LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) بھارتی آبی جارحیت سے پاکستان میں معاشی بحران کا خطرہ

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پانی زندگی ہے اور اسے ہتھیار نہیں بنایا جا سکتا ,بھارت کی آبی جارحیت پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے
سندھ طاس معاہدے کے تحت آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے، جب بھارت اور پاکستان دونوں تحریری طور پر راضی ہوں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا، اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا تھا، اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ بھارت کو ان دریاؤں کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا بہاؤ کو کم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، جبکہ راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھات کے ہاتھ میں دیا گیا تھا پانی تک رسائی سے انکار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ تنازع میں شامل تمام فریق عالمی انسانی حقوق کے پابند ہیں اور انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے، جن کے نتیجے میں انسانی بحران پیدا ہو۔ مزید برآں، پانی کو دباؤ ڈالنے یا جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول اور غیر مستحکم کن اقدام ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ بھارت، جو بدنیتی پر مبنی عزائم رکھتا ہے، اس نے پانی کو ہتھیار بنانے کے ساتھ ساتھ اسے سودے بازی کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کو خبردار کیا ہے کہ بھارت کا سندھ طاس آبی معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا فیصلہ خطرناک اقدام، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور 24 کروڑ سے زائد افراد کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان کی 70% آبادی زراعت سے وابستہ ہے، اور پانی کی کمی سے اجناس، سبزیاں اور برآمدات متاثر ہوں گی پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائے اور عالمی بینک، اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے مدد طلب کرے۔ ساتھ ہی، پاکستان کو اپنی داخلی صفوں کو مضبوط کرکے نئے ڈیمز اور آبی منصوبوں پر کام کرنا چاہیے, نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے دریائے چناب کے بہاؤ میں اچانک اتار چڑھاؤ کے بعد بھارت کی پانی کو ہتھیار بنانے کی پالیسی پر شدید تشویش کا اظہار کیاہے، جس کے باعث پنجاب کے کسانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔اسلام آباد میں سفارتی برادری کے لیے ہنگامی بریفنگ سے خطاب کرتے اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی ایک صورتحال کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں۔پاکستان نے رواں برس اپریل میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل رکھنے کا مشاہدہ کیا، لیکن اب جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھارت کی جانب سے ایسی سنگین خلاف ورزیاں ہیں جو سندھ طاس معاہدے کی روح پر حملہ ہیں۔

رواں سال دو مرتبہ دریائے چناب کے بہاؤ میں غیرمعمولی اور اچانک تبدیلیاں دیکھی گئیں، جو 30 اپریل سے 21 مئی اور 7 دسمبر سے 15 دسمبر کے درمیان ریکارڈ ہوئیں۔ پانی کے بہاؤ میں یہ تبدیلیاں پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ یہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بھارت نے یہ پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت لازم پیشگی اطلاع، ڈیٹا یا معلومات کے تبادلے کے بغیر چھوڑا۔ بھارت کی جانب سے اس منفی اقدام کے باعث ہمارے انڈس واٹر کمشنر نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی ہے، جیسا کہ سندھ طاس معاہدے میں درج ہے۔ بھارت کا حالیہ اقدام واضح طور پر پانی کو ہتھیار بنانے کی مثال ہے، جس کی جانب پاکستان مسلسل عالمی برادری کی توجہ دلاتا آ رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ زرعی سائیکل کے ایک نازک مرحلے پر پانی میں بھارت کی ہیرا پھیری براہِ راست ہمارے شہریوں کی زندگی، روزگار، خوراک اور معاشی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان کو توقع ہے کہ بھارت انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے گا، دریاؤں کے بہاؤ میں کسی بھی یکطرفہ رد و بدل سے گریز کرے گا اور سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح اور متن کے مطابق مکمل عمل کرے گا۔ بھارت کی جانب سے حالیہ خلاف ورزیاں محض ایک مثال ہیں، بھارت مسلسل ایک منظم انداز میں اس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت کی جانب سے کشن گنگا اور رتلے جیسے پن بجلی منصوبوں میں ایسے ڈیزائن شامل کیے گئے ہیں جو معاہدے کی تکنیکی شرائط کی خلاف ورزی ہیں۔ بھارت غیرقانونی ڈیم تعمیر کر رہا ہے اور معاہدے کی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک ناقابلِ تلافی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ ان ڈیموں کے ذریعے بھارت کی پانی ذخیرہ کرنے اور اس میں رد و بدل کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، جو پاکستان کی سلامتی، معیشت اور 24 کروڑ عوام کے روزگار کے لیے خطرہ ہے۔ بھارت نے معاہدے کے تحت لازم معلومات، ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور مشترکہ نگرانی کا عمل بھی روک رکھا ہے، جس کے باعث پاکستان سیلاب اور خشک سالی جیسے خطرات سے دوچار ہو رہا ہے۔ بھارت کا یہ غیرقانونی اور غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل پاکستان میں انسانی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اگر بھارت کو بلا روک ٹوک معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت دی گئی تو یہ ایک انتہائی خطرناک نظیر قائم کرے گا۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تنازعات کے حل کے طریقۂ کار کو بھی سبوتاژ کر رہا ہے، کیونکہ وہ مستقل ثالثی عدالت اور نیوٹرل ایکسپرٹ کی کارروائیوں میں شرکت سے انکار کر رہا ہے۔ بھارت دانستہ طور پر ایک مستحکم اور تسلیم شدہ ثالثی نظام کو نقصان پہنچانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک پابند قانونی دستاویز ہے جس نے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام میں گراں قدر کردار ادا کیا ہے۔ معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت کو خطرے میں ڈالتی ہے اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنجیدہ خدشات پیدا کرتی ہے، اور یاد دلایا کہ پی سی اے نے حال ہی میں معاہدے اور اس کے تنازعاتی نظام کی مسلسل حیثیت کی توثیق کی ہے۔ ان فیصلوں کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ سندھ طاس معاہدہ نافذ العمل ہے اور اس کی دفعات فریقین پر لازم ہیں۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارتی بے لگام رویے کو مسترد کرے۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے خصوصی طریقۂ کار اور مینڈیٹ ہولڈرز کی جانب سے بھارت کو بھیجی گئی اس دستاویز کا بھی حوالہ دیا جس میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھارت کے غیرقانونی اقدامات پر سنگین قانونی، انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا، اور بتایا کہ یہ دستاویز 15 دسمبر کو منظرِ عام پر آئی۔ پاکستان نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 21 جون کو بھارت کے وزیرِ داخلہ نے اعلان کیا کہ بھارت کبھی معاہدہ بحال نہیں کرے گا بلکہ پانی کو ایک نئی نہر کے ذریعے راجستھان منتقل کرے گا۔ اسی رپورٹ کے مطابق 21 اپریل کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو پانی کی فراہمی روکنے یا موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق پہلگام حملے کے بعد بھارت کے اقدامات زندگی اور شخصی سلامتی کے حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پانی کے بہاؤ میں خلل ڈالنے سے کام، روزگار، مناسب معیارِ زندگی، پانی، خوراک اور صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول اور ترقی کے حقوق متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان نے کہا کہ معاہدے کو معطل رکھنے کے اقدام سے لاکھوں افراد کے انسانی حقوق متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کی جانب سے دوطرفہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور بھارت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے۔ بھارتی قیادت کے جارحانہ بیانات کا حوالہ بھی پاکستان نے دیا جو پانی کو ہتھیار بنانے اور پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچانے کے عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان اس صورتحال کو بارہا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے نوٹس میں لا چکاہے پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر کو بھی خط لکھ کر ان سے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔نائب وزیراعظم پاکستان نےسلامتی کونسل کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔پاکستان نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری بھارت پر زور دے گی کہ وہ سندھ طاس معاہدہ مکمل طور پر بحال کرے، پانی کو ہتھیار بنانے کا عمل روکے، بین الاقوامی قانون اور معاہداتی ذمہ داریوں کا احترام کرے اور جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے سے باز رہے۔اقوام متحدہ میں مسلح تنازعات میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ ایسے اقدامات کے رونما ہونے سے پہلے ہی متحرک ہو جائے، جو انسانی بحران کو جنم دے سکتے ہیں یا خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں بھارت کا سندھ طاس آبی معاہدے معطل کرنے کا فیصلہ خطرناک اقدام، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور 24 کروڑ سے زائد افراد کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل مندوب نےاجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون، بشمول انسانی حقوق کے قانون، معاہداتی قانون اور عرفی بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پاکستان بھارت کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے غیر قانونی اعلان کی شدید مذمت کرتا ہے، بھارت سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے قانونی فرائض کی مکمل پاسداری کرے، اور پاکستان کے لیے زندگی کی علامت ان دریاؤں کا بہاؤ روکنے، موڑنے یا محدود کرنے سے باز رہے، ہم ایسے کسی بھی اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے مندوب نے بھارتی قیادت کے خطرناک بیانات کی طرف بھی توجہ دلائی اور کہا کہ ’پاکستان کے عوام کو بھوکا مارنے‘ جیسے اعلانات بھارتی قیادت کی انتہا درجے کی خطرناک اور بگڑی ہوئی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں

پاکستان نے اقوام متحدہ کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف عالمی اتفاق رائے کی اپیل کی۔ مندوب نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ان معاملات پر قریب سے نظر رکھے اور جہاں ضروری ہو، بروقت اقدامات کرے۔ سلامتی کونسل کو ایسے حالات کی نشاندہی کرنی چاہیے، جہاں بین الاقوامی قانون، بشمول عالمی انسانی قانون (آئی ایچ ایل) کی خلاف ورزیاں امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہوں، یا انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہوں۔ پاکستان کے بیان میں 3 اہم نکات کو اجاگر کیا گیا جن میں قانونی پابندیاں، جنگ میں شامل فریقوں کی ذمہ داریاں، پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی مذمت شامل ہیں۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق بشمول بین الاقوامی انسانی قانون، پانی کے وسائل اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی ممانعت کرتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں بھارت کی جانب سے معاہداتی نظام کو بائی پاس کرنے اور عالمی ثالثوں، بالخصوص عالمی بینک کے کردار کو غیر مؤثر بنانے کی کوششوں پر شدید تشویش پائی جا رہی ہے، عالمی بینک 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی کا ضامن رہا ہے۔ پاکستانی حکام ان بھارتی اقدامات کو ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں، جس کا مقصد تعاون پر مبنی ڈھانچے کو کمزور کرنا اور غیر عسکری ذرائع سے اسلام آباد پر دباؤ ڈالنا ہے۔ نائب مستقل مندوب نے عالمی سطح پر تنازعات کے دوران پانی کے وسائل کے تحفظ کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ پانی کو سیاسی یا عسکری ہتھیار بنانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف واضح، اصولی اور متحد موقف اپنانا ہوگا۔ ایک الگ اجلاس میں، بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان اقوام متحدہ میں شدید زبانی جھڑپ ہوئی، جب پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے مئی 2025جھڑپ کے دوران بھارتی فوج پر شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایاتھا, یہ تبادلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلح تنازعات میں شہریوں کے تحفظ پر ہونے والی بحث کے دوران پیش آیاتھا۔ پاکستانی مندوب نے بھارتی سفیر پر ’گمراہ کن معلومات، موضوع سے ہٹنے اور انکار‘ کا سہارا لینے کا الزام عائد کیاتھا اور کہاتھا کہ بھارت خود دہشت گردی میں ملوث ہے۔مندوب نے کہاتھا کہ کوئی بھی چیز حقائق کو چھپا نہیں سکتی، بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے گناہ شہریوں کو کھلے عام قتل کرتا ہے، پاکستان پر کھلی جارحیت کر کے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور قتل کی کارروائیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ بھارت دریاؤں کا بہاؤ روکنے جیسے انتہائی اقدام پر بھی اتر آیا ہے، یہ دریا پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ پاکستان اور عالمی برادری نے پہلگام واقعے کی مذمت کی تھی، اگر بھارت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں، تو اسے واقعے کی قابل اعتبار، غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات پر آمادگی ظاہر کرنی چاہیے تھی۔اس کے برعکس بھارت کشمیری عوام کی جائز آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لیے ریاستی دہشت گردی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔رواں سال ماہ مئی کے اوائل میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کی، بے گناہ شہریوں پر بلااشتعال حملے کیے، جن میں 40 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں۔پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششیں اور قربانیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، اور پاکستان اس لعنت کے خلاف اپنی وابستگی پر قائم ہے۔ اس کے برعکس بھارت فعال طور پر دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت اور حمایت کر رہا ہے، جن میں ’فتنہ الخوارج‘ جو کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان لبریشن آرمی اور اس کی مجید بریگیڈ پر شامل ہیں، جو پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔اگر بھارت واقعی امن، سلامتی اور بہتر ہمسائیگی تعلقات کا خواہاں ہے، تو اسے ریاستی دہشت گردی ختم کرنی چاہیے، کشمیریوں پر ظلم بند کرنا چاہیے، بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے منشور اور دوطرفہ معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے بامقصد بات چیت کرنی چاہیے۔یاد رہے کہ 6 مئی 2025 کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بندہ کمرہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدہ صورت حال پر مشاورت کی تھی اس دوران علاقائی سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال، بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیاتھا یہ اجلاس پاکستان کی درخواست پر بھارت کے حالیہ یکطرفہ اقدامات اور اشتعال انگیز عوامی بیانات کے پیش نظر طلب کیا گیا تھا، سلامتی کونسل نے اس بات پر زور دیاتھا کہ جموں و کشمیر کا دیرینہ تنازع علاقائی عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے، اور اسے سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے، کونسل کے کئی ارکان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور ذمہ داریوں کے احترام پر زور دیا تھا۔