(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس بل کےسوسائٹیز رجسڑیشن ایکٹ 2024 پر دستخط کردئیےہیں اس حوالے سے قومی اسمبلی نے نوٹیفیکیشن جاری کردیاہے۔
واضح رہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف میڈیاقومی اسمبلی سیکرٹریٹ ڈائریکٹر جنرل ظفر سلطان خان کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرلیا گیا ہے صدر آصف زرداری نے سوسائٹیز رجسڑیشن ایکٹ 2024 پر دستخط کردئیے ۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے سوسائٹیز رجسڑیشن ایکٹ 2024 پر دستخط کرنے کے بعد یہ بل قانون بن گیاہے ۔ قانون کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے مطابق ہوگی, جس کے بعد دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانون بن گیا ہےجب کہ جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) نے پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔صدر پاکستان کے دستخط کے بعد قانون کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے مطابق ہوگی۔20 اکتوبر 2024 کو مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا جس میں ذیل میں درج شقیں شامل کی گئیں۔ بل کو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ہے، بل میں متعدد شقیں شامل ہیں۔ بل میں 1860 کے ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔ شق 21۔اے میں کہا گہا ہے کہ وہ دینی مدارس جو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کے نافذ ہونے سے قبل قائم کیے گئے ہیں، اگر رجسٹرڈ نہیں تو انہیں 6 ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ شق بی میں کہا گیا ہے کہ وہ مدارس جو اس بل کے نافذ ہونے کے بعد قائم کیے جائیں گے انہیں ایک سال کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی، بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ بل کی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانی ہوگی۔ بل کی شق 3 کے مطابق کہ ہر مدرسہ کسی آڈیٹر سے اپنے مالی حساب کا آڈٹ کروانے کا پابند ہوگا، آڈٹ کے بعد مدرسہ رپورٹ کی کاپی رجسٹرار کو جمع کرانے کا بھی مجاز ہوگا۔ بل کی شق 4 کے تحت کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔ تاہم مذکورہ شق میں مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے، قران و سنت یا اسلامی فقہ سے متعلق کسی بھی موضوع کے مطالعے کی ممانعت نہیں ہے۔ بل کی شق 5 کے مطابق ہر مدرسہ اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند ہوگا۔ بل کی شق 6 میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کسی بھی مدرسے کو اس وقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔ بل کی شق نمبر 7 کے مطابق ایک بار اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے بعد کسی بھی دینی مدرسے کو کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مذکورہ شق میں دینی مدرسے سے مراد مذہبی ادارہ یا جامعہ دارالعلوم شامل ہے یا کسی بھی دوسرے نام سے پکارے جانے والا ادارہ جس کو دینی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہو۔
اس سے قبل، 12 دسمبر کو جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مدارس بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا عندیہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے حوالے سے یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم اسلام آباد آئیں گے واپس نہیں جائیں گے۔
واضح رہے کہ مدارس رجسٹریشن بل پر 13 دسمبر 2024 کوصدر مملکت آصف زرداری کے اعتراضات سامنے آ گئے تھے۔ آصف زرداری نے اعتراض میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کا حوالہ دیا تھا، انہوں نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا تھا۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔ انہوں نے اعتراض عائد کیا تھاکہ نئی ترامیم کا اطلاق محض اسلام آباد میں ہونے کے حوالے سے کوئی شق بل میں شامل نہیں، مدارس کو بحیثیت سوسائٹی رجسٹر کرانے سے ان کا تعلیم کے علاوہ استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ اعتراض کے مطابق نئے بل کی مختلف شقوں میں میں مدرسے کی تعریف میں تضاد موجودہے، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے ابتدائیہ میں مدرسے کا ذکر موجود نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔ صدر مملکت نے کہا تھا کہ ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہو گا، سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا، نوٹی فکیشن جاری کیا جائے، دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کےلیے بل حکومت نے تیار کیا تھا، ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر الیکشن سے قبل شہباز شریف کی حکومت میں لائے جانے والے مسودے کو منظور کرنے کا مطالبہ کیا، اس کے بعد بل کو دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے بعد بل پر دستخط کیوں روکے گئے، جس مسودے کی تیاری میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں شریک تھی اس پر صدر آصف علی زرداری کے پاس دستخط نہ کرنے کی کیا گنجائش موجود تھی؟