LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان , چین کے درمیان ‘سی پیک فیز ٹو’ کی باز گشت

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) حکومت سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے جا رہی ہے جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہو گا۔سی پیک کے دوسرے مرحلے کے نفاذ سے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معدنیات سمیت دیگر باہمی مفاد کے شعبوں میں تعاون کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ‘سی پیک فیز ٹو’ کی باز گشت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان پہلے سے ہی سیکیورٹی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ پاکستان کو اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے جیسے چیلنج کا سامنا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کے پیکج کے ذریعے کوئی بھی ایسا منصوبہ جس میں چین کی سرمایہ کاری شامل ہو، وہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ صرف آئی ٹی اور زراعت کے سیکٹر میں ٹیکنالوجی کے تبادلے کے منصوبوں پر کام کر سکتا ہے اس وقت چین پاکستان میں مختلف منصوبوں کی مد میں تیس ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کر چکا ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان ‘سی پیک’ منصوبے کے دوسرے مرحلے پر اتفاق ہو چکا ہے اور حکومت اسے ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر قرار دے رہی ہے صدر آصف علی زرداری کہنا ہے کہ ‘سی پیک ون’ سے توانائی اور انفرااسٹرکچر سمیت مختلف منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں اسی طرح پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے میں بھی بڑے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان پرامید ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد سے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت باہمی مفاد کے دیگر شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ‘سی پیک فیز ٹو’ میں آنے والی سرمایہ کاری اور فنڈز کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا کیوں کہ سی پیک ون کا جتنا شور شرابہ تھا اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ واضح رہے کہ چین-پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ایک ترقیاتی منصوبہ ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی اور اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد چین کے جنوب مغربی صوبے سنکیانگ کو پاکستان کے گوادر پورٹ سے جوڑنا ہے۔ اس راہداری کے ذریعے چین مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے۔ سی پیک فیز ون میں حکومت کی زیادہ توجہ توانائی اور سڑکوں کی تعمیر پر تھی اور حکومت نے زیادہ پیسہ غیر پیداواری منصوبے پر لگایا اور تاحال کوئی بھی ایسا منصوبہ سامنے نہیں آ رہا جو کہ ملک کے لیے کمائی کا ذریعہ بن رہا ہو۔سی پیک فیز ون میں زیادہ تر پراجیکٹس توانائی کے بارے میں تھے۔ جن میں قابلِ ذکر ونڈ پلانٹ ٹھٹہ، تھرکول اور ہائیڈرو پلانٹس تھے۔ اسی طرح کچھ پراجیکٹس انفرااسٹرکچر کے حوالے سے تھے جن میں ہزارہ ایکسپریس وے، سکھر ملتان موٹر وے، لاہور اورینج ٹرین، ہکلہ- ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے اس کے علاوہ گوادر اپگریڈیشن سمیت دیگر منصوبے۔ پاکستان میں چین کے تعاون سے بنائے گئے تمام منصوبے قرضے کی صورت میں تھے پاکستان کو آئی ٹی اور زراعت کے شعبے میں چین کے ساتھ تعاون کے شراکت کے منصوبوں پر کام کرنا ہو گا جو کہ کمائی کا زریعہ بن سکیں۔ اس حوالے سے مقامی صنعت کو بڑھانا ہو گا۔ سی پیک فیز ون منصوبے کے تحت کئی اکنامک زون تکمیل کے مرحلے میں ہیں اور بہت جلد پاکستان میں اس حوالے سے صنعت کی بہتری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