یاد رہے کہ بھارت نے ماضی میں ان واقعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کو کمزور اور غیر قانونی قرار دیا تھا، اپنی ریاستی دہشتگردی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو چھپایا تھا۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی، پاکستان اور دیگر جگہوں پر ٹارگٹ کلنگ میں بھارت کے ملوث ہونے پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی سلامتی کونسل کے ارکان کو بھارت کی جانب سے 1960 کے تاریخی سندھ طاس معاہدے کو روکنے کے یکطرفہ فیصلے کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیاتھا، پاکستان نے متنبہ کیا تھا کہ اس کے حصے کے قدرتی بہاؤ کو روکنے یا موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کریں گے۔واضح رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام میں مقامی سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے بے جا الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور سفارتی عملے کو 30 اپریل 2025 تک بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی تھی، اس کے علاوہ بھی مودی سرکار نے پاکستان کے حوالے سے کئی جارحانہ فیصلے کیے، جن میں پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی بھی شامل ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے بہترین سفارتی حکمت عملی کو اختیار کیا، اور بھارت کے سفارتی عملے کو بھی 30 افراد تک محدود کر دیا گیا تھا، قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا تھا کہ پانی پاکستان کی لائف لائن ہے، پانی بند کیا گیا تو پاکستان اسے جنگ تصور کرے گا۔سندھ طاس معاہدہ دوران جنگ بھی کبھی معطل نہیں ہوا، معاہدے کی شق ہے کہ بھارت اس معاہدے کو یک طرفہ معطل نہیں کر سکتا۔واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کیاسندھ طاس معاہدہ ایک عالمی معاہدہ ہے، کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر نہ اس معاہدے کو معطل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس سے دستبردار ہوسکتا ہے،

یاد رہے کہ پاکستان نے جمعرات کو دریائے چناب کے بہاؤ میں تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر وضاحت کے لیے بھارت کو خط لکھ دیا گیا ہے پریس بریفنگ میں دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے دریائے چناب کے بہاؤ میں ’اچانک تبدیلی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ یہ معاملہ گزشتہ ایک ہفتے سے خبروں میں ہے۔ متعدد میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا ہے کہ بھارت نے دریائے چناب میں پانی چھوڑا ہے۔ ترجمان نے کہاتھاکہ ’پاکستان ان تبدیلیوں کو انتہائی تشویش اور سنجیدگی سے دیکھتا ہے، یہ بھارت کی جانب سے بغیر پیشگی اطلاع دریائے چناب میں یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں بتایا تھاکہ ’ہمارے انڈس واٹر کمشنر نے سندھ طاس معاہدے میں درج طریقۂ کار کے مطابق بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی ہے بھارت کی جانب سے دریا کے بہاؤ میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ، خاص طور پر زرعی سائیکل کے ایک نازک مرحلے پر، براہِ راست ہمارے شہریوں کی زندگی، روزگار، غذائی تحفظ اور معاشی سلامتی کے لیے خطرہ ہے انہوں نے مطالبہ کیا تھاکہ ہم بھارت پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے، دریا کے بہاؤ میں کسی بھی یکطرفہ مداخلت سے باز رہے اور سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو لفظی اور عملی طور پر پورا کرے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک ’پابند بین الاقوامی معاہدہ‘ ہے جو ’خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کا ذریعہ‘ رہا ہے۔ واضح رہے کہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت مغرب کی جانب بہنے والے تین دریا سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کو دیے گئے، جبکہ بھارت کو سندھ طاس کے تین مشرقی دریا ملے۔ معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدات کے تقدس اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے خطرہ ہے اور اس سے علاقائی امن، حسنِ ہمسائیگی کے اصولوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے ضوابط کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ بین الاقوامی برادری کو بھارت کی جانب سے ایک دوطرفہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے، بین الاقوامی قانون، تسلیم شدہ اصولوں اور اپنی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات اور مسائل کے پُرامن حل کے لیے پرعزم ہے، تاہم ہم اپنے عوام کے وجودی آبی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔پاکستان نے 1969 کے ویانا کنونشن برائے قانونِ معاہدات کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی کارروائی پر غور کرنے کا بھی کہا تھا۔بعد ازاں جون میں مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) جو بین الاقوامی تنازعات کے لیے فریم ورک فراہم کرتی ہے،پی سی اے نے دائرۂ اختیار سے متعلق ایک ضمنی فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیاتھا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا۔ یہ ضمنی فیصلہ 2023 کے اس مقدمے میں جاری کیا گیا تھاجو پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو دیے گئے دریاؤں پر بھارتی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن کے خلاف پی سی اے میں دائر کیا تھا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X