(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (بگ ڈیجٹ)25 دسمبر کوبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ پاکستان اور قائد اعظمؒ رہتی دنیا تک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی زندگی میں وہ حکمت ِعملی اور خطوط متعین کردیے تھے جو پاکستان کی بقا، سلامتی اور خوش حالی کی ضمانت دیتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح کی اسلام سے محبت، اس بیان سے صاف ظاہر ہے جو انھوں نے مسلم لیگ کراچی کے 1943کے اجلاس میں دیا:’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے؟ جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ چٹان، لنگر، خدا کی کتاب قرآن کریم ہے،مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد ہو گا، ایک خدا۔ ایک رسولﷺ، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔قائداعظم نے نظریہ پاکستان کے بارے میں کہا تھا،’’یہ زندگی اور موت کا معرکہ ہے۔ مسلمانوں کو اس حقیقت کا پورا احساس ہو چکا ہے اگر ہم شکست کھائیں گے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔ آئیے اس ولندیزی ضرب المثل کو اپنا دستور العمل بنائیں۔’’جب انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں کھوتا۔ اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے لیکن روح مر جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘‘۔ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو انتقال کے 76 سال برس بعد بھی زندہ باد کہلاتا ہے اور کیوں نہ ہو؟ہیکٹر بولا ئیتھو اپنی کتاب ’’جناح دا فاؤنڈر آف پاکستان‘‘میں لکھتے ہیں۔ ’’سیاسی نا کامی اور ذاتی صدمے کے با وجود ان کی ذہنی صلاحتیوںمیں کوئی فرق نہ آیا۔لارڈ جووٹ جو چھ سال برطانیہ کے وزیر قانون رہے، کے الفاظ ہیں،’’جناح قانونی معاملات میں بڑے ہوشیار تھے۔ان کی ان صلاحیتوں کے باعث ہم سب ان کا بڑا احترام کرتے تھے‘‘۔جناح کی شخصیت پر مونیٹگو کہتا ہے کہ ’’جناح استدلال اور فن بحث میں طاق ہیں۔انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق ن کا منصوبہ کلیتاً منظور کیا جائے۔گاندھی نے کہا کہ میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی طاقت مسٹر جناح کو نہیں خرید سکتی۔بی جے پی کے لیڈر جسونت سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں محمدعلی جناح کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے رہنماء تھے۔جن دنوں جناح لندن میں وکالت کرتے تھے ۔ان کے دفتر کے متصل ایک انگریز وکیل مسٹر ٹی ڈبلیو ریمزکا دفتر تھا۔یہ صاحب بھی وہاں وکالت کرتے ہیں۔ انھوں نے جناح کی لندن سے مراجعت کا حال یوں بیان کیا:مجھے وہ دن یاد ہے جب جناح نے میرے دفتر ا ٓ کر مجھے بتایا کہ وہ وطن واپس جا رہے ہیں۔ان کے خوبصورت اور شاندار فرنیچر پر بہت سے وکیلوں کی نظر تھی۔وہ اسے خریدنا چاہتے تھے۔فرنیچر میں مہاگنی کی چند بڑی خوبصورت چیزیں تھیں اور ایک وکیل نے جناح سے کہا۔ وہ انھیں خریدنا چاہتا ہے۔جناح نے جواب دیا۔’’مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔تم یہ سب لے لو۔میں ایک بہت بڑے مقصد کے لیے ہندوستان واپس جا رہا ہوں‘‘۔واپس آتے ہی محمد علیؒ جناح نے ہندوستان کی سیاست میں نئی روح پھونک دی۔ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو متحد کیا ۔ ان کے تحت الشعور میں یہ فکر تھی کہ ہندو ، مسلم اب ایک مملکت میں باہم متحد نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔‘‘سر آغا خان کہتے ہیں کہ چرچل، کرزن، مسولینی اورمہاتما گاندھی ان کے مقابلے میں قائداعظم کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے عظیم ہیں۔ قائداعظمؒ کی سیاسی زندگی کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ ایک بار بھی جیل نہ گئے۔قائداعظمؒ عزم و عمل، دیانت، خطابت، اور خود داری کا مرقع تھے۔کراچی کے ایک پارسی مئیرجمشید نو شیرواں نے قائداعظم کے لیے کہا،’’قائداعظم کو اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم آمیز اور با وقار تھے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری نجات ہمارے مکمل اتحاد، باہمی اتفاق اور نظم وضبط میں ہے۔ ہم امنِ عالم کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کی خارجہ حکمت ِعملی تمام اقوام کے لیے بہت دوستانہ ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت کسی منظّم قوم کے درست فیصلے کی مزاحمت نہیں کرسکتی ہے۔ 17 اگست 1947ء کو آپ نے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام اپنے ایک پیغام میں فرمایا ”ہم پُرامن رہناچاہتے ہیں اور اپنے قریبی ہمسایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم اقوام ِمتحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امنِ عالم اورعالمی خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے“۔
قائد اعظمؒ ہر مشکل مرحلے پر اپنی قوم کاحوصلہ بڑھاتے رہے۔ ان کے اندر عزم اوریک جہتی کی روح پھونکتے رہے کیوں کہ ان کا ایمان تھا کہ ہم جس قدر عظیم قربانیاں دیں گے اسی قدربہترعمل اورکردارکا مظاہرہ کریں گے۔ 24 اکتوبر 1947ء کو آپ نے ایک پیغام میں فرمایا ”آپ سب کے لیے میرا پیغام امید ، حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے۔ “ 30 اکتوبر 1947ء ہی کو ریڈیو پاکستان لاہور سے قائد اعظمؒ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا”ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب اور تاریخ ہے کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کا م، کام اورکام کریں۔ آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔ اپنا نصب العین یعنی ایمان، اتحاد، اور تنظیم کو فراموش نہ کیجیے۔“ 8 نومبر1947ء کو قائداعظمؒ نے ایک بیان میں فرمایا ”میں چاہتا ہوں کہ باوجود ان خطرات کے جو ہمیں درپیش ہیں آ پ سب کامل اتحاد اوریک جہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کاوقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کیے ہوئے ان خطرات کے درمیان سے کامیابی کے ساتھ گزرجائیں گے۔“پاکستان کا قیام اگرچہ برِصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں اور آرزوؤں کے عین مطابق اور ان کی منظم جدوجہد کانتیجہ تھالیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کاسبب قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کرشمہ ساز قیادت تھی۔ پاکستان ایک ان تھک جدوجہد کے بعد انتشار اورافراتفری کے عالم میں قائم ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی شاید ہی کسی اورقوم نے اپنی زندگی کے سفرکا آغاز اس قدر محدود وسائل کے ساتھ اور ایسے سنگین اور ابترحالات میں کیا ہو۔ اسے ورثے میں نہ کوئی مرکزی حکومت ملی تھی نہ ا س کے پاس کوئی دارالحکومت تھا۔ نہ کوئی انتظامی ڈھانچہ تھا، نہ منظم دفاعی فوج۔ خزانہ خالی تھا کیوں کہ ہندوستان نے پاکستان کو زرِ مبادلہ کے بقایاجات کا وہ حصّہ ادا کرنے سے انکارکردیاتھا جو اس کا اپنا حق تھا۔ ان تمام حالات میں پاکستان کا زندہ سلامت رہنا معجزے سے کم نہ تھا۔ تاریخ کے اس انتہائی نازک مرحلے پر پاکستان کو اگر کچھ میسر تھا تو وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت تھی۔ قائد اعظمؒ اس دور میں امورِ مملکت کے نگران تھے اور پاکستان کے عوام کو آپ کی قیادت پر بے انتہا اعتماد تھا۔ یہ قائداعظمؒ کا سیاسی تدبّر تھا کہ آپ نے پاکستانی قوم کے دلوں میں اپنے لیے موجود زبردست عقیدت و محبت کو بروئے کارلاکر ان کو درپیش مشکلات اور مصائب سے نمٹنے کاحوصلہ عطاکیا۔
