LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) قائد کا پاکستان ۔ اڑان پاکستان

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) وفاقی حکومت نے ’اُڑان پاکستان‘ کے نام سے ایک منصوبہ لانچ کیا ہے جس میں اقتصادی شرح نمو اور برآمدات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبوں کے لیے بلند اہداف مقرر کیے گئے ہیں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 30 دسمبر 2024کو اس پروگرام کا باقاعدہ افتتاح ایک ایسے موقع پر کیاتھا جب حکومت کی جانب سے ملکی معیشت میں استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے متعلق دعوے کیے گئے ’اُڑان پاکستان‘ کے تحت آئندہ پانچ اور طویل مدت میں سنہ 2035 تک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں چھ فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے اور آئندہ 10 برس یعنی 2035 تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی 374 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے تحت جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلے برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔ واضح رہے پاکستان کی برآمدات کا موجودہ حجم 30 ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ اِسی طرح جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ ای پاکستان کے شعبے میں آئندہ پانچ برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد اور اصول پسندی نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے، قائداعظم نے اپنی زندگی میں کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا, یہ بات انہوں نے ”قائد کا پاکستان ۔ اڑان پاکستان“ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور دیگر بھی موجود تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس طرح کے پروگراموں سے قائد کی زندگی، افکار، ان کے وژن اور اصولوں کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی۔ 1876ء میں وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہونے والے محمد علی جناح کی زندگی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے،

قائداعظم کے تین سنہری اصول اتحاد، تنظیم اور یقین محکم ان کی کامیابی کی بنیاد تھے 1892ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے محض 16 سال کی عمر میں لندن جا کر اپرنٹنس شپ کی اور اس دوران انہوں نے قانون کے شعبے کو بطور کیریئر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جب انسان کسی مقصد کو پختہ عزم کے ساتھ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے, قائداعظم نے بیرسٹر بننے کے لئے لنکنز ان جانے کا فیصلہ کیا، تاریخ دان یہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے لنکنز ان کا انتخاب اس لئے کیا کہ لنکنز ان کی بلڈنگ کے اندر قانون سازوں کی فہرست میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بطور لا گیور درج تھا قائداعظم محمد علی جناح 19 سال کی عمر میں بیرسٹر بنے اور انہیں برصغیر کے کم عمر ترین بیرسٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہواقائداعظم محمد علی جناح کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عزم، یقین اور مسلسل محنت سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے, قائداعظم محمد علی جناح نے بھرپور جدوجہد اور محنت کو اپنا شعار بنایا, ان کی زندگی کا اگلا مرحلہ ایک قانون دان اور سیاستدان کے طور پر دو بنیادی ستونوں اصول اور پیشہ ورانہ صلاحیت پر مشتمل تھا۔کانگریس سے قائداعظم محمد علی جناح کی راہیں اصولی اختلاف کی بنیاد پر جدا ہوئیں، اس وقت کانگریس جو کچھ کرنا چاہ رہی تھی وہ قائداعظم کو قابل قبول نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ قائداعظم کا 1908ء کا فیروز شاہ مہتہ کیس ضرور پڑھیں جو لوکل گورنمنٹ سے متعلق تھا اس مقدمے میں قائداعظم نے نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ فیروز شاہ مہتہ کو ممبئی کارپوریشن میں بحال کروایا جس کے بعد قائداعظم کے پاس مقدمات کی قطار لگ گئی۔ قائداعظم نے دو قومی نظریئے کا اصول کبھی ترک نہیں کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بھارت میں خاتون کا حجاب کھینچنے کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ہندوتوا نظریئے کی انتہاء پسندی کا ثبوت ہے۔ یہ محض ایک خاتون کی بے حرمتی نہیں بلکہ پوری دنیا کی خواتین کی تذلیل ہے۔ ہندوتوا نظریہ آج قائداعظم کے دو قومی نظریئے کو درست ثابت کر رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دو قومی نظریئے پر ہمارا یقین مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور یہی نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد بنا، اسی نظریئے کے باعث آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ ہمیشہ درست رہے گا۔ 1940ء میں آل انڈیا ریڈیو پر منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران قائداعظم محمد علی جناح نے ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگایا جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو نئی امید اور جدوجہد کے لئے مزید حوصلہ ملا۔ قائداعظم نے نہ صرف مسلمانوں کو آزادی دلائی بلکہ تاریخ میں ایک ایسا نقش چھوڑا جو ہمیشہ قائم رہے گا پاکستان ہماری شناخت اور ہمارا فخر ہے، آج دنیا پاکستان کو ایک اہم اور باوقار ملک کے طور پر تسلیم کرتی ہے اور اس کی سافٹ پاور اور دفاعی صلاحیتوں کی معترف ہے ہمیں اس ملک کی قدر کرنی چاہئے، پاکستان ”لا الہ الا اللہ“ کے نعرے پر قائم ہوا اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اسی وطن کی بدولت ہےقائداعظم محمد علی جناح ایک عظیم قائد تھے جنہوں نے پاکستان کی آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد کی 25 دسمبر 1876ء :محمد علی جناحؒ کراچی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام جناحؒ پونجا اور والدہ کا نام مٹھی بائی تھا۔1887ء: گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں کرسچن مشن سکول سے بھی تعلیم حاصل کی۔1892ء: صرف16 برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔ لندن کے لنکنز اِن میں داخلہ لیا اور قانون کی تعلیم شروع کی۔1896ء میں وطن واپس آئے اور بمبئی میں وکالت کا آغاز کیا۔ بہت جلد اپنی قابلیت اور محنت سے نامور وکیل بن گئے۔1906ء: کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔1907ء:بمبئی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور اپنی خطابت سے نمایاں پہچان بنائی۔1913ء: آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور جلد ہی لیگ کے فعال رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔1916ء:لکھنو پیکٹ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت انہیں ’’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ کہا گیا۔1919ء:رولٹ ایکٹ اور جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد انہوں نے کانگریس سے اختلافات کیا۔1920ء:گاندھی کی عدم تعاون تحریک پر شدید اختلاف کیا اور کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔1930ء:علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ اس کے بعد محمد علی جناحؒ نے مسلم لیگ کو منظم کرنے میں بھرپور جدوجہد کی۔1934ء:مستقل طور پر برطانیہ سے واپس آ گئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔1937ء:انتخابات میں مسلم لیگ کی محدود کامیابی کے باوجود قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو متحرک کیا اور انہیں ایک علیحدہ سیاسی قوت بنایا۔23 مارچ 1940ء:لاہور کے منٹو پارک(اقبال پارک) میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی۔ یہ قائداعظمؒ کی قیادت کا نقطہ عروج تھا، مسلم لیگ نے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا۔1945-46 ء :انتخابات میں مسلم لیگ نے شاندار کامیابی حاصل کی اور برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر ابھری۔3 جون 1947ء :تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ 14 اگست 1947ء :پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ اسی دن کراچی میں اسمبلی سے تاریخی خطاب کیا اور ریاستی اصولوں کی وضاحت کی۔ 11 ستمبر 1948ء:قائداعظمؒ طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پا گئے۔ یوں ایک عظیم رہنما اپنی قوم کو آزادی دلا کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔مسلح افواج نے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور قومی استحکام، امن اور ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیاسول اور عسکری قائدین نے ایک خودمختار، جمہوری اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی ریاست کے ان کے وژن کو اجاگر کیا۔