شہباز شریف کے دورۂ چین میں پاکستان نے سیکیورٹی سے متعلق یقین دہانیاں کرائی ہیں , چین افریقہ میں اپنے تجارتی حجم کو تیزی سے بڑھا رہا ہے اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے تحت وہ اس حوالے سے سی پیک روٹ کا بھی بہترین طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔ چین نے پاکستانی حکام کے سامنے بارہا اپنے شہریوں اور منصوبوں کی سیکیورٹی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں چینی شہری اور انجینئرز دہشت گردوں کا ہدف بنے ہیں۔ رواں برس مارچ میں خیبر پختونخوا کا ضلع بشام میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کی گاڑی پر خودکش حملے میں پانچ چینی انجینئرز مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد چین نے داسو دیامر بھاشا اور تربیلا پانچویں توسیعی پن بجلی منصوبوں پر کام عارضی طور معطل کر دیا تھا نہ تو چین نے پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی پاکستان نے چینی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں کوئی گرین سگنل دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں دونوں اطراف اربوں ڈالر کے سی پیک فیز ٹو کی بات ہو رہی ہے پاکستان اور چین کےدوطرفہ تعلقات پہلے بھی مضبوط تھےلیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری کامیاب دورہ چین سے اورزیادہ مضبوط ہوئے ہیں,جس میں پاکستان اور چین کے درمیان 3 اہم شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں, ان معاہدوں کا تعلق لائیو اسٹاک انڈسٹری میں جدت، پاکستان میں جدید ٹیکسٹائل انڈسٹریل پارک کے قیام اور فائر ٹرکس و ایمرجنسی آلات کی فراہمی سے ہے۔
‎پہلا ایم او یو کنٹرولڈ ایگریکلچر سائنس اینڈ ایجوکیشن پارک، زرعی پیداوار اور خوراک کے تحفظ میں اضافہ ,دوسرا ایم او یو شینونگ کالج، کسانوں کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت فراہم کرنے کیلئے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ‎ ,تیسرا ایم او یو ٹائر ری سائیکلنگ پروجیکٹ، ماحول دوست فاضل مادہ کی مینجمنٹ کو فروغ دینا‎شامل تھا۔
ایم او یوز کا مقصد پاکستان میں زراعت، ماحولیات اور ماس ٹرانزٹ شعبوں کی ترقی ہے۔‎اس موقع پر خاتون اول بی بی آصفہ، چیئرمین بلاول بھٹو اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا بھی موجود تھے اس موقع پرصوبائی وزراء شرجیل انعام میمن اور سید ناصر حسین شاہ , سینیٹر سلیم مانڈوی والا، پاکستان کے سفیر برائے چین اور چین کے سفیر برائے پاکستان بھی موجود تھے۔
اس موقع پر صدرپاکستان آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ یہ یادداشتیں پاکستان میں خوراک کے تحفظ، صنعتی ترقی، برآمدات کے فروغ اور آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنائیں گی لائیو اسٹاک سیکٹر کی بہتری دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گی جب کہ ٹیکسٹائل پارک کا قیام برآمدات بڑھانے اور صنعتی شعبے کو مزید فعال کرنے میں مددگار ہوگا۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے جدید فائر ٹرکس اور ایمرجنسی آلات کی فراہمی عوامی تحفظ کو یقینی بنانے اور ریسکیو آپریشنز کو مزید مؤثر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
یاد رکھیں کہ سی پیک کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا گیم جینچر فلیگ شپ منصوبہ کہا جاتا ہے آج چین کے اشتراک سےسی پیک منصوبہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور آنیوالے وقت میں مزید شان و شوکت سے آگے بڑھے گا ،
عنقریب دنیا بھر میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت بڑی سطح پربراستہ گوادر تجارتی آمد ورفت ہوا کریگی، پاکستان کے عوام سی پیک کی بدولت موٹر ویز پر سفر کرینگے، توانائی کے منصوبوں سے بجلی حاصل کرینگے،
خصوصی اقتصادی زونز میں بہترین روزگارکے مواقع حاصل کرینگے۔صدر مملکت کا وژن تھا جسکے تحت انہوں نے 2013ء میں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا تصور پیش کیا تھاجو گوادر کو کاشغر سے منسلک کر خطے میں تجارت، توانائی اور دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں ہموار کرے،
