LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) سیاسی وعسکری قیادت کا دہشتگردی کے خاتمے کیلئےعزم.

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔دہشت گردی ملک کے لیے ناسور بن گئی ہے، اتحاد اور اتفاق سے دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ ممکن ہے ، اتحاد اور اتفاق سے ہی پاکستان کے معاشی اور معاشرتی چیلنجز پر قابو پائیں گے۔ یا د رہے کہ دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول نے قوم کو متحد کیا اورقوم نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ دہشت گردی کے خلاف سب کو متحدہ ہو کر آگے بڑھنا ہے تا کہ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کر سکیں ، افواج پاکستان، پاکستانی شہریوں نے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کےخلاف جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، قربانیوں کی بدولت امن بحال ہوا، معیشت سنھبلی اور ملک کی رونقیں بحال ہوئیں۔یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا لہولہان ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ عہدیداروں تک جام شہادت نوش کررہے ہیں۔ یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات سے پاکستان کی فضا سوگوار ہے۔ ہم سیکورٹی فورسز کے بہادر جوانوں اور غازیوں کو سلام پیش کرتے جو اپنی جانوں پر کھیل کر وطن کا دفاع کررہے ہیں۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر اب ضرورت امر کی ہے کہ اس ناسور کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں ، دہشت گردوں کو نشان ِ عبرت بنایا دیا جائے اور پوری قوت سے ان کو کچل دیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں جولائی کے دوران دہشت گردی کے حملوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا۔اسلام آباد میں واقع تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی سی ایس ایس) کی جانب سے جاری کی گئی تازہ ترین ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جون میں ملک بھر میں دہشت گردی کے کل 78 حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں کم از کم 100 افراد کی اموات ہوئیں، جن میں 53 سیکیورٹی اہلکار اور 39 شہری شہید ہوئے جبکہ 6 شدت پسند بھی مارے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں میں 189 افراد زخمی ہوئے، جن میں 126 سیکیورٹی اہلکار اور 63 شہری شامل ہیں۔ رپورٹ میں جولائی میں ملک بھر میں 82 دہشت گردی کے حملوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کے نتیجے میں 101 افراد کی اموات اور 150 زخمی ہوئے، پی سی ایس ایس کے مطابق دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہونے والوں میں 47 شہری اور 36 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں جبکہ 18 شدت پسند بھی مارے گئے، اس کے علاوہ زخمی ہونے والوں میں 90 شہری، 52 سیکیورٹی اہلکار، 7 شدت پسند اور ایک امن کمیٹی کا رکن شامل تھا۔ مزید کہا گیا کہ ’سیکیورٹی فورسز نے اپنے آپریشنز کو تیز کیا، جس کے دوران 106 شدت پسند ہلاک اور 69 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، تاہم ان آپریشنز کے دوران 7 شہری بھی ہلاک ہوئے۔ملک میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں سب سے کم ماہانہ شہادتیں ہوئیں، جس میں صرف ایک اہلکار شہید ہوا، تاہم جولائی میں دہشتگردوں کے حملوں میں 36 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔مجموعی طور پر دہشت گرد حملوں اور سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں جولائی میں 215 افراد کی اموات ہوئیں، جن میں ہلاک 124 دہشتگرد شامل ہیں، جبکہ 54 شہری اور 37 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ 199 افراد زخمی ہوئے، جن میں 107 شہری، 56 سیکیورٹی اہلکار، 35 دہشتگرد اور ایک امن کمیٹی کا رکن شامل تھا۔دہشتگردوں نے اس ماہ کم از کم 14 افراد کو اغوا کیا۔ تقابلی تجزیے سے پتا چلا کہ جون 2025 کے مقابلے میں دہشتگرد حملوں میں 5 فیصد اضافہ ہوا، تاہم سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتوں میں 32 فیصد کمی، جبکہ سویلین کی اموات میں 21 فیصد اضافہ ہوا، اس کے علاوہ دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں 49 فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا بشمول قبائلی اضلاع دہشتگردی کا مرکز رہا، جہاں ملک بھر میں ہونے والے 82 میں سے 53 حملے ہوئے، اس کے بعد بلوچستان میں 28 حملے ہوئے، جبکہ پنجاب، سندھ، آزاد کشمیر یا اسلام آباد سے دہشتگردی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، تاہم گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں ایک حملہ ہوا۔ نومبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حکومت کے ساتھ سیزفائر معاہدے کے ختم ہونے کے بعد سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، جب کالعدم تنظیم نے حملوں میں اضافے کی دھمکی دی تھی۔ یاد رہے کہ 2018 میں قائم ہونے والی نا اہل حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے حاصل ہونے والے ثمرات کو ضائع کر دیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد روک دیا۔