عسکری قیادت نے بھی قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق چیف آف ڈیفنس فورسز اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر، نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف اور ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ مسلح افواج ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کے اصولوں پر قائم ایک مضبوط، خودمختار، جمہوری اور خوشحال پاکستان کے قائداعظم کے وژن سے غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کرتی ہیں۔ ۔وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دن قائداعظم کے رہنما اصولوں، جمہوریت، آئین کی بالادستی، سماجی انصاف، مذہبی ہم آہنگی اور مساوات و قانون کی حکمرانی پر مبنی فلاحی ریاست کے وژن سے وابستگی کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کے دائمی اصول ہماری قومی طاقت کی بنیاد اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ قائداعظم ایک دوراندیش رہنما اور عالمی سطح کے مدبر سیاستدان تھے جن کی سیاسی بصیرت، غیر متزلزل عزم اور بے لوث جدوجہد نے تاریخ کا رخ موڑا اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کے قیام کو ممکن بنایا۔انہوں نے پاکستان کے وقار، سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے قائداعظم کی وراثت کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے قائداعظم کی قیادت کی دائمی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قوم سے جمہوری اور جامع اقدار کے ساتھ وابستگی کی تجدید کی اپیل کی۔ قائداعظم کی قیادت، وژن اور اصول آج کے چیلنجز میں بھی قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جمہوریت، انصاف اور مساوات کے اصول ہماری قومی سمت کا مرکز ہیں اور اداروں و فیصلوں کی بنیاد بننے چاہئیں۔صدر نے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کو ترقی، سماجی ہم آہنگی اور قومی اعتماد کے لیے ناگزیر قرار دیا اور نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ قائداعظم کے نظریات کو اپنائیں۔انہوں نے آئندہ سال قائداعظم کے 150ویں یومِ پیدائش کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت 2026 کو یومِ قائداعظم کا سال قرار دے گی تاکہ ان کی زندگی، جدوجہد اور وژن پر بامعنی غور اور آنے والی نسلوں تک ان کے اصول منتقل کیے جا سکیں۔ پاکستان اسلام آباد میں دن کا آغاز 31 توپوں اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔ فجر کے بعد مساجد میں قائداعظم، ملک کے امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ کراچی میں مزارِ قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔14 اگست 1948ء کو قوم کے نام آخری پیغام میں قائداعظمؒ نے کہا تھا آپ کی مملکت کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں‘ اب یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کی تعمیر کریں اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے اس کی تعمیر کریں پاکستان انتشار و افراتفری کے عالم اور ابتر حالات میں قائم ہوا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی شاید ہی کسی اور قوم نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز اس قدر محدود وسائل کے ساتھ اور ایسے سنگین حالات میں کیا ہو۔ اس نوزائیدہ قوم کو ورثے میں نہ کوئی مرکزی حکومت ملی تھی نہ اس کا کوئی دارالحکومت تھا، نہ اس کا کوئی انتظامی ادارہ تھا، نہ کوئی منظم دفاعی فوج۔ اس کے سماجی اور انتظامی وسائل بھی بے حد قلیل تھے۔ ضروری سازوسامان مفقود تھا۔ تقسیم ہند کے خلاف پنجاب میں آگ اور خون، ہلاکت اور بربادی کا جو ہولناک کھیل سکھ مورچے کی خون آشامی نے کھیلا تھا اس کی وجہ سے پنجاب کا وسیع علاقہ ویران کھنڈر بن چکا تھا۔ مواصلاتی نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں ہندو اور سکھ تاجروں اور انتظامی عملے کی مکمل نقل مکانی نے معیشت کو تقریباً اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ خزانہ خالی تھاکیونکہ ہندوستان نے پاکستان کو زر مبادلہ کے بقایا جات کا وہ حصہ دینے سے انکار کر دیا تھا جو اس کا حق تھا۔ ان سب سے بڑھ کر اس نوزائیدہ قوم پراُن آٹھ لاکھ مہاجروں کی کفالت کا بوجھ بھی آن پڑا تھا جو اس طویل اور انتہائی گرم موسم میں وحشت بربریت اور عدم تحفظ کی بنا پر شمالی ہند کے میدانی علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ اگر ان تمام مسائل نے پاکستان کی انتظامی اور اقتصادی کمزوریوں کو ظاہر کر دیا تھا تو نو مبر1947ء میں ریاست جونا گڑھ جس نے بنیادی طور پر پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، پر بھارت کی فوج کشی اور اکتوبر1947 ء سے دسمبر 1948ء کے درمیان انضمام کشمیر کے مسئلہ پر ہونے والی جنگ سے اس نوزائیدہ مملکت کی وہ فوجی کمزوریاں بھی عیاں ہو گئی تھیں جو اس کو ورثے میں ملی تھیں۔ ان تمام حالات میں بھی پاکستان کا زندہ سلامت رہنا ایک معجزے سے کم نہ تھا اور یہ معجزہ صرف ایک فرد واحد کے دست کرشمہ ساز کا نتیجہ تھا اور وہ شخص تھا قائداعظم محمد علی جناح۔ تاریخ کے اس انتہائی نازک مرحلہ پر پاکستان کو ان جیسے کہ شمہ ساز لیڈر کی ہی ضرورت تھی۔ اور اس شخص نے یہ ضرورت نہایت حسن و خوبی سے پوری کی۔ امر واقعہ یہی ہے کہ صرف قائداعظمؒ ہی یہ معجز نما کام کرسکتے تھے کیونکہ بقول لندن ٹائمز ’’وہ ان لوگوں کے لئے، اس قوم کے لئے جو ان کی رہنمائی میں یہاں تک آئی تھی، قائداعظمؒ سے بھی بڑھ کر سر براہ مملکت سے بھی زیادہ سر بلند اور اس اسلامی مملکت کیلئے، جس کی بنیاد خود انہوں نے رکھی تھی، معمار سے بھی کچھ زیادہ ہی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘ تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ بر آمد ہوگا کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے بعد ہی، پیش آنے والے ایسے تباہ کن اور ہولناک بحران میں بھی محض اس لئے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائداعظمؒ امور مملکت کے نگران تھے۔ پاکستان کے عوام کو ان پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے جو زبردست عقیدت و محبت تھی، قائداعظمؒ نے اُس کو بروئے کار لا کر اس قوم کو در پیش مشکلات اور مصائب سے نمٹنے کے لئے حوصلہ عطا کیا، اسے ان تباہیوں اور بربادیوں اور ہولناکیوں کا نئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا۔ آزادی نے ان کے سینوں میں حب الوطنی کے جن جذبات کو بھڑ کا یا تھاان کی حدت و حرارت اور توانائی کا رخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔ بلاشبہ یہ وہ دور تھا جب قائداعظمؒ بہت تھک چکے تھے۔ ان کے قویٰ مضمحل ہو چکے تھے۔ ان کی صحت جواب دے گئی تھی واقعتاً ان کا وجود ایسا ہو کر رہ گیا تھا جیسا کہ ماضی کا چلتا پھرتا سایہ۔ اس علالت، اس کمزوری اور اس شدید تھکن کے باوجود انہوں نے اس نئے ملک اور نئی مملکت کی زندگی کے پہلے انتہائی اہم اور نازک سال میں ذمہ داریوں کا بیشتر بھاری بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھا۔ انہوں نے نئی مملکت کی پالیسیاں وضع کیں، قوم کو در پیش مسائل کی واضح نشاندہی کی اور انہیں حل کرنے کے لئے انتھک کام کیا۔ انہوں نے آئین ساز اسمبلی، سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف ان کے فرائض سے آگاہ کیا بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ قوم نے ان سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔
اس کے باوجود کہ شمالی ہندوستان میں ہونے والے فسادات خاص اشتغال انگیز تھے قائداعظمؒ نے بہر قیمت نظم و نسق برقرار رکھنے اور امن و امان مستحکم کرنے کے لئے مؤثر طریقے اختیار کئے۔ اکتوبر 1947ء میں وہ کچھ عرصے کے لئے لاہور منتقل ہو گئے تھے تاکہ وہاں مہاجرین کے آنے والے مسلسل اور زبردست سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال کا موقع پر قریب سے جائزہ لے سکیں۔ ان لٹے پٹے بے سہارا افراد کی رہائش اور خوراک کا بندوبست کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرسکیں، ان کی آباد کاری کے لئے، ان کونئی قوم کا جز ولا ینفک بنانے کے لئے حکمت عملی تیار کر سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان شکستہ حال بے گھر اور بے در لوگوں میں نئے وطن سے وابستہ والہانہ جذبہ اور احساس زیادہ شدید کر سکیں۔ یہ وہ دور تھا جب براعظم ہندوستان کے طول و عرض میں جذبات انتہائی مشتعل تھے، لیکن انہوں نے کبھی ہوشمندی اور توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ تمام اشتعال انگیزیوں کے باوجود انہوں نے ہمیشہ سنجیدگی، برد باری، متانت اور ثابت قدمی سے کام لیا۔ ان اشتعال انگیزیوں کے پس منظر میں انہوں نے اہالیانِ لاہور کو انتقامی کارروائی سے باز رکھا۔ انہیں صبر و ضبط کی تلقین کی اور اقلیتوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مہاجرین کی آباد کاری کی طرف پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے اقلیتوں کو واضح اور قطعی انداز میں تحفظ کی ضمانت دی۔ ان میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کیا۔ ان کی دلجوئی کی، انہیں دلاسہ دیا۔ ان کے مجروح جذبات و احساسات کو مندمل کرنے کے لئے مسیحائی سے کام لیا۔ ساتھ ہی قائداعظمؒ نے مختلف صوبوں کا دورہ کیا، ان کے مسائل پر توجہ دی۔ ان صوبوں کے عوام کو ایک نئی امید سے ہم کنا ر کیا۔ پاکستان سے وابستگی کے جذبات کو تیز تر کیا اور انہیں نئی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے صوبہ سرحد میں برطانیہ کی فارورڈ پالیسی کو ختم کر دیا اور وزیرستان ایجنسی سے فوجیں ہٹا کر پشتونوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ بھی پاکستان کے جسدِ سیاست کا لازمی حصہ ہیں۔ انہوں نے ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی ایک نئی وزارت قائم کی اور بلوچستان میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ انہوں نے کراچی کی حیثیت کے متنازع مسئلہ کو حل کیا۔ ریاستوں کے پاکستان میں انضمام کو یقینی بنایا۔ بالخصوص قلات کی ریاست کے انضمام کو یقینی بنایا جو اُس وقت کے حالات میں بہت پیچیدہ مسئلہ دکھائی دیتا تھا۔ علاوہ ازیں انہوں نے ماؤنٹ بیٹن سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے کٹھن مذاکرات بھی جاری رکھے اور برطانوی حکومت کے دفترِ دولتِ مشترکہ سے مسلسل مراسلت بھی کرتے رہے۔ ان کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ مشرقی پنجاب میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے دولت مشترکہ کے دفتر کو مجبور کیا جائے اور دونوں مملکتوں میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں تا کہ براعظم ہندوستان میں امن واستحکام پیدا ہو سکے۔

انہوں نے مختلف صوبوں کے گورنروں سے مراسلت کی، وزرا اور سیاستدانوں سے مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ مختلف صوبوں کی صورت حال سے گہرے طور پر آگاہ رہے اور جہاں کہیں ضروری سمجھا متعلقہ افراد کو مشورہ بھی دیا کہ اپنے منصب کی تمام تفصیلات اور ذمہ داریوں پر توجہ دیں۔ کابینہ کے اجلاسوں کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ انہوں نے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے قائداعظمؒ ریلیف فنڈ کمیٹی کے اجلاسوں کی گھنٹوں صدارت بھی کی۔ اس کے باوجود کہ مہلک بیماری ان کی تمام تر توانائیوں کو چاٹ چکی تھی۔ وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لئے ایک تکلیف دہ سفر کر کے کوئٹہ سے کراچی پہنچے کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان کی مالیاتی آزادی کا نشان تھا۔اور ان سب کے علاوہ اُس دور کے گوناگوں اور پیچیدہ مسائل سے نمٹنے اور انتظامیہ کا ایک مؤثر نظام او رادارہ قائم کرنے، مسلح افواج کی تنظیم نو کرنے اور ایک ترقی پسند اور فلاحی مملکت کی ٹھوس بنیادیں ڈالنے کے لئے وہ ان فعال افراد پر مشتمل جماعت کی رہنمائی کرتے رہے، انہیں نئی راہیں دکھاتے اور حوصلہ دلاتے رہے جو انہوں نے اپنے گرد جمع کی تھی۔ قائداعظمؒ نے اپنے مشن کی تکمیل پر کلی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے14 اگست 1948ء کو قوم کے نام پیغام میں کہا تھا ’’آپ کی مملکت کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کی تعمیر کریں اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے اس کی تعمیر کریں۔‘‘ قائد اعظم کی شخصیت کے بارےمیں دنیا کے نامور افراد کی آراءسامنے ہیں
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آبادکے ڈاکٹر دلاور حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کے بنانے میں محمد علی جناح نے جو فورم منتخب کیا وہ لیجسولیٹو اسمبلی ہی تھی۔ ’انہوں نے پارلیمنٹری پالٹیکس وہیں سے شروع کی اور وہیں سے انہوں نے مسلم اور رائٹس کی بات کی اور بعد میں پھر انہوں نے پارٹی پالٹیکس بھی کی۔ ڈاکٹر دلاور برطانیہ کی ہل یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ ممبر نے سینیٹ آف پاکستان پر کتاب بھی تحریر کر رکھی ہے۔ ان کی مہارت پارلیمان، گورننس اور پالیسی ایشوز ہیں۔قائد اعظم پہلی مرتبہ امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کے رکن 1910 میں بنے تھے پاکستان کے بنانے میں ان کے پارلیمنٹیرین کیرئر کا بہت اہم کردار رہا ہے محمد علی جناح جوانی میں یعنی 30 کے پیٹے میں امپیریل لیجیسلیٹو کونسل کے رکن بنے تھے۔ پاکستان کو ایک معتدل ملک بنانے کے سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے قائداعظم کا خطاب اور ان کے 14 نکات پالیسی سازوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کو ناصرف اجاگر کیا بلکہ واضح طور پر کہا کہ پاکستان میں تمام لوگوں کو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔,ایل ایف پش ولیم غیرمنقسم ہندوستان میں مختلف عہدوں پر فائز رہا اپنی کتاب سٹیٹ آف پاکستان میں رقمطراز ہے۔ دوست بضد ہیں کہ جب برطانیہ مشکل میں تھا تو اس نے تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کانگریس کے مقابل مسلم لیگ کی پشت پناہی کی جس میں مسٹر جناح آپ کا آلۂ کار بنا اس تھیوری کے خلاف دلیل یہ ہے کہ جو شخص مسٹر جناح کو جانتا ہے وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ ’’وہ زندگی میں کسی کا آلہ کار نہیں بنا‘‘ آگے چل کر وہ کہتا ہے۔
’’کانگریس کی مکاری کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد اعظم نے تمام معاملات اتنی عقلمندی اور مہارت سے نپٹائے کہ کانگریسی راہنما بھی پاکستان کے قیام اور تقسیم ہند کوبڑی تباہی سے بچنے کی امید سمجھنے لگے۔
‘‘ فیلڈ مارشل سرکلا ئیڈ آرکٹیکٹ کہتا ہے۔’’میں جناح کا بڑا مداح ہوں۔ وہ زبردست شخصیت کے مالک تھے۔ اور دھن کے پکے تھے۔ کوئی چیز ان کی غیر معمولی قوت ارادی کو دبا نہیں سکی۔‘‘
معروف دانشور اور جناح آف پاکستان کے مصنف اسٹیلے والپرٹ کہتے ہیں۔ بلاشبہ جناح ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اور وہ برصغیر کے سب سے بلند قانونی دماغ تھے۔ اگر چہ نہرو بھی قانون دان تھے مگر وہ جناح کے برعکس قانونی باریکیوں کو کم ہی سمجھتے تھے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن:۔ ’’جناح کی شخصیت بڑی نمایاں اور ممتاز تھی۔ چٹان کی طرح محکم سخت اور اسکے ساتھ انتہائی ٹھنڈے دل ودماغ کا انسان اگر وہ کوئی سمجھوتہ کرتا تھا تو جھک کربزدلانہ انداز میں نہیں، مردانہ وار سمجھوتہ کرتا تھا۔‘‘
لارڈ اردن:۔ مسٹر جناح اپنے اردوں اور اپنی رائے میں بڑے سخت ہیں۔ انکے رویے میں کوئی لچک نہیں۔ وہ مسلم قوم کے مخلص را ہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں۔
سر ونسٹن چرچل:۔ جناح ایک بہترین سیاست دان ہیں۔ وہ ذہین فطین ہیں مسلمانوں کے اس راہنما کو میں ساری زندگی کبھی دل سے فراموش نہیں کر سکتا۔
گوپال کرشن گو کھلے:۔ جناح میں سچ کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ فرقہ واریت سے آزاد ہیں۔ ہندوستان کو جب بھی آزادی نصیب ہوگی وہ جناح کی بدولت ہے ایک وقت آئیگا کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے قاصد بنیں گے۔ اس لیے کہ وہ بے شمار صلاحیتوں کے حامل ہیں۔
جواہر لال نہرو:۔ انسان کا قیمتی سے قیمتی سرمایہ یہی ہے کہ وہ اعلیٰ کردار کا مالک ہو اور عمدہ سیرت رکھتا ہو۔ مسٹر جناح کی شخصیت اعلیٰ کردار کا نمونہ تھی۔ جس کے ذریعے زندگی کے ہر معر کے کو سر کیا۔
مسز سروجنی نائیڈو:۔ قسمت کا دھنی انسان جو اچانک غیر متوقع حالت کا شکار ہو گیا تھا محض اپنی جرأت و او العزمی کے بل بوتے پر دنیا کو مسخر کرنے نکل کھڑا ہوا ہے مسٹر جناح کے متعلق خواہ کوئی بھی رائے قائم کی جائے لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ مسٹر جناح کو کسی قیمت پر خرید انہیں جاسکتا۔
ماسٹر تارا سنگھ:۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو ہندؤں کی غلامی سے بچایا۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی۔
مسزوجے لکشمی پنڈت:۔ اگر مسلم لیگ میں ایک سوگا ندھی ہوتے اور ان کے مقابل کانگریس میں ایک جناح ہوتا تو ملک تقسیم نہ ہوتا۔
مسولینی:۔ قائد اعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہوگی کہ وہ ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں جو کہیں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔
مہاتما گاندھی:۔ قائد اعظم بلا شک وشبہ اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ سیرت وکردار کی بلندیوں پر تھے۔ جہاں کوئی لالچ، خوف یا غصہ انہیں اپنے راستے سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ وہ عزم واستقامت کا کوہ گراں تھے۔ نہ امارت نہ ثروت ان کی راہ میں حائل نہ حکومت کا جاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X