اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ملک میں چینی کی طلب پوری کرنے اور قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے حکومت نے اقدامات اٹھا لیئے ہیں اور اس سلسلے میں 85 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کیلئے لیٹر آف کریڈٹ جاری کر دیئے ہیں ۔ وزارت غذائی تحفظ کے مطابق تمام ایل سیز کھولنے کے بعد متعلقہ بینکوں کے ذریعے ترسیل کر دی گئی، سوکار کیساتھ تجارتی معاہدے کے تحت چینی کی کھیپ مرحلہ وار پاکستان پہنچائی جائےگی، چینی کی پہلی کھیپ آئندہ چند ہفتےمیں بندرگاہ پر پہنچنے کی توقع ہے۔ وزارت غذآئی تحفظ حکومت پاکستان نے ملک میں چینی کی طلب پوری کرنے اور قیمتوں میں استحکام کے پیش نظر 85 ہزار میٹرک ٹن چینی کی درآمد کے لئے سوکار (SOCAR) کے ذریعے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) قائم کر دیئے گئے ہیں حکومت نے یہ اقدام اندرون ملک چینی کے ذخائر میں اضافے اور مستقبل میں کسی ممکنہ قلت یا قیمتوں میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ سے بچاؤ کے لئے کیا ہے یہ تمام ایل سیز باضابطہ طور پر کھولے اور متعلقہ بینکوں کے ذریعے ترسیل کر دی گئی ہیں, سوکار کے ساتھ طے پانے والے تجارتی معاہدے کے تحت چینی کی یہ کھیپ مرحلہ وار پاکستان پہنچائی جائے گی, پہلی کھیپ آئندہ چند ہفتوں میں بندرگاہ پر پہچنے کی توقع ہے منصوبے کے تحت درآمدی چینی کو اوپن مارکیٹ میں رعایتی نرخوں پر عوام تک پہنچایا جائے گا 85 ہزار میٹرک ٹن چینی کی درآمد سے مارکیٹ میں سپلائی کا تسلسل برقرار رہے گا درآمدی چینی معیار کے عالمی تقاضوں پر پورا اترنے اور مقررہ مدت میں پاکستان پہنچنے کو یقینی بنایا جائے گا
یاد رہے کہ 10 جولائی 2025 کووفاقی حکومت نے چینی کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے فوری درآمدی حکمتِ عملی کا اعلان کیاتھا،
جس کے تحت 350,000 میٹرک ٹن سفید چینی کی 2 مرحلوں میں درآمد کی منظوری دے دی گئی ۔ اس فیصلے کے تحت تمام درآمدی ڈیوٹیاں اور ٹیکسز ختم کر دیے گئے تھے۔ یہ فیصلہ وفاقی وزیر برائے قومی تحفظ خوراک رانا تنویر حسین کی زیرِ صدارت چینی درآمد سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیاتھا۔ منصوبے کے تحت پہلا ٹینڈر فوری طور پر 200,000 ٹن چینی کے لیے جاری کیا گیا۔ دوسرا ٹینڈر ایک ہفتے بعد 150,000 ٹن چینی کے لیے جاری ہوا۔وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے درآمدی چینی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 0.25فیصد کر دیا ہے اور 3 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ سہولت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان اور نجی درآمد کنندگان دونوں کے لیے 30 ستمبر 2025 تک دستیاب ہوگی۔یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب وفاقی کابینہ نے 4 جولائی کو 500,000 ٹن چینی کی درآمد کی منظوری دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چند ماہ پہلے، حکومت نے جون 2024 سے جنوری 2025 تک 750,000 ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی تھی۔ ان فیصلوں میں وزارتِ تجارت کو شریک نہیں کیا گیاتھا، جس پر مختلف حلقوں نے تنقید کی تھی۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے درآمدی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملک میں 21 نومبر 2025 تک طلب پوری کرنے کے لیے چینی کا مناسب ذخیرہ موجود ہے۔اوپن مارکیٹ میں چینی کی ریٹیل قیمت فی کلو 195 سے 210 روپے تک پہنچ چکی ہے، جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 3 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں فی کلو اوسط قیمت 185 روپے رہی۔ گزشتہ سال اسی ہفتے میں چینی کی قیمت 144.7 روپے فی کلو تھی۔اس سے پہلے 23 جون 2025 کوشوگر ایڈوائزری بورڈ نے ملک میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ یہ فیصلہ وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیاتھا، جس میں وزارت کے اعلیٰ حکام اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندے شریک تھے اجلاس میں ملک میں چینی کی موجودہ صورتحال، قیمتوں میں اضافے اور شوگر ملز کی جانب سے ممکنہ ذخیرہ اندوزی پر تفصیلی غور کیا گیاتھا۔ وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے اس موقع پر کہا تھاکہ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عوام شدید متاثر ہورہے ہیں، اس لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ بورڈ نے درآمدی چینی کی فراہمی کو سخت نگرانی کے ساتھ یقینی بنانے کی ہدایت دی تاکہ کوئی غیر قانونی منافع خوری نہ ہو حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی قیمت 150 روپے فی کلو سے تجاوز کرچکی تھی اور عام صارفین اس بنیادی ضرورت کی چیز کی دستیابی سے پریشان ہیں۔ اس تناظر میں حکومت کا یہ اقدام عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کا حصہ تھی ، تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ درآمدی چینی واقعی صارفین تک مقررہ نرخ پر پہنچ سکے گی یا نہیں۔یاد رکھیں کہ گزشتہ سال 13 اگست 2024 کو شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس میں تاجکستان کو 40 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی گئی تھی , جاری اعلامیے کے مطابق ملک میں چینی کے اسٹاک کی دستیابی اور قیمتوں کا جائزہ لیا گیاتھا ، تاجکستان کو چینی کی برآمد گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کی سطح پر ہوگی۔اعلامیہ میں کہا گیاتھا کہ چینی کی ریٹیل قیمت کو برآمد سے الگ کرنے فیصلہ کیا گیا ، شوگر ملز ایسوسی ایشن سے ریٹیل پرائس کا کوئی تعلق نہیں۔ وزیر صنعت رانا تنویر حسین نے کہاتھا کہ شوگر ملز مالکان کی جانب سے گنے کے باقی کاشتکاروں کو بقایا جات کی ادائیگی جلد کی جائے گی۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے چینی کی ریٹیل قیمت کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اجلاس کو بریفنگ دی گئی تھی کہ ملک میں چینی کا 28 لاکھ میٹرک ٹن اسٹاک موجود ہے، اور چینی سرپلس ہے۔ملک بھر میں میں چینی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے، یاد رہے کہ ایک سال قبل چینی کی پرچون میں فی کلو قیمت 140 روپے تھی جبکہ منڈیوں میں چینی کے 50 کلو والے تھیلے کی قیمت 6 ہزار 200 روپے تھی، اب پرچون میں فی کلو قیمت 185 سے 190 روپے ہو گئی ہے حکومت نے شوگر ملز مالکان کی قیمتیں نہ بڑھنے کی یقین دہانیوں کے بعد چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی تھی، تاہم چینی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا جس پر حکومت نے ایکشن لیا اور کہا کہ چینی کی قیمت ایکس مل ریٹ 159 روپے جبکہ ریٹیل پرائس 164 روپے فی کلو ہوگی۔ماضی میں نیب کی جانب سے چینی بحران کی انکوائری کے دوران شوگر ملز اور ان کے مالکان کے نام اور دیگر تفصیلات کے ساتھ ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس کے مطابق ملکی بڑے سیاستدان شوگر ملوں کے مالکان ہیں۔شریف فیملی اور ان کے رشتہ داروں کی ملکیت میں 6 شوگر ملز ہیں، جن میں حمزہ شوگر ملز، رمضان شوگر ملز، ایچ وقاص شوگر ملز اور اتفاق شوگر ملز شامل ہیں۔نواز شریف کی دیگر رشتہ دار عبداللہ شوگر ملز، چنار شوگر ملز چوہدری شوگر ملز، کشمیر شوگر ملز اور یوسف شوگر ملز کے مالک ہیں۔صدر آصف علی زرداری کی اور ان کے رشتہ دار 6 شوگر ملوں کے مالک ہیں۔