صدر زرداری نے اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران 9 مرتبہ چین کا دورہ کیا تھا، جو کسی بھی پاکستانی صدر کا ریکارڈہے، مسلسل سفارتی رابطوں نے چینی قیادت کا اعتماد جیتااورآخرکاروہ اپنے دورِ صدارت کے اختتام پرحکومت چین کے ساتھ ابتدائی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس نے باضابطہ طور پر سی پیک کی راہ ہموار کی تھی ، گوادر پورٹ کی چین کو منتقلی صدر مملکت کا ایک تاریخی فیصلہ تھا جسکی بدولت پاکستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی تھی ،
صدر مملکت آصف علی زرداری کا دیا ہوا یہی اعتماد بعد ازاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی بنیاد بنا تھا دنیا آج سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ کا فلیگ شپ منصوبہ کہتی ہے
چینی حکمرانوں کی جانب سے صدر زرداری کو شنگھائی میموریل کا دورہ کروانا ایک پیغام تھا کہ کیسے چین کی ترقی کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی کے ابتدائی رہنماؤں نے رکھی تھی
شنگھائی میں واقع تاریخی فرنچ علاقے میں آج سے ایک سو چوبیس سال قبل جولائی 1924ء میں چیئرمین ماؤزے تنگ سمیت تیرہ عظیم راہنماؤں نے کمیونسٹ پارٹی کے پہلے اجلاس کا انعقاد کرکے وہ بیج بویا تھا جس نے آگے چل کر عوامی جمہوریہ چین کی صورت میں ایک قدآورعظیم درخت کی صورت اختیار کرلی،
یہ مقام چیئرمین ماؤزے تنگ کی زیرقیادت چینی قوم کی اس انتھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جسکی بدولت چین آج اکیسویں صدی میں دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی، عسکری، ٹیکنالوجیکل طاقت کے طور پر اپنا لوہا منوا رہا ہے۔
آج دنیا صدرشی چن پنگ کی زیرقیادت جس چین کو معاشی و ٹیکنالوجیکل طاقت کے طور پر جانتی ہے، اسکا بیج چیئرمین ماؤزے تنگ نے بویا تھا، بعد کے چینی حکمرانوں نے انکے مشن کو آگے بڑھایا،

پاک چین دوستی زندہ باد‘‘ محض رسمی نعرہ نہیں بلکہ اس سفارتی وراثت کی یاد دہانی ہے جس میں کلیدی کردار خود صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے گزشتہ دور میں ادا کیا تھا
آج ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاک چین دوستی کو اقتصادی تعاون میں ڈھالنے والے سی پیک منصوبے کے معمار بانی صدر مملکت آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایک خواب دیکھا تھااوراب اپنے دوسرے دور صدارت میں ترقیوں کی نئی بلندیوں پر لیجانے کیلئے پُرعزم ہیں , دریں اثنا صدر پاکستان آصف علی زرداری نے چین کے شہر اُرمچی میں جدید شہری سہولیات اور ڈیجیٹل نظم و نسق کے مرکز اربن آپریشنز اینڈ مینجمنٹ سینٹر کا دورہ کیا جہاں ان کا استقبال اُرمچی کے میئر اور نائب گورنر نے کیا۔
صدر زرداری نے اربن آپریشنز اینڈ مینجمنٹ سینٹر کے دورہ کے دوران ڈیجیٹل پلیٹ فارم میں گہری دلچسپی لی اور منصوبہ سازوں کے وژن کو سراہاتھا، سینٹر 30 سے زائد محکموں کو ڈیجیٹلی جوڑ کر 200 سے زیادہ خدمات فراہم کرتا ہے،سینٹر عوامی صحت، تعلیم، روڈ سیفٹی، یوٹیلٹیز اور ایمرجنسی رسپانس میں ہم آہنگی فراہم کرتا ہے،
صدر آصف علی زرداری نے اس ڈیجیٹل ماڈل میں گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اسے جدید طرز حکمرانی اور منصوبہ بندی کی بہترین مثال قرار دیا۔انہوں نے سینٹر کے وژن، کارکردگی اور بین الاداراتی ہم آہنگی کو سراہا۔

 

صدر آصف زرداری نے کہاتھا کہ پاکستان کو بھی شہری نظم و نسق کے لیے ایسے ماڈلز سے سیکھنا چاہیے تاکہ شہریوں کی زندگی کو بہتر اور سہل بنایا جا سکے۔
پاکستانی صدر نے امید ظاہر کی تھی کہ پاکستانی شہری منصوبہ ساز اس تجربے سے سیکھیں گے۔اس موقع پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا، پاکستان کے سفیر برائے چین اور چین کے سفیر برائے پاکستان بھی موجود تھے۔
علاوہ ازیں 18 ستمبرکو صدر آصف علی زرداری نے چین کے شہر اُرومچی میں سنکیانگ اسلامک انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیاتھا انسٹیٹیوٹ کے صدر مختیری سیفو نے صدر زرداری کو خوش آمدید کہاتھا۔ اس موقع پر آصف زرداری نے انسٹیٹیوٹ میں دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیتے ہوئے خدمات کو سراہاتھا۔
