LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) وزیر اعظم پاکستان خلیجی ممالک سےتجارت بڑھانے کیلئے پر عزم۔

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان کا سال 2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بننے کا ہدف ایسے ٹھوس اقدامات پر منحصر ہے جو دوطرفہ تجارت کے انتہائی کم حجم کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوں۔ پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سالانہ حجم تین ارب ڈالر کی مالیت کا ہے۔شہباز شریف نے پاکستان میں معاشی بحالی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے اچھا کام کیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں جی سی سی معیشتوں کے ساتھ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی پارٹنرشپ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے اس سلسلے کو برقرار رکھے گی۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا چیلنجز سے بھرپور دورہے جس میں پالیسی سازی سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔ اس دوران شہباز شریف نے سٹریٹیجک قدم اٹھاتے ہوئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبے میں تعلقات کو مزید گہرا کیا۔ خلیجی تعاون کونسل کی رکن ان معیشتوں نے بھی پاکستان کی معاشی بحالی اور استحکام میں اپنا حصہ ڈالنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو اولین ترجیح دی ہے۔ ان تاریخی تعلقات کی بنیاد مذہب اور ثقافت سے جڑا مشترکہ تعلق، باہمی طور پر مفید معاشی ضروریات کے علاوہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے مشترکہ مفاد پر ہے۔
خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انہی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت خلیجی ریاستوں میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت کا عمل پاکستان کے لیے بے تہاشا مواقع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کے ذریعے جی سی سی کو ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے جبکہ جی سی ریاستوں میں ہنرمند افراد قوت بھجوانے اور تجارتی اشیا کی برآمد کے لیے بھی یہ ایک اہم موقع ہے۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جی سی سی معیشتوں کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کی اہمیت سے واقف ہیں اور انہیں علم ہے کہ ملک کی بحران زدہ معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف گامزن کرنے میں یہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔اس حوالے سے لیے جانے والے اہم اقدامات میں ’سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل‘ کا قیام شامل ہے جس کو زراعت، معدینیات و مائننگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں جی سی سی ممالک سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔اس اہم اقدام کے ساتھ ساتھ پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ (خود مختار دولت کا فنڈ) قائم کرنے کے علاوہ عرب امارات کے ساتھ جامع اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان جی سی سی کے کلیدی معاشی کردار پر اتفاق کو اس ٹھوس پیش رفت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جو موجودہ دور میں معاشی، سیاسی، سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے فرنٹ پر ہوئی ہے۔ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کو خاطر خواہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اتحادی رہنماؤں، سکیورٹی سٹیبلشمنٹ اور اہم غیرملکی شراکت داروں کے ساتھ مل انہوں نے کامیابی کے ساتھ اس پیچیدہ صورت حال کا مقابلہ کیا اس کے نتیجے میں پاکستان مستحکم ہوگیا جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے بعد سے سیاسی بحران میں قدرے کمی آئی ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تین ارب ڈالر کا نیا سٹاف لیول معاہدہ طے پایا ہے جو نو ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔ اگرچہ دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے لیکن اب اس خطرے سے نمٹنے کے لیے بہتر سکیورٹی ڈھانچہ موجود ہے۔ اور پاک چین قتصادی راہداری پر کام بھی بحال ہو گیا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات واپس ٹریک پر آ گئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سول اور فوجی اشتراک اب اقتصادی میدان تک پھیل گیا ہے جس سے جی سی سی معیشتوں کے ساتھ پاکستان کی معاشی شراکت داری میں بھی مزید تیزی آئی ہے سال 2019 سے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو آسان شرائط پر کئی اربوں ڈالر کے قرضے دیے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جا سکے۔ یہ قرضے دراصل آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرنے کے لیے دیے گئے تھے جن میں توسیع ہو گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدہ سعودی عرب کی جانب سے دو ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کروانے کے بعد ہی ممکن ہو سکا ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اہم اجلاس آج منعقد ہو گا جس میں پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری پر غور کیا جائے گا۔ یہ اجلاس ادارے کے جاری کردہ باضابطہ شیڈول کے مطابق ہو رہا ہے۔ یہ اس پیش رفت تقریباً دو ماہ بعد سامنے آئی ہے جب آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان سات ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) اور 1.4 ارب ڈالر کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی (آر ایس ایف ) کی دوسری اور پہلی جائزہ رپورٹس پر سٹاف لیول ایگریمنٹ طے پایا تھا۔ اس معاہدے سے قبل آئی ایم ایف کی مشن سربراہ ایوا پیٹرووا نے 24 ستمبر سے آٹھ اکتوبر تک کراچی، اسلام آباد اور واشنگٹن میں پاکستانی حکام سے تفصیلی مذاکرات کیے تھے۔ سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق ’آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ آٹھ دسمبر کو پاکستان کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کی درخواست پر غور کرے گا، جو ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی اور ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی پروگرامز کے تحت مانگی گئی ہے۔‘ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکجز پاکستان کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ملک طویل عرصے سے سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر دو طرفہ ڈونرز اور عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک جیسے اداروں سے مالی معاونت پر انحصار کرتا رہا ہے۔ پاکستان کئی برسوں سے جاری میکرو اکنامک بحران کا سامنا کر رہا ہے جس نے زرمبادلہ کے ذخائر، مالی وسائل اور ادائیگیوں کے توازن پر شدید دباؤ ڈال رکھا ہے تاہم 2022 کے بعد اسلام آباد نے کچھ کامیابیاں بھی درج کیں، جن میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور افراط زر میں نمایاں کمی شامل ہیں آئی ایم ایف کی 1.2 ارب ڈالر کی قسط پاکستان کی قریب المدت بیرونی ادائیگیوں کی پوزیشن کو مستحکم کرے گی اور سرکاری مالیاتی بہاؤ کے نئے دروازے کھولے گی۔
پاکستان 2023 کے وسط میں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا جب ملکی زرمبادلہ ذخائر تین ہفتوں کی درآمدات سے بھی کم رہ گئے تھے، مئی میں مہنگائی 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی اور آئی ایم ایف پروگرام کی تاخیر کے باعث بیرونی فنڈنگ تقریباً رک چکی تھی۔ ایندھن کی قلت، درآمدی پابندیوں، روپے کی تیز گراوٹ اور کریڈٹ ریٹنگ میں تنزلی نے صورت حال مزید خراب کر دی تھی۔ بحران میں حقیقی کمی اس وقت آئی جب پاکستان نے جون 2023 میں آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر آخری لمحات میں معاہدہ کر لیا، جس نے ہنگامی مالی معاونت فراہم کی اور فوری ڈیفالٹ کا خطرہ ٹال دیا۔ اب بھی آئی ایم ایف کے بورڈ کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری پاکستان کے لیے آئندہ چند ماہ میں ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل ایک عملی راستہ فراہم کرتی ہے۔ کونسل کے قیام سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور عسکری رہنما غیرملکی قرضوں پر انحصار کرنے کے خطرے سے باخوبی واقف ہیں۔ اور وہ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کر کہ ایک ٹھوس معاشی بنیاد رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
پاکستان ابھی تک غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے تیز رفتار ون ونڈو آپریشن شروع نہیں کر سکا۔ یہ دراصل غیرضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں جو دراصل سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے علاوہ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔ حکومتوں کے بار بار تبدیل ہونے کا باعث معاشی پالیسیوں کو تسلسل سے چلانے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔
اسی طرح سے متحدہ عرب امارات اور قطر نے نو ارب ڈالر کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن مشکل طریقہ کار اور سٹرکچرل رکاوٹیں ان وعدوں کے پورا ہونے میں رکاوٹ بنی ہوئے ہیں۔بحرین ان عرب ممالک میں شامل ہے جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد روزگار کے لیے موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بحرین کے مختلف حصوں میں ایک لاکھ 10 ہزار سے زیادہ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ مصر، اردن، مراکش اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی طرح بحرین بھی ان مسلمان ملکوں میں شامل ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ سرکاری سفارتی تعلقات ہیں۔ مصر اور اردن پہلے عرب ممالک تھے جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے قائم کیے، اس کے بعد متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2020 میں ابراہیم معاہدے کے ذریعے تل ابیب سے تعلقات کو استوار کیا۔ وزیراعظم نے خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ معاہدے کیے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے (فری ٹریڈ ایگریمنٹ) جی سی سی کے رکن ممالک خصوصاً بحرین کے ساتھ تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گاخلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سیکریٹری جنرل جاسم محمد البديوی کا کہنا ہے کہ تنظیم اور پاکستان کے مابین آزاد تجارت کا ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کا مقصد تجارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ جی سی سی کے سیکریٹری جنرل جاسم محمد البديوی اور پاکستانی وزیر برائے تجارت گوہر اعجاز نے معاہدے پر دستخط کیے۔
جی سی سی کی جانب س جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق تنظیم کے سیکریٹری جنرل جاسم محمد البديوی نے کہا کہ ’پاکستان کے ساتھ ابتدائی معاہدہ ممالک اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط تجارتی اور معاشی تعاون کی نشاندہی کرتا ہے یہ تاریخی معاہدہ ممالک کے درمیان مضبوط معاشی تعلقات اور معاشی ترقی کا عکاس ہے جس سے فریقین کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کے لیے اہم ذرائع ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انہی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔ اس وقت تقریباً 40 لاکھ پاکستانی ورکرز جی سی سی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کا سال 2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بننے کا ہدف ایسے ٹھوس اقدامات پر منحصر ہے جو دوطرفہ تجارت کے انتہائی کم حجم کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوں۔ پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سالانہ حجم تین ارب ڈالر کی مالیت کا ہے۔ جی سی سی ممالک میں سعودی عرب، کویت، بحرین، عمان، قطر، متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی مجموعی قومی پیداوار 1.6 ٹریلین ڈالر ہے جب کہ کونسل میں شامل ممالک کی کل آبادی 57 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان نے ہمیشہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو اولین ترجیح دی ہے۔ ان تعلقات کی بنیادی وجہ نہ صرف مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی ہے بلکہ معاشی ضروریات کے علاوہ علاقائی اور عالمی امن کی مشترکہ خواہش بھی ہے۔ آئی ٹی اور سروسز کے شعبے میں ہنر مند پاکستانی افراد خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اس تنظیم نے اکتوبر 2023 میں پاکستان کے ساتھ پہلا آزاد تجارتی معاہدہ کیا تھا۔ بعدازاں مئی 2024 میں خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان اور خلیجیی ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت آخری مراحل میں ہے۔وزیراعظم شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر بحرین کے دوران ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ سے ملاقات میں دو طرفہ تجارت کو تین سالوں میں ایک ارب ڈالر تک لے جانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت مشترکہ منصوبوں، سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی میں سہولت کاری اور باہمی طور پر فائدہ مند ترقی کے سفر میں ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔وزیراعظم نے بحرین کی قیادت اور تاجروں سے اپیل کی کہ وہ آگے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں اور خصوصاً پاکستانی معیشت کے صنعتی، زرعی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فِن ٹیک کے شعبوں کو مزید فعال اور متحرک بنائیں۔ پاکستان اور بحرین کے درمیان دہائیوں پر مبنی تعلقات ثقافت، مذہب، باہمی احترام اور اعتماد پر قائم ہیں۔ ’ہمارے درمیان طویل عرصے سے سٹریٹجک تعاون بھی موجود ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلقات کو مزید متحرک معاشی تعاون میں تبدیل کیا جائے وزیراعظم نے بحرین کی قیادت خصوصاً بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ، وزیراعظم اور ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ، نائب وزیراعظم خالد بن عبداللہ آل خلیفہ اور وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللطیف بن رشید الزیانی کا پاکستان کے ساتھ ان کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان سے ہونے والی ملاقاتیں نہایت مفید اور نتیجہ خیز رہیں۔

شہباز شریف نے بحرین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ وہاں رہنے والی متحرک پاکستانی برادری اپنی محنت، عزم اور پاکستان و بحرین کی ترقی کے لیے بے لوث خدمات پر سلام کی مستحق ہے بحرین میں مقیم پاکستانیوں نے گذشتہ مالی سال کے دوران 484 ملین ڈالر کے زرِمبادلہ پاکستان بھیجے، جو نہایت قابلِ تعریف ہے اس سے قبل بحرین کے وزیر خزانہ و قومی معیشت شیخ سلمان بن خلیفہ آل خلیفہ نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کا بحرین کے دورے پر شکریہ ادا کیا۔وزیر نے بحرین کی ترقی اور خوشحالی میں پاکستانی کمیونٹی اور مالیاتی اداروں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پورا خطہ اس وقت ایک بڑی نسل در نسل تبدیلی سے گزر رہا ہے اور جدت، پائیداری اور ٹیکنالوجیکل ایکسیلنس کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔جدید اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں بحرین کے کلیدی اور تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھانے والے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر نے پاکستانی کاروباری اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے مصنوعی ذہانت، سائبر سکیورٹی، دھاتوں، آٹو موبائل پرزہ جات، الیکٹرانکس اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز سمیت متعدد شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے مواقع پیش کیے۔وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا، خاص طور پر قومی لاجسٹک سیل کے ذریعے روس کو ترسیل کی سہولت فراہم کرنا ایک اہم کامیابی ہے۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے دور ہ کے دوران بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ سے ملاقات میں دو طرفہ تجارت کو تین سالوں میں ایک ارب ڈالر تک لے جانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف بحرین پہنچے جہاں منامہ میں ولی عہد، بحرینی افواج کے نائب سپریم کمانڈر اور وزیراعظم شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ نے دیگر شخصیات کے ہمراہ پاکستانی وفد کا استقبال کیا اس کے بعد وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو منامہ میں قصر القضیبیہ پہنچنے پر گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ سے ملاقات ہوئی جس میں شہباز شریف نے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں بحرین کی قیادت کو سراہا۔ ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے دوطرفہ تجارت جو اس وقت 550 ملین ڈالر سے زیادہ ہے کو آئندہ تین سالوں میں ایک ارب ڈالر تک لے جانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس ہدف کا حصول پاکستان-جی سی سی فری ٹریڈ ایگریمنٹ، جو کہ اپنے حتمی مراحل میں ہے اور حال ہی میں ویزا شرائط میں نرمی جیسے اقدامات کے ذریعے کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے لیے بحرین کی حمایت کو تسلیم کیا اور مزید ہنر مند افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کی تصدیق کی متحدہ عرب امارات اور قطر نے نو ارب ڈالر کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن مشکل طریقہ کار اور سٹرکچرل رکاوٹیں ان وعدوں کے پورا ہونے میں رکاوٹ بنی ہوئے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے گا۔ سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کا مقصد ٹیکنوکریٹک مشاورت اور انسٹی ٹیوشنل سہولیات کے ذریعے ون ونڈو سروس فراہم کرنا ہے۔ کونسل کی ایپکس کمیٹی میں آرمی چیف جبکہ ایگزیکٹو اور عمل درآمد کمیٹی میں اعلٰی عسکری عہدیداروں کو شامل کرنا تسلسل، شفافیت اور احتساب کی ضمانت کے لیے اہم ہے۔

پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ (خود مختار دولت کا فنڈ) بھی اسی تصور کے ساتھ قائم کیا گیا ہے کہ یہ بیوروکریٹک اور ریگولیٹری رکاوٹوں سے آزاد ہوگا۔ فی الحال سات ممالک کے تقریباً آٹھ ارب ڈالر مالیت کے اثاثے اس فنڈ میں منتقل کیے جا رہے ہیں جبکہ شیئرز کی فروخت اور ان سے حاصل ہونے والی کمائی کے ذریعے سرمایہ کاری کر کہ اس فنڈ کو وسعت بخشی جائے گی۔حکومت کا جی سی سی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بھی ارادہ ہے جبکہ نقصان میں جانے والی پبلک سیکٹر کمپنیوں کی نج کاری یا پھر لیز کر دیا جائے گا۔ سرمایہ کاری کی اس مہم میں ٹھوس پیش رفت سے پاکستان کو جی سی سی، چین اور دیگر ممالک سے ہونے والی سرمایہ کاری کے فروغ میں مدد ملے گی۔ اسلام آباد کو بھی خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور افرادی قوت میں تنوع کی ضرورت ہے۔ اس وقت تقریباً 40 لاکھ پاکستانی ورکرز جی سی سی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، عرب امارات اور پاکستان کے درمیان جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کی طرز پر سعودی عرب اور دیگر جی سی سی رکن ممالک کے ساتھ معاہد ے کی ضرورت ہے۔
آئی ٹی اور سروسز کے شعبے میں ہنر مندپاکستانی افراد قوت خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں کے لیے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے 23ویں دوحہ فورم میں شرکت کے دوران پاکستان کی معاشی استحکام کی پیش رفت اور اصلاحاتی اقدامات عالمی برادری کے سامنے پیش کیے، جبکہ قطر نے پاکستان کو ’برادر ملک‘ قرار دیتے ہوئے جی سی سی پاکستان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا۔دوحہ فورم میں گلوبل ٹریڈ ٹینشنز خطے پر معاشی اثرات کے موضوع پر منعقدہ اعلیٰ سطحی پینل میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد مالیاتی طور پر مستحکم ہوچکا ہے۔ ان کے مطابق ٹیکس اصلاحات، توانائی سیکٹر کی بحالی اور سرکاری اداروں کی ری اسٹرکچرنگ تیزی سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے بعد پاکستانی ٹیکسٹائل پر 19 فیصد رعایتی ٹیرف ملنا ایک اہم پیش رفت ہے، جبکہ آئی ٹی برآمدات رواں سال 4 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان کا پرائمری بیلنس اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں ہیں، جبکہ 18 سے 20 ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر معیشت کو مستحکم بنا رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی آبادی پاکستان کے لیے بڑے معاشی چیلنج ہیں۔قطر کے وزیر خزانہ علی بن احمد الکواری نے پاکستان کو ’’برادر ملک‘‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ GCC–پاکستان FTA طے پا چکا ہے، جو کئی سال بعد خلیجی ممالک کا پہلا فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے پاکستان اور جی سی سی ممالک کے درمیان تجارت کے نئے در کھلیں گے۔ انہوں نے پاکستان کی آئی ٹی صلاحیت، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے شعبوں میں استعداد کی بھی تعریف کی۔آئی ایم ایف کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر بو لی نے پاکستان کی معاشی اصلاحات کو درست سمت میں گامزن قرار دیتے ہوئے کہا کہ 7 ارب ڈالر کے استحکامی پروگرام کے بعد پاکستان کو کلائمیٹ ریزیلینس کے لیے 1.3 ارب ڈالر اضافی فراہم کیے جارہے ہیں۔ اس فنڈنگ سے پاکستان میں گرین بجٹنگ، کلائمیٹ رسک اسیسمنٹ اور لچکدار انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔فورم کے بعد پاکستان اور قطر کے وزرائے خزانہ کی دو طرفہ ملاقات بھی ہوئی، جس میں تجارت، توانائی تعاون، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیجیٹل مہارتوں اور ریگولیٹری اصلاحات میں مشترکہ شراکت کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان–قطر تعلقات ایک نئے اسٹریٹجک دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 1.3 ارب ڈالر کا ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی پروگرام مل چکا ہے، سی پیک فیز 2.0 میں حکومتی تعاون سے بزنس-ٹو-بزنس سرمایہ کاری کی طرف منتقلی کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان اورامریکا منرلز، مائننگ، اے آئی اور بلاک چین میں تعاون بڑھانے پر کام کر رہے ہیں، پاکستانی نوجوانوں کے لیے اے آئی، بلاک چین، ایڈوانس ڈیجیٹل اسکلز میں عالمی مواقع موجود ہیں۔ قطر اور پاکستان کا دوطرفہ ملاقات میں ایف ٹی اے پر پیش رفت تیز کرنے پر اتفاق کیا اور دونوں ممالک نے توانائی، ایل این جی اور ٹیکنالوجی تعاون کے فروغ کا عزم کا اظہار کیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X