِ پاکستان اب تک دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر 13ہزار کارروائیاں کر چکی ہیں۔ آپریشن عزم استحکام بھی ٹارگٹڈ آپریشن ہے جو ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ آپریشن عزم استحکام اور ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کیے گئے آپریشنز میں فرق ہے۔ سابقہ آپریشنز میں ایسے علاقے‘ جو دہشت گردی کی وجہ سے نوگو ایریاز بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے تھے‘ وہاں سے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ اُن علاقوں سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے علاقہ مکینوں کی نقل مکانی بھی کروانی پڑی۔ لیکن آج‘ اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگو ایریاز نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کو گزشتہ آپریشنز کے ذریعے فیصلہ کن طور پر شکست دی گئی تھی۔ اس لیے آپریشن عزمِ استحکام ایسا آپریشن نہیں جس کی انجام دہی کے لیے آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں اپنے دس ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 80ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش اور اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان کیا طالبان حکومت آج عملاً بھارت کی کٹھ پتلی بن کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس کی سازشوں کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔ طا لبان کے مخاصمانہ رویے اور دوحہ معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے افغان طالبان گٹھ جوڑ نے خطے کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت دہشت گردی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں طالبان دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے۔ اس سنگین صورتحال کے تناظر میں ملکی بقا و سلامتی کی خاطر قومی‘ سیاسی اور مذہبی قیادت سمیت تمام سٹیک ہو لڈرزکا دفاع وطن اور دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کیلئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کا تقاضا ہے
آپریشن عزم استحکام ضربِ عضب‘ ردالفساد‘ خیبر وَن‘ خیبر ٹو‘ آپریشن راہِ راست‘آپریشن راہِ نجات و دیگر آپریشنز کا تسلسل ہی ہے۔ اس کا مقصد قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح پھونکنا اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔آپریشن عزم استحکام صرف ایک آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک حکمت عملی‘ ایک ویژن کا نام ہے۔ یہ دہشت گردوں کو تباہ کرنے‘ ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنے کے عزم کا اعادہ ہے۔ عزمِ استحکام کا مقصد انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جا سکے کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی دہشت گردی کے انسداد کیلئے آپریشن عزم استحکام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے دشمن کو بتایا گیا تھاکہ افواج اور عوام‘ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کیلئے پُرعزم اور متحد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وطنِ عزیز نہایت نازک دور سے گز رہا ہے۔ ایسے میں افواجِ پاکستان اپنا فرض بخوبی نبھا رہی ہیں۔ 2014ء میں دشمن نے جو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تھا‘ وہ حملہ سکول پر نہیں بلکہ قوم کے مستقبل پر ہوا تھا جس میں اس مادرِ وطن کے معصوم معماروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور بچوں سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ انکے لہو کا دشمن سے حساب لینے کیلئے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت آپریشن ضربِ عضب کی کارروائیوں میں مزید تیزی لائی گئی۔ یہ آپریشن اُس وقت کی عسکری قیادت کے اتفاقِ رائے سے کیا گیا تھا۔ اس آپریشن سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی اور ملک میں امن و امان قائم ہوا تھا۔ لیکن جب ملکی سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد میں توسیع کرتے ہوئے آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا تھاتو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھاکہ آپریشن عزم استحکام درحقیقت آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے فیصلہ پر سیاسی جماعتوں میں نظر آنے والی تقسیم دہشت گردوں کو یہ شہ دینے کے مترادف ہے کہ وہ ہمارے ملک میں جیسے چاہے دندناتے پھریں۔ خدارا سبھی سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور ملکی امن و امان اور سالمیت کو جھوٹی اَنا اور ذاتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔ ہم آج اگر اپنے گھروں میں محفوظ ہیں تو پاک فوج کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج کے جانبازوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر ان دہشت گردوں کو محدود کر رکھا ہے اور آپریشن عزم استحکام سے ملک کا امن مزید مستحکم ہو گا۔ ان شاء اللہ! افسوس سیاسی انتشار اور ذاتی مفادات کی جنگ سکیورٹی اداروں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہمارے حکمران تو نیشنل ایکشن پلان کے 22نکات میں سے اُن 17نکات‘ جن پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے‘ پر عملدرآمد میں ناکام رہے بلکہ عوام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے نقصانات کے حوالے سے کوئی بیانیہ بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ رواں برس مئی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق افواجِ پاکستان اب تک دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر 13ہزار کارروائیاں کر چکی ہیں۔ آپریشن عزم استحکام بھی ٹارگٹڈ آپریشن ہے جو ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ آپریشن عزم استحکام اور ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کیے گئے آپریشنز میں فرق ہے۔ سابقہ آپریشنز میں ایسے علاقے‘ جو دہشت گردی کی وجہ سے نوگو ایریاز بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے تھے‘ وہاں سے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ اُن علاقوں سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے علاقہ مکینوں کی نقل مکانی بھی کروانی پڑی۔ لیکن آج‘ اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگو ایریاز نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کو گزشتہ آپریشنز کے ذریعے فیصلہ کن طور پر شکست دی گئی تھی۔ اس لیے آپریشن عزمِ استحکام ایسا آپریشن نہیں جس کی انجام دہی کے لیے آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں اپنے دس ہزار سے زائد فوجی جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 80ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش اور اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان کیا طالبان حکومت آج عملاً بھارت کی کٹھ پتلی بن کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس کی سازشوں کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔ طا لبان کے مخاصمانہ رویے اور دوحہ معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے افغان طالبان گٹھ جوڑ نے خطے کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت دہشت گردی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں طالبان دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے۔ اس سنگین صورتحال کے تناظر میں ملکی بقا و سلامتی کی خاطر قومی‘ سیاسی اور مذہبی قیادت سمیت تمام سٹیک ہو لڈرزکا دفاع وطن اور دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کیلئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کا تقاضا ہےیاد رہے کہ ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہےکہ خیبرپختونخوا میں رواں سال 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا ہے، جن کی یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔رواں سال خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جس میں پاک فوج کے 311 افسران و جوانان، پولیس کے 73 اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں آپریشن کےدوران واصل جہنم واصل ہونے والے خارجیوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے تو ایک سال میں مارے گئے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سالوں میں مارے گئے خارجیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، اسی طرح گزشتہ سال مارے گئے خارجیوں کی تعداد اس سے گزشتہ 9 سالوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھی۔ 2016 سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے۔مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔ان عوامل کا جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی موجود ہے، دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا۔دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا۔بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا۔افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی۔مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑہےصرف 2024 اور 2025 میں پاکستان جہنم واصل کیے جانے والے افغانیوں کی تعداد 161 بنتی ہے، اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے دخل اندازی کرتے ہوئے 135 خارجی مارے گئے جبکہ 2 سال میں خود کش حملے کرنے والے 30 حملہ آور میں افغان شہری تھے، یہ اعداد و شمار افغانستان کو بھارت کے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر عیاں کرتے ہیں۔ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گٹھ جوڑ کو مکمل مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ 2014 میں سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان نکات پر کام کرنا ہے۔2021 میں پچھلی صوبائی حکومت کے دور میں جن نکات پر کام ہوچکا تھا انہیں خارج کرکے 14 نکات پر مشتمل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور تمام سیاسی عمائدین، تمام سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان 14 نکات پر کام کرنا ہے۔موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا، دہشت گردی کی اولین وجہ یہ ہے کہ ان نکات پر عمل نہیں ہورہا۔ایکشن پلان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو مارنا ہے، صرف یہی ایک نکتہ زمینی کارروائیوں سے تعلق رکھتا ہے، کیا اس پر کام ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا، صرف خیبرپختونخو ا میں سیکیورٹی ایجنسیاں یومیہ 40 سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر رہی ہیں کہ نہیں کر رہیں، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا؟ کیا ہمارے شہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ پہلے نکتے پر کام ہور ہا ہے اور بالکل ہو رہا ہے۔ باقی 13 نکات کا بھی احاطہ کرلیا جائے کہ ان پر کیا کام ہورہا ہے، دوسرا نکتہ تھا کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے، تمام سیاسی عمائدین اور سیاسی جماعتیں 2014 سے اس بات پر متفق ہیں، کیا ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟ کیا کہ کیا یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟ اگر حل مسئلے کا حل بات چیت میں ہے تو جب 6 اور 7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر میزائل مارے، معصوم بچوں، خواتین، مدرسوں اور مساجد کو شہید کیا تو اس ملک کے عوام نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیتے ہیں؟اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتا، نہ جنگیں ہوتیں اور نہ مہمات ہوتیں، اگر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے لیے دو جہان بنائے گئے، وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں، انہوںؐ نے اس دن کیوں بات چیت نہیں کرلی؟ ادھر تو باپ کے آگے بیٹا، بھائی کے آگے بھائی، قریشی کے آگے قریشی اور اموی کے آگے اموی کھڑا تھا، کیوں نہیں بات چیت کرلی؟ ہمارے سیاستدانوں، تمام صوبائی حکومتوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے، جیسا کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران مطالبہ دہرایا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستان اپنے شہریوں اور سرزمین کے تحفظ کے لیے ’جو بھی ضروری ہو ا‘ کرے گا۔حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان نے بارہا انکار کے باوجود اپنی سرزمین پر مختلف النوع کے دہشت گردوں کی میزبانی کی ہے۔ مثال کے طور پر، 2022ء میں افغان دارالحکومت کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے والے امریکی حملے نے طالبان کو مشتعل کیا کیونکہ یہ ان کے اور امریکیوں کے درمیان ہونے والے دوحہ معاہدے کی واضح خلاف ورزی تھی ماضی میں پاکستان نے اس پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے افغانستان کے اندر اہداف پر حملے کیے ہیں۔ بلاشبہ افغانستان میں چھپے ہوئے دہشتگرد عام شہریوں اور فوجیوں کو شہید کرتے ہیں۔پاکستان کوعلاقائی شراکت داروں چین، روس اور ایران کے ساتھ مل کر افغان طالبان کو یہ پیغام پہنچانا جاری رکھا جائے کہ دہشتگردوں کو پناہ دینے کے نقصانات ہوں گے جیسے تجارتی سرگرمیوں میں کمی، یا سفارتی تعلقات میں کمی وغیرہ۔
افغانستان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ موجودہ صورت حال میں دہشتگردوں کا افغان سرزمین پر پناہ لینا مگر طالبان حکومت کا اس سے مسلسل انکار، قابل یقین نہیں افغان طالبان اپنے عسکریت پسند ’مہمانوں‘ کے ساتھ کیا کرتے ہیں، یہ ان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے باقی ہمسایہ ممالک کو انہیں یقین دلانا چاہیے کہ ان کی سلامتی کو ان مذموم عناصر سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔اندرونِ ملک، عسکریت پسندوں سے علاقہ واپس لینے کے لیے متحرک کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، نیشنل ایکشن پلان کے غیر متحرک عناصر کا پیچھا کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کی جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اشارہ کیا۔ یہ ایک منصوبہ تھا جس پر تمام ریاستی اداروں نے اتفاق کیا تھا۔ 16 اگست 214 کو ظالم دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول کے طلبہ کا قتل عام کیا تھا۔ اس سانحے میں 150 افراد جاں بحق ہوئے جن میں اسکول کی پرنسپل کے علاوہ 134 طلبہ بھی شامل تھے۔
حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کر کے ایک کانفرنس منعقد کی تھی، اس کانفرنس میں 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے ہوا تھا، یہ ایک جامع پلان تھا۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں تھے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام،کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی، نفرت انگیز مواد پر پابندی، دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے سمیت مدارس کی اصلاحات، دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کی بندش، نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی کا قیام، قومی سلامتی کمیٹی کی تمام معاملات میں نگرانی وغیرہ شامل تھے مگر بعد میں حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ نہیں تھے تحریک انصاف کے بانی ہمیشہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے طالبان فوج کی کابل پر قبضہ کی بھرپور مدد کی تھی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتوں نے طالبان کی کامیابی کا جشن منایا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں طالبان کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ ان طالبان نے سابقہ قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختون خوا کے کئی شہروں میں متوازی حکومتیں قائم کر لیں۔ کے پی میں مختلف شہروں میں عوام نے طالبان کے خلاف دھرنے دیے ، مگر وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان جنگجوؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوام کی سرپرستی نہیں کی۔ اب کے پی کے عوام طالبان کے حملوں کا شکار ہیں۔ پشاورکے جرگہ کا یہ مطالبہ اہم ہے کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تیاری میں کے پی حکومت کا مشورہ شامل ہونا چاہیے مگر کے پی کی حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ طالبان جنگجوؤں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اگر اب ریاست نے واضح طے کرلیا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنا ہے تو پھر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونا چاہیے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X