اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے وفاقی حکومت نے قومی بیانیہ کی تشکیل کے لیے قومی پیغام امن کمیٹی کی ذیلی کمیٹی قائم کر دی ہے۔پاکستان کو انتہاپسندی سے شدید خطرہ لاحق ہے مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت، ریاستی ادارے اور رائے عامہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے میں پوری طرح یکسو نہیں ,دہشت گردی اور انتہا پسندی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔کچھ ممالک دہشتگردی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں،دنیا اب انکے بیانیے پر یقین نہیں کرتی،ہمارے پاس جعفر ایکسپریس حملے اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ہم ہر قسم کی دہشت گردی بشمول ریاستی دہشت گردی کی واضح مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خطے کی سلامتی اور امن کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ اس جدوجہد میں ہم نے 90 ہزار سے زائد قیمتی جانیں گنوائی ہیں اور 152 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات برداشت کیے ہیں۔
قومی پیغام امن کمیٹی انتہا پسندی، دہشت گردی کے خاتمے فرقہ واریت، اور نفرت انگیز تقاریر روکنے کیلئےکے لیے قومی سطح پر متفقہ بیانیہ مرتب کرنے کی ذمہ داری نبھائے گی، جس کی سربراہی وفاقی وزیرِ برائےاطلاعات و نشریات کریں گے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ذیلی کمیٹی کی تشکیل کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام، مشائخ، اقلیتوں کے نمائندگان اور متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ کمیٹی میں اقلیتوں برادریوں کو بھی مناسب نمائندگی دی گئی ہے، صوبائی و علاقائی پیغام امن کمیٹیوں کے کوآرڈینیٹرز، منظور شدہ مدارس بورڈز کے نمائندگان، وزارت داخلہ اور وزارت مذہبی امور کے ایڈیشنل سیکریٹریز، ڈائریکٹر جنرل مذہبی تعلیمات بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنل پبلسٹی ونگ بطور سیکریٹری کمیٹی خدمات انجام دیں گے،کمیٹی اپنی پہلی میٹنگ میں تفصیلی ٹی او آرز مرتب کرے گی، ٹی او آرز کو ’نیشنل کمیٹی آن نیریٹو بلڈنگ‘ کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ پاکستان میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس اور شورش زدہ علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال پر پھر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور سرحدی علاقوں میں رات کے اوقات میں شدت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ریاستی عمل داری کے لیے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی اور اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باعث شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع ملا ہے شدت پسندوں کے طریقہ واردات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں شدت پسندوں کے حملے زیادہ تر سیکیورٹی اداروں تک محدود تھےلیکن اب انہوں نے اپنی حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی کرتے ہوئے اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نوکریاں چھوڑنے کی دھمکیوں جیسے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں پولیس، لیویز اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں کے اغوا کے واقعات اور پھر جرگوں کے ذریعے رہائی ایک معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو پاکستان اٹامک انرجی کے اہلکاروں کو بندوق کی نوک پر اغوا کر چکے ہیں۔ اس واقعے کے بعد مختلف عمائدین کی کوششوں سے ٹی ٹی پی کے ساتھ جرگے کی کئی نشستیں منعقد کیں،شدت پسندوں کی جانب سے سابقہ قبائلی علاقوں میں پیٹرولنگ نے مقامی رہائشیوں کے خوف و ہراس کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے جو کہ ریاستی رٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے یہ تمام عوامل شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کے دائرہ کار کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں پہلے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں سابقہ قبائلی علاقوں تک محدود تھیں۔ لیکن اب انہوں نے جنوبی اضلاع کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہےان علاقوں میں شدت پسند کھلے عام حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں جو سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے خطے میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ حکومت کی غیر واضح اور غیر مؤثر پالیسیوں کا نتیجہ ہے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومتی حکمتِ عملی میں تسلسل اور وضاحت کا فقدان ہے۔ مقامی آبادی کا حکومت اور ریاست پر بداعتمادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ٹی ٹی پی نے نہ صرف اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں بلکہ نئے علاقوں تک اپنے اثر و رسوخ کو بھی بڑھا رہی ہے پاکستانی حکومت ابتدا ہی سے اس مخمصے کا شکار رہی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی جائے یا مذاکرات کا راستہ اپنایا جائےشدت پسند ان تمام اندرونی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کی وجہ سے ریاستی ادارے ایک مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ٹی ٹی پی اس وقت ایک مضبوط پوزیشن میں ہے کیوں کہ اسے طالبان حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔موجودہ حالات میں اگر مذاکرات کا راستہ اپنایا جاتا ہے تو ٹی ٹی پی فاٹا انضمام کو واپس لینے اور شریعت کے نفاذ جیسے سخت مطالبات کے ساتھ سامنے آئے گی۔ زمینی حالات اس قدر گھمبیر شکل اختیار کر چکے ہیں کہ محض فوجی آپریشن کےساتھ شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا۔حکومت کو صرف آپریشنز پر انحصار کرنے کے بجائے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور ٹی ٹی پی سے نمٹنے کے لیے ایران اور افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر بھی کوششیں تیز کرنی ہوں گی فوجی آپریشنز اپنی سرحدوں کے اندر تو مؤثر ہو سکتے ہیں، لیکن سرحد پار آپریشن صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں جیسا کہ حالیہ واقعات میں دیکھنے کو ملا واضح رہے کہ پاکستان نے مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں کو فضائی کارروائی کے ذریعے نشانہ بنایا اگرچہ پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر اس کارروائی کی تصدیق نہیں کی، تاہم دفتر خارجہ نے اس بات کا عندیہ دیا کہ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ کے لیے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ہدف بناتا ہے۔ اس سے قبل پاکستان ایرانی سرحد کے اندر بھی مبینہ شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنا چکا ہے۔ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کالعدم تنظیم نے 2024 میں مجموعی طور پر 1758 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی نے ایک نیا بیان جاری کرتے ہوئے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے فوج کے ذیلی اداروں کو بھی نشانہ بنانے کا اعلان کیا شدت پسند پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں اگرچہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو دہائیاں گزار چکا ہے تاہم شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں سست روی یا ناکامی کی بنیادی وجہ نیشنل ایکشن پلان کا مکمل طور پر نافذ نہ ہونا ہےاس وقت خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع شدت پسندوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں , صوبائی حکومت فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دے رہی جب کہ مقامی افراد بھی آپریشن کے حق میں نہیں جس کی وجہ سے سیکیورٹی ادارے ایک محدود دائرے میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔سیکیورٹی ادارے صرف انٹیلی جینس آپریشنز پر انحصار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان آپریشنز کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں جو صورتِ حال کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ ٹی ٹی پی کے مسئلے کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات، مہاجرین کا مسئلہ اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے وہ شخصیات جو طالبان حکومت کے قیام کے بعد ان مسائل کے حل کی امید لگائے بیٹھے تھے، وہ اس تاریخی پس منظر سے ناآشنا تھیں۔ بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے حکمتِ عملی محض ‘امید’ پر مبنی تھی جب یہ امید ٹوٹ گئی تو پھر بارڈر کی بندش، فضائی حملے، مہاجرین کی بے دخلی اور سرحدی تجارت پر سختی جیسے اقدامات اپنائے گئے اس نوعیت کے اقدامات صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو بڑھا دیتے ہیں جس سے مسئلے کا حل مزید مشکل ہو جاتا ہے پاکستان کو شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک طویل مدتی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ اس حکمتِ عملی میں نہ صرف انٹیلی جینس کی بنیاد پر آپریشنز شامل ہوں بلکہ شدت پسندوں کے مالی نیٹ ورک کو بھی ختم کرنا ہوگا، سوشل میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈے کو مؤثر طریقے سے ختم کرنا ہوگا تب ہی خطے میں شدت پسندی کو قابو کرنے میں مدد ملے گی اور اس مسئلے کا حل ممکن ہو سکے گا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، پاکستان نے صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے قربانی دی، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار سے زائد قیمتی جانیں قربان کی ہیں۔ یہ یاد رکھیں عسکریت پسند گروہ اپنے نظریات کو پھیلانے، خوف و ہراس پیدا کرنے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے میڈیا کے محتاج ہیں، جب کہ میڈیا ادارے سنسنی خیز خبروں کی تلاش میں اکثر عسکریت پسندوں کے بیانیے کو مزید نمایاں کر دیتے ہیں۔ عسکریت پسند گروہ اپنی کارروائیوں کی نفسیاتی شدت میں اضافے کے لیے میڈیا کوریج کے محتاج ہوتے ہیں، جبکہ میڈیا ادارے عسکریت پسندی کو ایک پرکشش خبر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حملے اکثر ایسے مقامات پر کیے جاتے ہیں جو علامتی حیثیت رکھتے ہوں یا جہاں زیادہ سے زیادہ تباہی مچائی جا سکے تاکہ میڈیا میں نمایاں کوریج حاصل کی جا سکے۔
میڈیا، چاہے دانستہ یا نادانستہ، دہشت گردوں کو وہ نمایاں حیثیت دے دیتا ہے جس کی وہ تلاش میں ہوتے ہیں، اور ان کی کارروائیوں کو مزید موثر بنا دیتا ہے۔ بار بار نشر ہونے والی شدت پسندی کی خبریں عوام میں خوف و ہراس بڑھاتی ہیں، جو بالآخر دہشت گردوں کے مقاصد کو تقویت دیتی ہیں۔ میڈیا میں شدت پسند حملوں کو پیش کرنے کا طریقہ عوامی رائے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ سنسنی خیز رپورٹنگ نہ صرف خوف اور تعصبات کو بڑھا سکتی ہے بلکہ بعض اوقات عسکریت پسند گروہوں کے بیانیے کو بھی طاقتور بنا سکتی ہے۔ جب میڈیا کسی حملے کے پس منظر اور اس کے حقیقی محرکات پر توجہ دینے کے بجائے صرف حملہ آور کی شناخت، مذہبی یا نظریاتی وابستگی کو اجاگر کرتا ہے، تو اس سے سماجی تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے، جس کا فائدہ انتہا پسند گروہ اٹھاتے ہیں۔ میڈیا کی منتخب کردہ رپورٹنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ مخصوص گروہوں کے حملوں کو نمایاں کوریج دی جاتی ہے، جبکہ دیگر عسکریت پسندانہ کارروائیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جس سے شدت پسند کی حقیقت کو جانبدارانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی طرف سے عسکریت پسند کی مسلسل اور وسیع کوریج کے کئی غیر ارادی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے بڑا خطرہ ’نقل شدہ دہشت گردی ہے، جس میں کچھ افراد یا گروہ میڈیا میں دکھائی گئی عسکریت پسندی سے متاثر ہو کر ویسی ہی کارروائیاں دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عسکریت پسند گروہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے انتہائی خوفناک اور اشتعال انگیز مناظر تخلیق کرتے ہیں تاکہ ان کی تنظیم کے بیانیے کو پھیلایا جا سکے اور نئے بھرتی ہونے والوں کو متاثر کیا جا سکے۔ اسی طرح عسکریت پسندانہ حملوں کو ایک سنسنی خیز تماشے میں تبدیل کرنا ان کے نفسیاتی اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اور حملہ آوروں کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کا رجحان مزید عسکریت پسندوں کو متوجہ کر سکتا ہے۔میڈیا کی مسلسل کوریج عوامی دباؤ کو بڑھا دیتی ہے، جس کی وجہ سے حکومتوں کو عسکریت پسندی کے خلاف فوری اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات، یہ عجلت میں کیے گئے فیصلے غیر موثر یا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، جیسے غیر ضروری فوجی کارروائیاں یا سخت سکیورٹی پالیسیاں جو مزید مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ جب حکومتیں میڈیا کے دباؤ میں آ کر جذباتی فیصلے کرتی ہیں، تو بعض اوقات اس کا فائدہ خود عسکریت پسندوں کو پہنچتا ہے، کیونکہ غیر متوازن پالیسیوں کی وجہ سے کچھ مخصوص گروہ مزید انتہا پسندی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں، عسکریت پسندی اور میڈیا کے درمیان تعلق مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، کیونکہ اب انتہا پسند گروہوں کے پاس براہ راست عالمی ناظرین تک رسائی کے ذرائع موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خفیہ میسجنگ ایپس، اور ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹس شدت پسند تنظیموں کو پروپیگنڈا پھیلانے، لوگوں کو بھرتی کرنے، اور حملے منظم کرنے کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ میڈیا کے برعکس، جہاں کسی حد تک ادارتی نگرانی موجود ہوتی ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عسکریت پسندانہ مواد کو روکنے کے لیے زیادہ موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ آج، عسکریت پسند گروہ جدید ڈیجیٹل حکمت عملیاں اپناتے ہیں، جیسے کہ وائرل مواد، مخصوص ہیش ٹیگز، اور انٹرایکٹو میڈیا کا استعمال، تاکہ نوجوانوں کو شدت پسند نظریات کی طرف راغب کیا جا سکے۔ انٹرنیٹ کی گمنامی نے انتہا پسند بیانیوں کو مزید فروغ دیا ہے، اور آن لائن گروپس اور فورمز میں نظریاتی شدت پسندی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین، حقائق کی جانچ کے مؤثر نظام، اور حکومتوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان تعاون ناگزیر ہو چکا ہے عسکریت پسندی اور میڈیا کا یہ گٹھ جوڑ 24 گھنٹے کی نیوز سائیکل اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ میڈیا عوام کو آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر اسے اس نازک حد کا بھی خیال رکھنا چاہیے جہاں رپورٹنگ غیر ارادی طور پر عسکریت پسندوں کے عزائم کو تقویت نہ پہنچا دے۔ حکومتوں کو بھی جذباتی فیصلوں سے گریز کرنا چاہیے جو میڈیا کے دباؤ میں کیے گئے ہوں۔ سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر انتہا پسندی کے فروغ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ ذمہ دارانہ صحافت، اخلاقی رپورٹنگ، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے لیے سخت ضوابط عسکریت پسندوں کے بیانیے کو مزید پھیلنے سے روکنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ دس رکنی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) نے چین کے شہر تیانجن میں سربراہی اجلاس کے اختتام پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مارچ اور مئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی رہنماؤں نے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی پختہ وابستگی کو دہراتے ہوئے زور دیا کہ دہشت گرد، علیحدگی پسند اور انتہا پسند گروپوں کو کرائے کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ خودمختار ریاستیں اور ان کے متعلقہ ادارے دہشت گرد اور انتہا پسند خطرات کا مقابلہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اور دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت کے خلاف کثیر الجہتی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ ”رکن ممالک اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ منشیات، نشہ آور ادویات اور ان کے اجزاء کی غیر قانونی اسمگلنگ، اسلحہ اسمگلنگ اور دیگر سرحد پار منظم جرائم کے خلاف مشترکہ جنگ جاری رکھیں گے۔