کیا بل کے معاملے اور تمام تر مراحل میں ریاستی ادارے شامل نہیں تھے؟ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے ہمارے ان علمائے کرام یا مدارس کی وہ تنظیمیں جو ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کے تحت رجسٹریشن کررہے یا کرچکے اس کا سارا نزلہ ہم پر کیوں گررہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھادیا گیا، جنہوں نے علما کو بلایا وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارا کسی مدرسے، مدرسوں کی تنظیم یا علما سے اختلاف نہیں ہے، جنہوں نے مسودہ تیار کیا ان کے کہنے پر یہ شور برپا کررہے ہیں، الیکشن سے قبل جو مسودہ تیار کیا تھا وہ بھی تو سرکار نے بنایا تھا، ہمیں مدارس کی نئی تنظیموں، وفاق کے بنائے جانے پر ہمیں تحفظات ہیں، کیا مدارس کی ان تنظیموں کو تقسیم کرنے میں اداروں کا ہاتھ نہیں تھا؟ جس نے یہ تقسیم کی تھی کیا وہ باقی تمام معاملات میں مجرم تھا اور اس حوالے سے صحیح تھا، سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ علمائے کرام سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ایک اس ملکی قانون کے ساتھ وابستہ ہونا چاہتے ہیں جس کے تحت ملکی رفاہی، تعلیمی ادارے، این جی اوز رجسٹر ہورہے ہیں، صرف دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے سوال کیوں پیدا کیا جارہا ہے؟ ہم معاہدے کی اہمیت کا انکار نہیں کرتے لیکن ایکٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا، ایکٹ میں آپ ترمیم لائے جس ہم نے قبول کیا، معاہدے کو توڑا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری شکایت صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے، کیا صدر مملکت آئینی ترمیم پر دستخط ہوگئے تو پھر اس بل پر دستخط کیوں روکےگئے؟
ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہمارا ذمہ دار صرف ایوان صدر ہے، کیا صدر مملکت پارلیمان سے منظور کردہ بل پر 2 مرتبہ اعتراض بھیج سکتا ہے؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ ایکٹ بن چکا، صدر نے ایک اعتراض بھیج دیا ، اس کے بعد اگر آئینی مدت کے اندر اس پر دستخط نہیں کیے تو حکومت اسے گزٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرتی ہے، ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے، ہم سمجھتے ہیں ایکٹ پاس ہو چکا، اس کا نوٹیفیکیشن فوری طور پر ہونا چاہیے، ڈائریکٹریٹ بنانا مدارس کے اندر مداخلت ہے، پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ جتنے مدارس میں حکومت نے مداخلت کی وہ مدرسہ نہیں رہا، اس مسئلے پر عدالت سے رجوع کرنا پڑا تو کریں گے۔ علمائے کرام دانش مندی کا مظاہرہ کریں، جنہوں نے یہ بل بنایا وہی آپ کو اکسا رہے ہیں، بل جب منظور ہوا اس وقت حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تھا اب دو ماہ بعد اچانک انہیں کیسے خیال آگیا، اعتراض نہیں تھا لیکن کسی نے اٹھا لیا۔ ہم نے پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ کرنے کا طے کرلیا، وزیراعظم، صدر مملکت اور میاں نوازشریف ایک ہی پیچ پر نظر آرہے ہیں، اگر ان کے درمیان اختلاف ہوتا تو ایوان صدر کو بل پر انہیں کو جواب دینا چاہیے تھا۔ ہمیں تمام مکاتب فکر اور مدارس دینیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جنہیں بلایا گیا تھا ان کی اپنی صفوں سے آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ مدارس ایکٹ پر صدر مملکت کی جانب سے دستخط کیے جانے پر رد عمل دیتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا تھا کہ اللہ کریم کے حضور سجدہ شکر کرتے ہیں اورقوم، کارکنوں اور اتحاد تنظیمات مدارس کے اکابرین کومبارکباد پیش کرتے ہیں۔ جے یو آئی (ف) دینی مدارس کے تحفظ میں ہمیشہ کردار ادا کرتی رہے گی، دینی اداروں کے تحفظ کے لیے علماء کا اتحاد اہم ہے۔ مدارس کے خلاف ہر سازش ناکام بنائیں گے، مدارس کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے جنرل سیکریٹری مولانا راشد سومرو نے لاڑکانہ میں صدر آصف زرداری سے ملاقات کی تھی، اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور جمعیت علمائے اسلام سندھ کے رہنماؤں کے درمیان سیاسی صورت حال کے علاوہ مدارس رجسٹریشن بل پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ آصف علی زرداری نے مدارس بل کے معاملے پر مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات دور کرنے اور معاملہ جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ 16 دسمبر 2024 کو اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے مطالبہ کیا تھا کہ مدارس بل باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے قانون کے مطابق بلاتاخیر اس کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کی سپریم کونسل کا اجلاس جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں قرار داد اتفاق رائے سے منظور ہوئی، قرار داد کا متن ہے کہ سوسائٹیز رجسٹرین ایکٹ کے تحت ایکٹ ترمیمی سوسائٹیز بل مورخہ 20-21 اکتوبر 2024 کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا اور اسی روز قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دستخط سے حتمی منظوری کے لیے ایوان صدر کو ارسال کر دیا گیا تھا۔28 اکتوبر 2024 کو صدر کی جانب سے غلطی کی نشاندہی کی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین و قانون کے تحت اسے قلمی غلطی گرادانتے ہوئے تصیح کردی اور تصیح شدہ ترمیمی بل مورخہ یکم نومبر 2024 کو ایوان صدر ارسال کر دیا۔ اسے صدر نے قبول کرتے ہوئے اس پر زور نہیں دیا، بعد ازاں صدر کی طرف سے 10 دن کے اندر مذکورہ ترمیمی بل پر کوئی اعتراض نہیں ہوا، البتہ 13 نومبر 2024 کو نئے اعتراضات لگادیے گئے جو کہ میعاد گزرنے کی وجہ سے غیر مؤثر تھے، نیز ایکٹ کے بعد دوبارہ اعتراض بھی نہیں لگایا جا سکتا تھا، لہذا یہ بل اب قانونی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ حوالے کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی نظیر موجود ہے، نیز اسپیکر نے اس بات کا اعتراض کیا ان کے نزدیک یہ باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے اور انہیں صرف ایک ہی اعتراض موصول ہوا تھا، ہمارا مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق بلاتاخیر اس کا نوٹی فکیشن جاری کیا جائے تاکہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع ہو۔ان کا کہنا تھا کہ شریعت کا حکم ہے کہ حسن ظن سے کام لیا جائے، جو لوگ اقتدار و اختیار کے مالک ہوتے ہیں، ان سے ہمیشہ معقولیت، انصاف اور توازن کی امید کی جاتی ہے، لہٰذا اس وقت تک ہماری پوری سپریم کونسل کی رائے ہے کہ حکومت وقت ہماری اس قرداد کو معقول گردانتے ہوئے اسے تسلیم کرے گی اور اس پر عملدرآمد کرے گی۔ اگر اس کے برعکس کوئی صورتحال پیش آئی تو ہم بلاتاخیر مل بیٹھیں گے اور اس کے بعد کا لائحہ عمل اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ14 دسمبر 2024 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کے بیان پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ مدارس بل پر صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات میں فیٹف کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی تعلق، بل پر جو اعتراضات لگائے ہیں وہ قانونی اور آئینی ہیں عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ قانونی اور آئینی معاملات پر سیاست کرنا کسی کے حق میں نہیں، مدارس کی رجسٹریشن کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) سے جوڑنا بے سروپا تخیّل اور خیال آرائی کے مترادف ہے۔ قانون سازی کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے، صدر مملکت نے آئینی اعتراضات لگائے ہیں اوران کی تصحیح بھی آئینی طور پرپارلیمان سے ہونی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر غیر ضروری بیان بازی اور تنقید برائے تنقید سے صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہدف بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔یاد رہے کہ 16 دسمبر 2024 ے کو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید نوید قمر نے دعویٰ کیاتھا کہ مدارس بل پر معاملات طے پا چکے ہیں اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ پروگرام ’لائیوود عادل شاہ ز یب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے کیا گیا وعدہ پورا ہوجائے گا۔ مدارس رجسٹریشن کا بل جب پارلیمان سے پاس ہوا اس وقت اتنا وقت نہیں ملا تھا کہ ہر چیز کو بغور دیکھا جاتا، وفاق اور صوبے الگ الگ رجسٹریشن کے معاملے کو حل کر لیں گے۔