اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ قدرتی آفات میں سب سے پہلے عوام کی امید کس پر ٹکتی ہے — ریسکیو 1122۔ پانی میں گھرے ہزاروں افراد کو کشتیوں اور رافٹس کے ذریعے محفوظ مقامات تک پہنچانا، زخمیوں کو ابتدائی امداد فراہم کرنا، یہ سب ریسکیو 1122 کے بہادر اہلکار اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر انجام دیتے ہیں۔ ایرا (ERRA) بھی متاثرہ علاقوں میں بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت میں سرگرم ہے۔ یہ دونوں ادارے آج عوام کے لیے امید اور تحفظ کا دوسرا نام ہیں۔
یہ منصوبہ جب کابینہ میں پیش ہوا تو وزیرِاعظم سمیت پوری کابینہ نے فنڈز کی کمی کے پیش نظر مخالفت کی۔ اس وقت صرف وزیر مملکت برائے صحت نے اس خواب کا ساتھ دیا۔ اگر جنرل پرویز مشرف اور اُن کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز اس منصوبے کے پشت پناہ نہ بنتے، تو شاید یہ ادارہ کبھی وجود میں نہ آتا۔ جنرل مشرف نے اسے “پاکستانی عوام کے لیے تحفہ” قرار دیا اور ابتدائی طور پر اس کا آغاز پنجاب میں کیا گیا، لیکن افسوس کہ دیگر صوبوں تک اس کا دائرہ نہ پھیل سکا۔
ریسکیو 1122 اور ایرا آج بھی وسائل کی شدید کمی، بیوروکریسی کی رکاوٹوں اور حکومتی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ کئی جگہوں پر گاڑیاں ناکارہ پڑی ہیں، آلات پرانے ہیں، اور اہلکار کم وسائل کے باوجود عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر ان اداروں کو فوری اور شایانِ شان وسائل نہ دیے گئے تو یہ زندہ معجزے محدود رہ جائیں گے۔
—
پالیسی تجاویز:
1. قومی وسعت — ریسکیو 1122 کو ہر صوبے اور ضلعی سطح تک فوری طور پر پھیلایا جائے۔
2. علیحدہ و مستقل بجٹ — وفاق اور صوبوں میں الگ بجٹ مختص کیا جائے تاکہ فنڈز کی فراہمی یقینی ہو۔
3. جدید تربیت و آلات — عالمی معیار کے مطابق ریسکیو اکیڈمیز قائم کی جائیں اور جدید سازوسامان فراہم کیا جائے۔
4. شفافیت — فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر آڈٹ اور نگرانی کا نظام بنایا جائے۔
5. اہلکاروں کی قدر افزائی — ریسکیو اہلکاروں کو قومی ہیروز کا درجہ دیا جائے اور ان کے لیے انشورنس و مراعات کا جامع پیکیج فراہم کیا جائے۔
—
اب وقت ہے کہ حکومت خواب دکھانے کے بجائے حقیقت میں قدم اٹھائے۔ ریسکیو 1122 کو قومی ادارہ بنایا جائے، ورنہ آنے والی نسلیں یہ سوال کریں گی:
“کیا پاکستانی عوام کی زندگیاں صرف پنجاب تک محدود تھیں؟”