صدر مملکت کو بتایا گیا تھا کہ انسٹیٹیوٹ میں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر عصری مضامین پڑھائے جاتے ہیں، انسٹیٹیوٹ اسلامی کتابوں کے ترجمے، اشاعت اور حج انتظامات میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ادارہ قرآن، حدیث، اسلامی قوانین، عربی، تھیولوجی اور تاریخی، کمپیوٹر کی تعلیم، اخلاقیات اور سائنسز سمیت جنرل مضامین کے کورسز کرواتا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے ادارے کی جانب سے خطے میں بسنے والے مسلمانوں کو دی جانے والی خدمات کو سراہا اور پاکستان اور چین کے درمیان وسیع افہام و تفہیم کیلئے علمی اور ثقافتی تبادلوں کی اہمیت کو اجاگر کیاتھا۔سی پیک کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا گیم جینچر فلیگ شپ منصوبہ کہا جاتا ہے آج چین کے اشتراک سےسی پیک منصوبہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور آنیوالے وقت میں مزید شان و شوکت سے آگے بڑھے گا ، عنقریب دنیا بھر میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت بڑی سطح پربراستہ گوادر تجارتی آمد ورفت ہوا کریگی، پاکستان کے عوام سی پیک کی بدولت موٹر ویز پر سفر کرینگے، توانائی کے منصوبوں سے بجلی حاصل کرینگے، خصوصی اقتصادی زونز میں بہترین روزگارکے مواقع حاصل کرینگے۔ پاکستان اور چین کےدوطرفہ تعلقات پہلے بھی مضبوط تھےلیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری کامیاب دورہ چین سے اورزیادہ مضبوط ہوئے ہیں,جس میں پاکستان اور چین کے درمیان 3 اہم شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں,صدر پاکستان آصف علی زرداری کا وژن تھا جسکے تحت انہوں نے 2013ء میں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا تصور پیش کیا تھاجو گوادر کو کاشغر سے منسلک کر خطے میں تجارت، توانائی اور دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں ہموار کرے،
صدر آصف علی زرداری نے اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران 9 مرتبہ چین کا دورہ کیا تھا، جو کسی بھی پاکستانی صدر کا ریکارڈہے، مسلسل سفارتی رابطوں نے چینی قیادت کا اعتماد جیتااورآخرکاروہ اپنے دورِ صدارت کے اختتام پرحکومت چین کے ساتھ ابتدائی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس نے باضابطہ طور پر سی پیک کی راہ ہموار کی تھی ، گوادر پورٹ کی چین کو منتقلی صدر آصف علی زرداری کا ایک تاریخی فیصلہ تھا جسکی بدولت پاکستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی تھی ، صدر آصف علی زرداری کا دیا ہوا یہی اعتماد بعد ازاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی بنیاد بنا تھا دنیا آج سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ کا فلیگ شپ منصوبہ کہتی ہے چینی حکمرانوں کی جانب سے صدر زرداری کو شنگھائی میموریل کا دورہ کروانا ایک پیغام تھا کہ کیسے چین کی ترقی کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی کے ابتدائی رہنماؤں نے رکھی تھی
پاک چین دوستی زندہ باد‘‘ محض رسمی نعرہ نہیں بلکہ اس سفارتی وراثت کی یاد دہانی ہے جس میں کلیدی کردار خود صدر آصف علی زرداری نے اپنے گزشتہ دور میں ادا کیا تھا آج ہمیں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ پاک چین دوستی کو اقتصادی تعاون میں ڈھالنے والے سی پیک منصوبے کے معمار بانی آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں پاکستانی عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایک خواب دیکھا تھااوراب اپنے دوسرے دور صدارت میں ترقیوں کی نئی بلندیوں پر لیجانے کیلئے پُرعزم ہیں
یاد رکھیں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری 13 ستمبر 2025 کوچین کے 10 روزہ سرکاری دورے پر چینگڈو پہنچے تھےچین کے نائب وزیرِ خارجہ اور نائب گورنر نے چینگڈو ایئر پورٹ پر صدر آصف علی زرداری کا استقبال کیا تھا، پاکستان کے سفیر خالد ہاشمی اور چینی سفیر جیازگن زی ڈونگ بھی اس موقع پر موجود تھے۔
واضح رہےکہ صدر آصف علی زرداری اپنے دورےکے دوران چین کی اعلیٰ قیادت سے پاک-چین تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر بھی بات چیت کی
صدر مملکت نے چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقعوں پر بات کی تا کہ پاکستان، چین آزمودہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید آگے بڑھایا جاسکے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X