27 نومبر 1947ء کو آپ نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے ایک بیان میں پاکستانی قوم سے فرمایا ہمیں جو کچھ حاصل کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو مجتمع کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کے کردار کی تعمیرکریں۔فوری اور اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو سائنسی اورفنی تعلیم دیں تاکہ اپنی اقتصادی زندگی تشکیل کرسکیں۔ ہمیں اس بات کااہتمام کرنا ہوگا کہ ہمارے لوگ سائنس، تجارت، کاروبار اور بالخصوص صنعت و حرفت قائم کرنے کی طرف دھیان د یں،لیکن یہ نہ بھولیے کہ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے جو نہایت تیزی سے اس سمت میں جارہی ہے۔ 24 دسمبر1947ء کو قائد اعظمؒ نے اردن کے سفیر متعین پاکستان کی اسنادِ سفارت قبول کرتے ہوئے فرمایا”ہمارے نزدیک اسلام ہماری زندگی اور بقا کا منبع ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری ثقافت اور ماضی کی روایات عالمِ عرب سے منسلک ہیں“۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ ایک امن پسند رہنما تھے قائد اعظم کی شخصیت ہمارے قومی استقلال کا بہترین مظہر ہےاور اس قومی استقلال کے زیر ِاثر جو تعمیری کام پاکستان میں ہوا ہے وہ دراصل قوم کی جانب سے اپنے قائد کی شخصیت کو ایک بہترین خراجِ عقیدت ہے۔ گویا پاکستان کی خدمت قائد اعظمؒ کی قیادت وشخصیت کے اعتراف کے مترادف ہے۔“ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو مسلمانوں کے ایک قائد کی حیثیت سے اپنی ذمے داریوں کا احساس تھا بلکہ آپ بحسن وخوبی ان ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونا بھی جانتے تھے۔ آپ کا ایمان تھا، جیسا کہ آپ نے 3 جولائی 1948 کوکوئٹہ میں ایک تقریرکے دوران فرمایا ”کسی قوم کو بیدارکرنا ایک بڑی عظمت ہے اور اس قوم کو منظم کرنا اس سے بھی بڑی عظمت ہے اور اپنی قوم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردینا سب سے بڑی عظمت ہے۔ برطانوی استعمار کے دور میں بلوچستان کو چیف کمشنر کے صوبے کے طور پر حکومت دی جاتی تھی جس میں پنجاب یا بنگال جیسے مکمل صوبوں کے برابر جمہوری نمائندگی اور مراعات نہیں دی گئی تھیں۔قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور وکیل اور سیاسی رہنما بلوچستان کی اسٹریٹجک اور سیاسی اہمیت کو پہچانا اور ہمیشہ ہندوستانی قانون ساز اسمبلی اور آل انڈیا مسلم لیگ جیسے فورمز پر اس کے غیر مساوی حیثیت کا مسئلہ اٹھایا۔انہوں نے اصلاحات کا مطالبہ کیا جو بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لے آئیں، سیاسی نمائندگی اور انتظامی خودمختاری پر زور دیا۔1930 کی دہائی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 نے محدود اصلاحات متعارف کرائیں لیکن اُس وقت تک بلوچستان میں صوبائی اسمبلی نہیں تھی۔
