LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) سیلاب میں گھری انسانیت اور سید عابد امام کا کردار

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) پاکستان کی تاریخ میں قدرتی آفات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ کبھی زلزلے ہماری بستیوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، کبھی خشک سالی کسانوں کی محنت کو خاک میں ملا دیتی ہے اور کبھی سیلاب بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں آنے والا حالیہ سیلاب بھی انہی آفات میں سے ایک تھا جس نے ہزاروں گھر اجاڑ دیے، لاکھوں انسانوں کو بے یار و مددگار کر دیا اور کھیت کھلیان بنجر بنا دیے۔ حکومتی دعوے اور اربوں روپے کے منصوبے ایک بار پھر پانی کے ریلوں میں بہہ گئے اور متاثرین کے چہروں پر پھیلی بے بسی نے یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے ریاستی ڈھانچے کی کمزوریاں ہر آفت میں ننگی ہو جاتی ہیں۔

ایسے وقت میں عوام کو صرف حکومتی اعلانات نہیں بلکہ حقیقی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ قیادت وہ نہیں جو ایوانوں کی چار دیواری میں تقریریں کرے، بلکہ وہ ہے جو مصیبت کے وقت عوام کے درمیان کھڑا ہو۔ جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں جب ہر طرف ویرانی اور بے یقینی چھائی ہوئی تھی تو وہاں ایک شخصیت امید بن کر ابھری — سید عابد امام۔

سید عابد امام کا انداز باقی سیاستدانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ کیمروں کے جلو میں رسمی دورے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ عملی خدمت کے لیے میدان میں اترے تھے۔ وہ کیچڑ زدہ راستوں پر چلے، متاثرہ خیموں میں جا کر بیٹھے، بچوں کے سروں پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا، خواتین کے دکھ سنے اور بزرگوں کی دعائیں لیں۔ ان کا یہ جملہ متاثرین کے دلوں میں گھر کر گیا:

> “یہ وقت سیاست کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ جو آج عوام کے ساتھ نہیں کھڑا، وہ کل عوام کے سامنے کھڑا ہونے کا حق نہیں رکھتا۔”

یہ جملہ محض الفاظ نہیں بلکہ ایک انقلابی سوچ تھی، ایک ایسا منشور جو روایتی سیاست کے تضادات کو چیلنج کرتا ہے۔

اکثر سیاستدانوں کے دورے فوٹو سیشن تک محدود ہوتے ہیں لیکن سید عابد امام نے خدمت کو ترجیح دی۔ انہوں نے خود کھانا تقسیم کیا، متاثرین سے براہ راست بات کی اور انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ محض ووٹ ڈالنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی موجودگی متاثرین کے لیے حوصلے اور اعتماد کا باعث بنی۔

ان کی سوچ وقتی امداد سے آگے کی تھی۔ انہوں نے ایک جامع بحالی منصوبہ پیش کیا جس میں فوری طبی امداد کے کیمپ، خیموں سے نکل کر مستقل رہائش، بچوں کی تعلیم کی بحالی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔ ان کا یہ اعلان کہ “یہ مٹی میری پہچان ہے اور اس مٹی کے لوگ میری طاقت ہیں، ان کی بحالی میری سیاست نہیں بلکہ میری عبادت ہے” اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ خدمت کو اقتدار کی سیڑھی نہیں بلکہ فرض سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں اکثر سیاست خدمت کے دعووں تک محدود رہی ہے۔ بیانات بلند و بانگ ہوتے ہیں مگر عملی اقدامات ناپید۔ ایسے میں جب کوئی لیڈر عوام کے دکھ کو ذاتی دکھ سمجھے تو یہ روایت بدلنے کا آغاز ہوتا ہے۔ سید عابد امام نے یہ واضح کر دیا کہ اصل قیادت وہ ہے جو عوام کے زخموں پر مرہم رکھے اور مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑی ہو۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک فرد آفت کے دنوں میں یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو ہمارے ریاستی ادارے اور حکومتیں کیوں ناکام رہتی ہیں؟ این ڈی ایم اے جیسے ادارے، ضلعی حکومتیں اور صوبائی ڈھانچے اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہر آفت کے بعد عوام غیر سرکاری امداد اور انفرادی کاوشوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؟

یہ وہ سوال ہیں جو آج ہمارے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ متاثرین کے چہروں پر پھیلی بے بسی دراصل اس ناکام ریاستی ڈھانچے کا عکس ہے جو صرف کاغذی دعوؤں تک محدود ہے۔ لیکن اس کے برعکس سید عابد امام جیسے لیڈر یہ ثابت کرتے ہیں کہ خلوصِ نیت اور خدمت کا جذبہ ہو تو سب سے بڑی آفت بھی عوامی اتحاد اور قیادت کی طاقت کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی۔

ان کا یہ کردار وقتی خبر نہیں بلکہ ایک تحریک کی بنیاد ہے۔ تحریک اس سوچ کے خلاف کہ عوام صرف انتخابی ہتھیار ہیں، تحریک اس رویے کے خلاف کہ سیاست خدمت کے بجائے کاروبار ہے۔ اگر یہ سوچ آگے بڑھی تو سیاست کا رخ بدل سکتا ہے اور ایک ایسا کلچر پروان چڑھ سکتا ہے جہاں خدمت، قربانی اور عوامی بھلائی ہی قیادت کا اصل معیار ہو۔

سیلاب میں گھری انسانیت کے دکھ درد کو کم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن سید عابد امام نے یہ کر دکھایا۔ انہوں نے مایوسی کی فضا میں یہ ثابت کیا کہ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے سے بڑا کوئی عمل نہیں۔ ان کی خدمت اور قربانی کا یہ سفر شاید مستقبل کی سیاست کی سمت متعین کر دے — جہاں وعدوں کی نہیں بلکہ عمل کی سیاست ہو۔

آخر میں سوال یہی ہے کہ اگر ایک شخص آفات کے دنوں میں یہ سب کر سکتا ہے تو باقی سیاستدان اور ادارے کیوں نہیں کر پاتے؟ کیا وجہ ہے کہ عوام ہر بار آزمائش کی گھڑی میں اکیلے چھوڑ دیے جاتے ہیں؟ اور کیا ہماری سیاست کبھی اس مقام پر پہنچے گی جہاں اقتدار سے زیادہ خدمت کو ترجیح دی جائے؟ یہی وہ سوال ہیں جن کا جواب آنے والے وقت کو دینا ہوگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X