تل ابیب (بگ ڈیجٹ) اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتوں میں 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرے گی اور مزید 20 ہزار ریزرو فوجیوں کی خدمات میں توسیع کی جائے گی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا کہ وزیرِ دفاع کاتز نے غزہ کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں کارروائی کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کے ساتھ ساتھ مزید 20 ہزار ریزرو فوجیوں کی خدمات بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب انسانی حقوق کے گروپس خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے، جہاں زیادہ تر رہائشی متعدد بار بے گھر ہو چکے، محلے کھنڈر بن گئے اور قحط کے خدشے کے باعث بھوک سے شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ جنگ کے نئے مرحلے میں غزہ شہر اور اس کے اطراف میں بتدریج درست اور اہداف پر مبنی کارروائی کی جائے گی، ان علاقوں سمیت جہاں فوج نے پہلے کبھی کارروائیاں نہیں کی تھیں۔عہدیدار نے کہا کہ فوج نے ابتدائی مراحل کے طور پر پہلے ہی زیتون اور جبالیہ کے محلوں میں حملے شروع کر دیے ہیں۔الجزیرہ کے مقامی رپورٹر ابو عظوم کے مطابق غزہ کے سب سے بڑے شہر پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کے پیش نظر رہائشی بدترین حالات کے لیے تیار ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو علاقے کے جنوب میں نام نہاد ارتکاز زونز کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔
ابو عظوم نے کہا کہ اسرائیلی توپ خانے نے مشرقی غزہ شہر میں گھروں کو تباہ کر نا شروع کر دیا ہے جب کہ گنجان آباد علاقوں میں حملے مزید تیز ہو گئے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ رات بالکل بے خوابی میں گزری کیونکہ اسرائیلی ڈرونز اور جنگی طیارے آسمان پر چھائے رہے، گھروں اور عارضی کیمپوں کو نشانہ بنایا اور تباہ کیا۔انہوں نے ایک باپ کا حال بھی بیان کیا جس نے اپنے بچے اسرائیلی حملے میں کھو دیے، یہ واقعہ جنوبی غزہ کے علاقے المواسی میں پیش آیا، جسے اسرائیل ایک مبینہ محفوظ زون قرار دیتا ہے۔والد نے بتایا کہ اس کے بچے سکون سے سو رہے تھے جب اسرائیلی میزائل خیمے کو چیرتے ہوئے اندر آیا اور ان کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کر گیا۔
طبی ذرائع کے مطابق 20 اگست کو اسرائیلی حملوں میں کم از کم 35 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 10 افراد کو خوراک کی حصول کی کوششوں کے دوران شہید کیا گیا۔ادھر، اسرائیلی حملے تیز کرنے کے منصوبے کے ساتھ ہی قطر اور مصر کی سربراہی میں امریکا کی حمایت یافتہ نئی ثالثی کی کوششیں بھی جاری ہیں، تازہ ترین منصوبے میں 60 روزہ جنگ بندی، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے مرحلہ وار تبادلے اور امداد کی فراہمی میں اضافہ شامل ہے۔قطر نے کہا کہ یہ تجویز تقریبا وہی ہے، جسے پہلے اسرائیل نے قبول کیا تھا، جبکہ مصر نے زور دیا کہ اب فیصلہ اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس تجویز پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، گزشتہ ہفتے انہوں نے اصرار کیا تھا کہ کوئی بھی معاہدہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ اور ہماری شرائط کے مطابق رہا نہ کیا جائے تاکہ جنگ ختم ہو سکے۔
حماس کے سینئر رہنما محمود مرداوی نے کہا کہ ان کی تحریک نے معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے دروازے کھول دیے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا نیتن یاہو ایک بار پھر اسے بند کر دیں گے جیسا کہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔یہ جنگ بندی کی کوششیں ایسے وقت ہو رہی ہیں، جب عالمی سطح پر اسرائیل کے جنگی طرزِعمل پر شدید تنقید بڑھ رہی ہے اور نیتن یاہو پر اندرونی دبا میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔فلسطینی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 62 ہزار 64 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، اقوامِ متحدہ نے ان اعداد و شمار کو معتبر قرار دیا ہے۔