قائد اعظم نے اس عدم مساوات پر تنقید کی اور خطے کے لیے مزید خودمختاری کا مطالبہ کیا۔1939 میں، جناح کی حوصلہ افزائی پر قاضی محمد عیسیٰ نے بلوچستان مسلم لیگ قائم کی جو پاکستان تحریک کی حمایت میں منظم سیاسی سرگرمیوں کا آغاز تھا۔قائد اعظم نے بااثر قبائلی رہنماؤں جیسے خان آف قلات، لسبیلہ کے نوابوں، مکران اور دیگر کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔محمد علی جناح نے انہیں تحریک پاکستان کی حمایت کرنے پر آمادہ کیا اور اسلامی اقدار اور مقامی خودمختاری کا احترام کرنے والی ریاست میں شمولیت کے فوائد کو اجاگر کیا۔انہوں نے بلوچستان کی مکمل صوبائی حیثیت پر زور دیا اور ایک ایسا فریم ورک تصور کیا جو مساوی مواقع فراہم کرتے ہوئے خطے کے قبائلی نظام اور ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھے۔1947 تک بلوچستان کی شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی نے جناح کی سفارتی کوششوں اور سیاسی وکالت کی بدولت پاکستان میں شمولیت کے حق میں بڑے پیمانے پر ووٹ دیا۔قائد اعظم کی کوششوں نے بلوچستان کے پاکستان میں انضمام کی بنیاد رکھی جو کہ بعد میں ملک کی تاریخ میں مکمل صوبہ بن گیا۔1945 میں قائد اعظم نے مستونگ کے گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے ایک درخت کا پودا لگایا جو اب ایک بڑا درخت بن چکا ہے۔3 جولائی 1943 کو بلوچستان مسلم لیگ کے تیسرے سالانہ اجلاس میں، قاضی محمد عیسیٰ نے صدارت کی اور قائداعظم نے معزز مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی، جو خطے کی پاکستان کے لیے حمایت کا اہم لمحہ تھا۔قائد اعظم نے اپنے آخری دن بلوچستان کی زیارت ریزیڈنسی میں گزارے۔تحریکِ پاکستان کے دوران آپ نے اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور کی طالبات اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مسلم معاشرے میں بہت سی برائیاں اورغیراسلامی رسوم و عقائد باہر سے دَر آئے ہیں اوریہ مسلمان تعلیمی اداروں کافرض ہے کہ وہ بچوں کی ایسے خطوط پرتربیت کریں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔“ پاکستان کے قیام کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 14 اگست 1948ء کو اپنے ایک پیغام میں ایک سال کے دوران پاکستان کی مختلف حوالوں سے ترقی کاجائزہ لیتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”کسی مملکت کی تاریخ میں ایک سال کاعرصہ اس کے کارناموں کا جائزہ لینے اور اس کے مستقبل کااندازہ لگانے کے لیے بہت مختصر ہے، لیکن جس طرح ہم نے زبردست مشکلات پر قابو پایا ہے اورگزشتہ بارہ ماہ میں جوٹھوس ترقی کی ہے اس کی بناپرہم یہ امید کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ہمارا مستقبل شان دارہوگا۔“
قا ئد اعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے ایک نشری پیغام میں فرمایا ”خدا کو منظور نہ تھا کہ قائد اعظمؒ پاکستان کی خدمت کے لیے ایک سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہتے۔ پھر بھی اس قلیل سے عرصے میں آپ نے پاکستان کی بنیادیں کافی مضبوطی کے ساتھ رکھ دی ہیں جن کو آسانی سے ہلایا نہیں جاسکتا۔ اس موقع پر میں آپ کو قائد اعظمؒ کے آخری پیغام کے چند الفاظ یاد دلاؤں گی۔ آپ نے عوام سے فرمایا ”خدا نے آپ کو ہر چیز عطا کی ہے، آپ کے وسائل لامحدود ہیں۔ آپ کی مملکت کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں،اب اس کی تعمیر آپ کی ذمے داری ہے۔ یہ آپ کا کام ہے کہ جس قدر جلد اور جس قدر بہتر ہوسکے آپ اس کی تعمیرکریں۔ بس آگے بڑھیے! خدا آپ کا حامی و مددگار رہے۔“ قائد اعظمؒ کا پیغام بالکل واضح ہے کہ بس عمل کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو معاشی اور صنعتی لحاظ سے مضبوط اور ترقی یافتہ بنائیں تاکہ وہ ہر خطرے کا مقابلہ کرسکے۔“