یا د رہے کہ پاکستان کا حصول ہمارے اسلاف کی لاکھوں قربانیوں کے بعد ممکن ہوا، ان قربانیوں کو رائیگان نہیں جانے دیں گے اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت انسداد دہشت گردی اور ریاستی رٹ کے قیام سےمتعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کاجائزہ اجلاس منعقد ہوا، دریں اثنا اسٹیئرنگ کمیٹی کی دہشت گردی کےخلاف وفاقی اور صوبائی سطح پر ہم آہنگی مؤثر بنانے کی ہدایت کردی۔اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ یاد رکھیں کہ گزشتہ روز بری فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا سولہویں قومی ورکشاپ بلوچستان کے شرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نےکہا کہ قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کیلئے بلوچستان کی سماجی و اقتصادی ترقی ناگزیر ہے۔ فیلڈ مارشل نے بھارت کی طرف سے دہشت گردوں اور ان کے آلہ کاروں کی کھلم کھلا سرپرستی کی شدید مذمت کی اور انہیں بلوچستان کے لوگوں کی حب الوطنی کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش قرار دیا۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی ہائبرڈ وار کے مہروں کے طور پر فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کا خصوصی طور پر حوالہ دیتے ہوئے انہوں نےکہا کہ بھارت نے معرکہ حق میں شکست کے بعد اب اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے پراکسی جنگ چھیڑ دی ہے۔ ان پراکسیز کو معرکہ حق کی طرح ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔دریں اثنا اسٹیئرنگ کمیٹی اجلاس کے دوران شہباز شریف نے کہا کہ ریاست پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے پرعزم ہے، دنیا دہشت گردوں کے خلاف ہماری کامیاب کارروائیوں کی معترف ہے۔دہشت گردی کےخلاف جنگ میں کثیرالجہتی حکمت عملی اپنائی ہے اور زمینی آپریشن اور قانون سازی کےذریعے انتہاپسند سوچ کی مؤثرحوصلہ شکنی کی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بہادر سپوتوں کا دہشت گردی کےخلاف جنگ میں کردار قابل تعریف ہے، قوم کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے اہلکاروں کے اہل خانہ پرفخر ہے, دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم، فورسز اور انٹیلی جنس ادارے متحد ہیں۔ بہادر فورسز نے آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب میں دہشت گردوں کا بھرپور مقابلہ کیا، تاریخ ساز معرکہ حق میں دنیا نے پاکستان کو فتح کو تسلیم کیا اور فتنہ الہندوستان اور فتنہ خوارج کے مکمل خاتمے کیلئے جامع حکمت عملی پر کام جاری ہے۔ دہشت گردی سے پاک مضبوط ریاستی ڈھانچہ ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتا ہے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے مختلف دہشت گرد گروہوں، بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رکھا ہے، جو وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کے لیے سنگین خطرہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغانستان کے عبوری حکام سے بھرپور لاجسٹک اور آپریشنل مدد حاصل ہے اور اس کے داعش خراسان، القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی روابط ہیں۔ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ایک آزاد ماحول میں کام کرنے کی اجازت حاصل ہے جہاں وہ جدید اسلحے تک رسائی رکھتے ہیں، جس سے ان کی کارروائیوں کی تباہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے پاس تقریباً 6 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں مختلف گروہوں نے نیٹو معیار کے ہتھیار اور دیگر سامان سرحد پار اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹ کے ذریعے حاصل کیے۔ رکن ممالک نے رپورٹ کیا کہ ان میں سے بعض گروہوں نے پاکستانی فوجی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے، جن میں سبی (بلوچستان) اور ماچھی (پنجاب) شامل ہیں۔ اگرچہ افغان طالبان کی قیادت میں ٹی ٹی پی سے فاصلہ رکھنے پر داخلی بحث جاری ہے، رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی آپریشنل صلاحیتیں اب بھی مضبوط ہیں۔ رپورٹ میں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو ٹی ٹی پی کی جانب سے تربیت دینے اور افغانستان کے جنوب میں مشترکہ کیمپوں کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جنوری 2025 میں ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں دہشت گردوں کو تربیت دی اور انہوں نے بی ایل اے کے ساتھ چار کیمپ شیئر کیے، جن میں والیکوٹ اور شورابک شامل ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان گروہوں کو القاعدہ کی طرف سے نظریاتی اور اسلحہ کی تربیت بھی دی گئی، تاہم کچھ رکن ممالک نے اس اتحاد کو محض ایک غیر جارحانہ معاہدہ قرار دیا، نہ کہ مکمل اتحاد۔ ٹی ٹی پی نے داعش خراسان سے بھی ٹیکٹیکل سطح پر روابط قائم رکھے ہیں، جو ان کی علاقائی کارروائیوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق جنوبی و وسطی ایشیا میں سب سے بڑا موجودہ خطرہ داعش خراسان ہے، جس کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 2 ہزار ہے اور اس گروہ کی قیادت سنااللہ غفاری کر رہا ہے۔ داعش خراسان افغانستان، وسطی ایشیا اور روسی شمالی قفقاز میں سرگرم ہے اور یہ شیعہ برادری، غیر ملکیوں اور طالبان حکام کو نشانہ بناتی ہے۔ انکشاف کیا گیا ہے کہ داعش بچوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کر رہی ہے، شمالی افغانستان اور پاکستان سے متصل علاقوں میں داعش مدرسوں میں بچوں کو شدت پسند نظریات سکھا کر خودکش مشن کے لیے تیار کر رہی ہے، جن کی عمریں تقریباً 14 سال ہیں۔ اگرچہ طالبان کی کارروائیوں سے داعش کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ گروہ اب بھی نسبتاً آزادی سے کام کر رہا ہے اور اس کے جنگجوؤں میں وسطی ایشیائی، خواتین اور دیگر قومیتوں کے افراد بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں ایک بار پھر افغانستان کی طالبان حکومت پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی کافی کم ہو چکی ہے، اس کے وسائل محدود ہو گئے ہیں اور وہ صرف چھ صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل تک محدود ہو گئی ہے۔ رکن ممالک نے اندازہ لگایا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اس وقت علاقائی ممالک کے لیے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔ تاہم، القاعدہ کا عالمی نیٹ ورک اب بھی فعال ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیف العدل، جو اس گروہ کا غیر اعلانیہ سربراہ مانا جاتا ہے، اس نے عراق، شام، لیبیا اور یورپ میں خفیہ سیل دوبارہ متحرک کرنے کی ہدایت دی ہے۔ القاعدہ برصغیر (اے کیو آئی ایس) نے بھی 2025 میں اسامہ محمود کی قیادت میں خود کو منظم کیا ہے اور اس کی خود اعتمادی اور عزائم میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی دہشت گرد گروہوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع بن سکتی ہے، جس سے خطے کی سلامتی مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 22 اپریل کے حملے کے بعد خطے کی صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایک نگرانی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ ان کشیدہ حالات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ تجزیہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کمیٹی کو رواں ہفتے پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی ٹیم کی چھتیسویں رپورٹ میں شامل ہے، جو جنوری تا جون 2025 کی مدت پر مشتمل ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ دہشت گرد گروہ، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو استعمال کر کے نہ صرف اپنا اثر بڑھا سکتے ہیں بلکہ حملوں میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد، مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کئی دنوں تک شدید فائرنگ اور میزائلوں کا تبادلہ ہوا۔ حملے کی ابتدائی ذمے داری دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی مگر بعد میں انکار کر دیا، جس کے بعد اس گروہ کے مبینہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) سے روابط پر بحث چھڑ گئی۔ رپورٹ کے مطابق ایک رکن ملک نے کہا کہ یہ حملہ لشکرِ طیبہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا اور ٹی آر ایف کے ساتھ اس کے تعلقات تھے، جب کہ دوسرے ملک نے ٹی آر ایف کو لشکرِ طیبہ کا ہی دوسرا نام قرار دیا۔ تاہم ایک اور رکن ملک نے ان خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لشکرِ طیبہ اب غیر فعال ہے، اختلاف رائے رکھنے والے ملکوں کے نام رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔ یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز قائم ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کررہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان ایک پڑوس میں رہنے والے دو بھائی ہیں ، دونوں کے دکھ سکھ مشترک ہیں، دونوں کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایک پڑوسی مستحکم اور خوشحال ہوگا تو لازماً دوسرا بھی مضبوط وخوشحال ہوگا لیکن اگر ایک کا گھر جلے گا تو اس سے اٹھنے والے شعلے دوسرے گھر کو بھی لپیٹ میں لیں گے۔ اس لیے افغانستان کو پاکستان کے راستے میں کانٹے بچھانے اور ایسے گروپوں کو اپنے ہاں ٹھکانے دینے کی روش ترک کرنا ہوگی جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔واضح رہے کہ امریکا نے یکم ستمبر 2010 کو ٹی ٹی پی کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا تھا جبکہ اقوام متحدہ نے 29 جولائی 2011 کو اس پر پابندیاں عائد کیں، جن میں اثاثوں کی منجمدی، سفری پابندیاں اور اسلحہ کی فراہمی پر پابندی شامل ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی بنیاد 2007 میں رکھی گئی تھی اور اس نے پاکستان بھر میں متعدد دہشت گرد حملے کیے، حکومتِ پاکستان نے 24 اگست 2008 کو اسے کالعدم قرار دیا، یہ تنظیم نیکٹا کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپس) کے اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے2009 میں 2 ہزار 586 دہشت گرد حملے کیے جن میں 3 ہزار 21 افراد جاں بحق ہوئے، 2014 میں ایک بڑے فوجی آپریشن کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی کی کمانڈ اینڈ کنٹرول صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جس کے بعد ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی، تاہم سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً حملے جاری رہے۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کئی مرتبہ مذاکرات کیے اور 8 نومبر 2022 کو مکمل جنگ بندی کا اعلان کیا، تاہم اسی سال نومبر میں ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کر دی اور پولیس و سیکیورٹی فورسز پر حملے تیز کرنے کا اعلان کیا۔ تنظیم کی بحالی کے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کو ’فتنۃ الخوارج‘ قرار دیا تھا اور تمام اداروں کو ہدایت کی تھی کہ دہشت گرد حملہ آوروں کے لیے خارجی (باغی) کا لفظ استعمال کریں، اسلامی تاریخ میں خوارج ایک شدت پسند فرقہ تھا جو اپنی انتہاپسندانہ تعبیرات کے باعث مسلم حکومتوں سے بغاوت کا مرتکب ہوا۔ واضح رہے کہ عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، جہاں گزشتہ سال کے دوران دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں 45 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تعداد ایک ہزار 81 تک پہنچ گئی۔ گزشتہ برس دسمبر میں پاکستانی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے دہشت گردوں کے خلاف 59 ہزار 775 آپریشن کیے۔ یا د رہے کہ انسدادِ دہشت گردی اور تدارُکِ دہشت گردی میں حائل خلیج نیشنل ایکشن پلان اور مابعد نیشنل کاؤنٹر ٹیررازماتھارٹی (نیکٹا) میں سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے۔2014 میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے کے بعد قائم ہونے والے نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور اسٹریٹیجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے خیال یہ تھا کہ پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط کیا جائے۔ تاہم، بعد کے برسوں میں، اس کے برعکس نیکٹا نے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نظریاتی جائزے پر توجہ مرکوز رکھی اور قانون کے نفاذ اور قانونی خدمات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ چھوڑ دیا۔اگرچہ نیکٹا نظریاتی طور پر دہشت گردی اور اس کی مختلف اشکال سے نمٹنے کے لئے ایک مثالی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے ، لیکن اسے دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گرد تنظیموں کی مرکزِ توجہ میں مسلسل تبدیلی کے باعث شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دہشت گردوں اور مجرموں کی دیگر قسموں کے درمیان فرق کرنا ایک ایسا پہلو ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے نفاذ کے طریقہ کار کو وضع کرنے میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔گھناؤنے جرائم اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ملزمان، دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث گرفتار مجرموں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7، جو دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق ہے، اکثر غیر دہشت گرد مجرموں کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔اس طرح کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں میں اس سے نہ صرف عدالتی کار گزاری پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، بلکہ ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ایسی تحقیقات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ اکثر شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سےبرّیت میں نکلتا ہے یا پھر وہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی حقیقی کامیابی پر اجارہ داری قائم کر لیتی ہیں.یاد رہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف سخت جنگ لڑ رہا ہے۔سیاسی عدم استحکام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت، اس مسئلے میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے انسداد ِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی کامیابیوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔مشترکہ مربوط کارروائیوں کی عدم موجودگی میں پولیس، مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پیرا ملٹری فورس پر حملوں سے دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو با آسانی کام کرنے کا موقع ملتا ہےحقیقت یہ ہے کہ پولیس تدارُکِ دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہےجو پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں ناپیدہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فیصلے پرانے وعدوں کو تازہ کرتے ہیں اور مختلف نتائج کی امید میں ماضی کے طریقوں کو نئے پیرائے میں بیان کرتے ہیں پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی فورسز کیل کانٹے سے لیس ہیں اور انہیں بے پناہ سماجی حمایت بھی حاصل ہے نیشنل ایکشن پلان مطابقِ ضرورت ترامیم اور ساختی اصلاحات پاتا ہے تاہم حکمتِ عملی وضع کرنے کے طریقۂ کار بنانے کے تناظر میں اسے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اِن پُٹ کی کمی کا سامنا ہے۔دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصرکے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا تدارُکِ دہشت گردی کا ایجنڈا ہے
پاکستان کو تدارُکِ دہشت گردی پر اتنی ہی توجہ دینی ہوگی جتنی اس نے انسدادِ دہشت گردی کے طریقوں پر دی تھی کیونکہ اس سے نہ صرف کارروائیوں میں آسانی و تیزی آئے گی بلکہ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لیےباہم کار روائیوں کو بھی مدّرج کیا جا سکے  گا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X