ان میں انصاری شوگر ملز، سکرنڈ شوگر ملز، کرن شوگر ملز شامل ہیں۔ جبکہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف بھی اشرف شوگر ملز کے مالک ہیں۔مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین بھی پنجاب شوگر ملز کے مالک ہیں۔ جی ڈی اے کی فہمیدہ مرزا، مرزا شوگر ملز اور پنجریو شوگر ملز کی مالک ہیں۔ جہانگیر خان ترین بھی 3 شوگر ملز کی ڈی ڈبلیو ون، ڈبلیو 2 شوگر ملز اور گلف شوگر ملز کے مالک ہیں جبکہ چوہدری پرویز اشرف اور خسرو بختیار بھی رحیم یار خان شوگر ملز کے پارٹنرز ہیں۔ سابق سینیٹر ہارون اختر اور ان کے پارٹنرز کمالیہ شوگر ملز، تاندلیانوالا شوگر ملز، والہ میران شوگر ملز اور لیہ شوگر ملز کے مالک ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے اکثر دنیا میں پانچویں نمبر پر براجمان رہا ہے۔ اس کی فی ایکڑ گنے کی پیداوار اوسطاً 500 من ہے کہیں 1000 اور 12 سو من بھی ہے جب کہ دنیا کی اوسطاً پیداوار فی ایکڑ 600 من سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی پنجاب سے جڑے بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ گنے کے علاوہ بھی ہر پیداوار پاکستان سے کہیں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں کسان کو فی من گنے کی ادائیگی 6 سو سے 7 سو روپے کی جا رہی ہے اور ہندوستان میں ریٹ زیادہ دیے جاتے ہیں۔ 2021-22 میں سب سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی یعنی 8 کروڑ86 لاکھ 51 ہزار ٹن، 2018-19 میں پیداوار 5 سال میں سب سے کم تھی 6 کروڑ10 لاکھ ٹن۔2020-21 میں 8 کروڑ10 لاکھ ٹن۔ اب تسلسل اس بات پر ہے کہ تقریباً 8 کروڑ ٹن کے لگ بھگ گنے کی پیداوار اور چینی کی پیداوار اس سیزن میں جوکہ فروری تک اختتام کو پہنچا ہے 58 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی ہے۔ گنے کی فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے سندھ اول نمبر پر ہے پھر پنجاب۔ پاکستان اپنی گنے کی پیداوار کا 75 فی صد چینی پیدا کرتا ہے۔ اس مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ گنے کی پیداوار میں 15 فی صد کمی ہوئی ہے۔ اگرچہ چینی کی پیداوار تو کم نہیں ہے لیکن کارخانے دار چینی فروخت کرنے کے بجائے اس کو اسٹورکرنے میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ نئے کرشنگ کے آغاز میں اگر اسٹاک کو روک لیتے ہیں تو ایک طرح کی غیر حقیقی قلت پیدا ہو جاتیہے۔ مارکیٹ میں چینی کی کمی سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا، گزشتہ کئی مہینوں سے ایسا ہو رہا ہے۔پاکستان کو چینی کا ایک بڑا خریدار ملک بنگلہ دیش حال ہی میں ملا ہے اور گزشتہ دنوں وہاں کی بندرگاہ چٹاگانگ میں 26 ہزار میٹرک ٹن چینی لے کر 53 سال بعد پہلا پاکستانی بحری جہاز لنگرانداز ہو چکا تھا۔ گنے کے علاوہ پاکستان میں چقندر سے بھی چینی بنائی جاتی ہے اور اس سال ایک لاکھ ٹن چینی بنائی گئی۔ کل چینی کی پیداوار 59 لاکھ ٹن پاکستانی صارفین کی ضرورت کے لیے ناکافی نہیں ، اس کے ساتھ کچھ مقدار برآمد کرکے چینی کے برآمدی ممالک میں اپنا نام لکھوائے رکھ سکتے ہیں۔ ان تمام کے باوجود اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، مارکیٹ میں چینی کی کمی یا شارٹیج ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے یا چینی کی۔ اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ ہے ناجائز منافع کمانا، ذخیرہ اندوزی کرنا، مصنوعی قلت پیدا کر کے فی کلو قیمت میں مسلسل اضافہ کیے جانا۔ حکومت چینی کی قیمت کو پچھلی سطح پر لے جانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے