اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے زخم آج بھی تازہ ہیں , شہدا پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طر یقہ نیشنل ایکشن پلان پر بلاخوف و خطر عمل درآمدکرنے میں ہے , آرمی پبلک سکول پشاور کے عظیم اور بہادر بچوں، اساتذہ کرام اور دیگر شہداکی فیملیز کا درد میں اچھی طرح محسوس کر سکتا ہوں ,یاد رہے کہ میں شہید مظہر علی مبارک کا بھائی ہوں جو 25 دسمبر 2013 کو ایک دہشت گردانہ حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے
پاکستان 2001 ء سے دہشت گردی کا شکارہےتاہم 16دسمبر 2014ء کو جب دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تو عسکری و سیاسی قیادت اور قوم دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے یکجا ہو گئے تھےاور اس مقصد کے لیےنیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیاتھا نیشنل ایکشن پلان کے نکات سے عوام کو آگاہی ضروری ہے تاکہ عوام ملی وقومی جذبے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی تائید میں حکومتی و عسکری قیادت کے ساتھ مل کر اپنا فعال کردار ادا کر یں۔
بلاشبہ نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے خلاف روڈ میپ ہے
2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کی سکیورٹی کا منظرنامہ نمایاں طور پر بدل گیا جس کے پیشِ نظر ایک نظرثانی شدہ 14نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھاجس نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک فراہم کیاتھا,
پاکستان کی مسلح افواج روزانہ کی بنیاد پر مادر وطن کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں جبکہ دوسری طرف بدقسمتی سے سابقہ دورحکومت میں سیاسی قیادت پاکستان کے ساتھ وفادار نہیں تھی، سیاسی قیادت نے دہشت گردوں سے ہاتھ ملایا پاکستان کو دہشت گرد عناصر سے مسلسل خطرے کا سامنا ہے جنکو پاکستان مخالفین کی مسلسل حمایت ہے 16 دسمبر عزم، یکجہتی اور محفوظ مستقبل کی تجدید کا دن ہے۔ آرمی پبلک سکول حملے کی برسی کہ زخم آج بھی تازہ ہیں صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے کوئی بات نہیں ہوگی۔
آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کی 11 ویں برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے اے پی ایس شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قوم معصوم بچوں کی قربانی قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی، اے پی ایس کے متاثرہ خاندانوں کے حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں، شہداء کی یاد ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا عزم غیر متزلزل ہے، دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور مالی معاونین سے کوئی نرمی نہیں ہوگی، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے کوئی بات چیت ممکن نہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہیں، پاکستان دشمن عناصر کو بے نقاب کرتا رہے گا، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، ہر دہشت گرد اور سہولت کار کا پیچھا کیا جائے گا، امن کے دشمنوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے
اپنے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج ہم سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، جنہوں نے وطنِ عزیز کے مستقبل کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہ دلخراش سانحہ پوری قوم کیلئے ایک عظیم آزمائش تھا، جس نے ہمارے دلوں کو غم سے بھر دیا مگر ہمارے حوصلے پست نہ کر سکا۔اے پی ایس کے معصوم بچوں، اساتذہ اور عملے کی قربانیاں ہمیشہ ہماری قومی یادداشت کا حصہ ہیں اور پاکستان کی سر زمین سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہی اس سانحے کا حقیقی انصاف ہے، پوری قوم شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے اور ہم ان کے صبر و استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج جب پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے ناسور کا سامنا کر رہا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو سانحۂ اے پی ایس ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی، ریاست، سکیورٹی ادارے اور عوام متحد ہو کر دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے تحت پوری قوت کے ساتھ بھرپور کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے دی گئی یہ عظیم قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے تمام شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل دے۔ آمین۔دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ کا کہناہے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کی قربانی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے قومی عزم کی ایک روشن اور ناقابلِ فراموش علامت ہے، پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف مسلسل فیصلہ کن اور مؤثر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، دہشتگردی کے باعث پاکستان میں اب تک 90 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم نے امن و سلامتی کیلیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یہ قربانیاں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار اور غیر متزلزل عزم کی زندہ یاد دہانی ہیں، پاکستان کی قربانیوں نے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پورے خطے اور اس سے باہر بھی بے شمار قیمتی جانیں بچائی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی سانحہ اے پی ایس کے معصوم شہداء کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔اپنے پیغام میں محسن نقوی نے کہا کہ بہادر طلباء کے عزم، حوصلے اور عظیم قربانی کو سلام پیش کرتا ہوں، سانحۂ اے پی ایس پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک اور سیاہ ترین باب ہے جس نے دہشت گردی کے سفاک اور بے رحم چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ان کا کہنا تھا کہ 16 دسمبر 2014 کو درندوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر ریاستِ پاکستان اور قوم کے مستقبل پر براہ راست حملہ کیا، اے پی ایس کے معصوم شہداء کی عظیم قربانی نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ایک واضح، فیصلہ کن اور غیر متزلزل قومی راستہ دکھایا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ شہداء کے پاکیزہ خون نے یہ فیصلہ ہمیشہ کیلئے ثبت کر دیا کہ دہشتگردی کے خلاف اب کسی ابہام یا مصلحت کی کوئی گنجائش نہیں، اسی قومی عزم کی بنیاد پر ریاستِ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف ہمہ جہت، مربوط اور مسلسل کارروائیوں کا آغاز کیا، ریاست واضح کر چکی ہے کہ دہشتگردی چاہے کسی نام، کسی نعرے یا کسی جھنڈے کے تحت ہو، ہر صورت ناقابل قبول ہے۔محسن نقوی کا مزید کہنا تھا کہ فتنہ الہندوستان اور سہولت کاروں کا مکمل خاتمہ ریاست کا دوٹوک اور حتمی فیصلہ ہے، پاکستان کا واضح اور مضبوط اعلان ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم شہدا کو ان کی 11ویں برسی کے موقع پر خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔سپیکر سردار ایاز صادق نے اپنے بیان میں سانحہ اے پی ایس کو پاکستان کی تاریخ کا ایک دلخراش اور ناقابلِ فراموش واقعہ قرار دیا۔ انہوں نےدہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد اور مشترکہ عزم کی تجدید کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اے پی ایس کے شہدا کی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد اور عزم کی علامت ہیں اور اس سانحے نے پوری قوم کو انتہاپسندی کے خلاف متحد کیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے شہدا کے لواحقین کےصبر و استقامت کو پوری قوم کے لیے باعثِ حوصلہ قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پارلیمان مؤثر قانون سازی کی بھرپور حمایت جاری رکھے گی۔ سردار ایاز صادق نے مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ ادارے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سردار ایاز صادق نے بلوچستان کے شہر خضدار میں سکول بس پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی اور کیڈٹ کالج وانا پر حملہ ناکام بنانے پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ 16 دسمبر عزم، یکجہتی اور محفوظ مستقبل کی تجدید کا دن ہے۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی برسی کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ اے پی ایس کے شہدا کی عظیم قربانیاں قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی، 16 دسمبر 2014ء پاکستان کی تاریخ کا نہایت دردناک اور آزمائش کا دن تھا جس نے پوری قوم کو غم اور دکھ میں مبتلا کر دیا۔سینیٹ سیکرٹریٹ سے جاری پیغام کے مطابق چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے معصوم طلبہ اور اساتذہ نے علم، امن اور انسانیت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہ قربانیاں ہماری قومی تاریخ کا روشن باب ہیں اور ہمیشہ عزت و عقیدت سے یاد رکھی جائیں گی۔چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس نے دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد کو مزید مضبوط کیا اور اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے قومی یکجہتی اور مشترکہ جدوجہد ناگزیر ہے۔ انہوں نے مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیاں پوری قوم کے لیے باعثِ فخر ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دشمن عناصر کے ناپاک عزائم قوم کے پختہ عزم کے سامنے مسلسل ناکام ہو رہے ہیں، دہشتگرد کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ریاست کی جدوجہد جاری رہے گی۔انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب یا قوم نہیں، دہشتگرد انسانیت کے دشمن ہیں۔انہوں نے کہا کہ معصوم بچوں کو نشانہ بنانا انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے جس کی پاکستان بھرپور مذمت کرتا ہے، دہشتگردی عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو مشترکہ اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعلیم، برداشت، رواداری اور قانون کی بالادستی ناگزیر ہے۔ انہوں نے اے پی ایس کے شہدا کے اہلِ خانہ سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے غم میں پوری قوم برابر کی شریک ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ اے پی ایس کے شہدا کی قربانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور قوم انہیں کبھی فراموش نہیں کرے گی وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خاں نے کہا ہے کہ ہ 16 دسمبر کو اے پی ایس پر حملہ سابق حکومت نے تو بھلا دیا تھا لیکن ہم شہید ہونے والے بچوں کے بہن بھائیوں کو محفوظ مستقبل دے رہے ہیں، 16 دسمبر اس بات کی بھی یاد دلاتا ہے کہ پاکستان مخالف قوتوں کا سر کچلنا ہے انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے، عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کا اعتراف کرے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعاون کو فروغ دے۔۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی برسی پر اپنے خصوصی پیغام میں کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس کے بہادر والدین اور خاندان کو سلام پیش کرتی ہوں، سانحہ اے پی ایس میں معصوم بچوں کی قربانی کو کبھی بھولا نہیں جا سکتا۔ اے پی ایس کے معصوم بچوں، اساتذہ اور عملے کی قربانیاں بہادری کی مثال ہے۔مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا عزم غیر متزلزل ہے، افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت ملک کا مستقبل روشن ہے، سانحہ اے پی ایس کے بچوں کی عظیم قربانی کو رائیگاں نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے آرمی پبلک سکول پشاور کے عظیم اور بہادر بچوں، اساتذہ کرام اور دیگر شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم آج بھی ان قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے ملک کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب رقم کیا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس نہ صرف شہدا کی یاد کو تازہ کرنے کا دن ہے بلکہ اس عہد کی تجدید کا موقع بھی ہے کہ وطنِ عزیز کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دی جائے گی مگر مادرِ وطن پر کبھی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ میر سرفراز بگٹی نے واضح کیا کہ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں، اساتذہ کرام اور سکیورٹی اہلکاروں کا خون ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا، اور ان کی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس نے بزدل، انسانیت سے عاری اور درندہ صفت دہشت گردوں کے مکروہ چہروں کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا جو نہ بچوں کو بخش سکے اور نہ ہی انسانیت کی کوئی رمق رکھتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جدوجہد پوری قوت کے ساتھ جاری ہے اور ان شاء اللہ اس میں فتح پاکستان اور پاکستانی عوام کا مقدر بنے گی۔ میر سرفراز بگٹی نے مادرِ وطن کے تحفظ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے سکیورٹی فورسز کے عظیم جوانوں کو ملک و قوم کے ہیرو اور محسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیاں قوم کے حوصلے اور اتحاد کی علامت ہیں۔گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہناہے کہ پوری دنیا اے پی ایس شہداء کی قربانیاں یاد رکھے گی سانحہ اے پی ایس پشاور میں ایک سیاہ دن تھا، دہشتگردوں نے ہمارے ننھے بچوں کو شہید کیا۔ اے پی ایس کے بچوں نے امن کے لیے قربانیاں دیں، پوری دنیا اے پی ایس شہداء کی قربانیاں یاد رکھے گی، آج پھر صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی ہے۔ بھر پور یکجہتی کے ساتھ ملک میں امن کے لیے کام کرنا ہو گا، ملک میں امن کے لیے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو ایک ہونا ہو گا۔ گورنر خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ وانا کیڈٹ کالج میں بھی دہشت گردوں نے اے پی ایس جیسے حملے کی کوشش کی، سکیورٹی فورسز نے وانا کیڈٹ کالج حملے کو کامیابی سے ناکام بنایا۔یاد رہے کہ آج سے 11 سال قبل 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور پر سفاک دہشتگردوں نے حملہ کرکے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کر دیا۔یہ دن نہ صرف ان معصوم شہداء کے خاندانوں کےلیے بے پناہ درد اور غم کا باعث بنا بلکہ اس ہولناک واقعے نے ہر پاکستانی کے دل کو زخمی کر دیا۔مسلح دہشت گردوں کے اس حملے نے جس میں پرنسپل اے پی ایس سمیت تقریباً 147 طلباء اور اساتذہ شہید اور کئی زخمی ہوئے، پوری قوم کو سوگوار کر دیا تھا۔ملک کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر جانے والا 16 دسمبر 2014 شریف گل کے خاندان کےلیے ایک خوفناک دن تھا جن کا بڑا بیٹا حسنین شریف جو اے پی ایس پشاور کا دسویں جماعت کا طالب علم تھا، 132 دیگر طلباء کے ساتھ اس ہولناک حملے میں شہید ہوا. شریف گل نے بتایا کہ 11 سال پہلے اس دن میرا بڑا بیٹا حسنین شریف جسے ایس ایس جی کمانڈو کے طور پر پاک فوج میں شامل ہونے کا شدید شوق تھا، صبح سویرے بیدار ہوا، نمازِ فجر ادا کی، روزانہ کے معمول کے مطابق قرآن پاک کی تلاوت کی اور اپنی ماں سے ماتھے پر الوداعی بوسہ لے کر اسکول کے لیے روانہ ہوا۔انہوں نے کہا حسنین میرا فرمانبردار اور ذہین بیٹا تھا۔اس کی خواہش پوری کرنے کےلیے میں خاندان کے ساتھ پشاور منتقل ہوا اور اسے اے پی ایس میں داخل کرایا جہاں اس نے تعلیم، کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں میں شاندار کارکردگی دکھائی۔شریف گل نے بتایا اس وقت میں پشاور میں دفتر کے معمول کے کاموں میں مصروف تھا جب ساتھیوں نے حملے کی اطلاع دی ،میں فوراً ورسک روڈ کی طرف بھاگا جہاں فائرنگ، دھماکوں اور بارود کی بو پھیلی ہوئی تھی۔رات گئے مجھے بتایا گیا کہ حسنین شہید ہو چکا ہے اور اس کی میت اسپتال میں ہے جہاں سے اسے تدفین کے لیے لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ حسنین آج ہمارے ساتھ نہیں ہے لیکن اس کا عظیم مشن مکمل کیا جائے گا۔۔
پاکستان ہمارا ملک ہے اور اگر اسے میرے خون یا مزید بیٹوں کی ضرورت پڑی تو ہم اپنے وطن کےلیے قربانی دینے کو تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس دہشت گردی کے خلاف قوم کے عزم میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور اس نے سب کو دہشت کے خلاف متحد کر دیا۔اے پی ایس حملہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے تکلیف دہ واقعات میں سے ایک ہے جب فوجی وردی میں ملبوس چھ دہشت گردوں نے اسکول میں داخل ہو کر طلباء، اساتذہ اور عملے پر اندھا دھند فائرنگ کی. نتیجے میں پرنسپل طاہرہ قاضی سمیت 147 افراد شہید ہوئے جن میں 132 طلباء شامل تھے اور کئی زخمی ہوئے۔پرنسپل طاہرہ قاضی اور دیگر اساتذہ اپنے طلباء کی حفاظت کےلیے دہشت گردوں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہو گئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا.
پاکستان کی بہادر سیکورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسکول کا محاصرہ کیا اور کامیاب آپریشن میں تمام دہشت گردوں کو ہلاک کرکے کئی طلباء اور اساتذہ کی قیمتی جانیں بچائیں۔مسلم لیگ (ن) نوشہرہ کے صدر حمزہ خان نے اے پی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اے پی ایس حملے نے ملک کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن لمحے کی حیثیت اختیار کی جس نے پوری قوم کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے ناسور کے خلاف متحد کر دیا. انہوں نے کہا کہ بزدل دہشت گرد اسکول میں طلباء پر حملہ کرکے علم اور تعلیم کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ قوم کے حوصلے پست نہ کر سکے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے دہشت گردی کو مسترد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ حملے کے محض چند دن بعد اسکول دوبارہ کھول کر دہشت گردوں کے حامیوں کو ایک مضبوط پیغام دیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک واضح پالیسی اور متفقہ پلان کا سبب بنا. اے پی ایس کے زندہ بچ جانے والے طلباء نے اپنی ہمت اور لگن سے ملک کا نام روشن کیا۔پشاور کا بہادر سپوت احمد نواز جو 16 دسمبر 2014 کے اس سانحے میں زندہ بچے تھے، 2023 میں مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے سب سے کم عمر صدر بن کر ہزاروں لوگوں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔احمد نواز جو حملے میں متعدد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے، نے اپنے دو حریفوں کو شکست دے کر یہ انتخاب جیتا۔اس حملے میں ان کا بھائی حارث نواز بھی شہید ہوا تھا۔پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر زاہد انور نے کہا کہ احمد نواز پاکستان کا بہادر سپوت ہیں اور وہ غیر متزلزل ہمت اور ارادے کی علامت ہیں۔ ان کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ مضبوط عزم سے کوئی بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس وقت کی نواز شریف حکومت نے احمد نواز کو علاج کےلیے 12 فروری 2015 کو برطانیہ کے کوئین الزبتھ ہسپتال منتقل کیا تھا اور ان کے والد کو بیٹے کے علاج کےلیے 30.6 ملین روپے فراہم کیے تھے۔سانحے کو 11 سال گزرنے کے باوجود اس سانحے کی یادیں ہر پاکستانی کے ذہن میں تازہ ہیں۔اس سانحے کے شہداء کی قربانیوں کو ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔اس موقع پر لوگوں اور رشتہ داروں نے شہداء کے گھروں اور قبرستانوں میں جا کر فاتحہ خوانی کی اور ان کے درجات کی بلندی کےلیے دعائیں کیں۔ 16 دسمبر 2014ء کو سفاک دہشتگردوں آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم طلبہ پر حملہ کرکے 132 بچوں، خواتین اساتذہ اور سٹاف سمیت 147 افراد کو شہید کر دیا تھا، سانحہ اے پی ایس کا درد ہر والدین اور پوری قوم کا درد ہے، یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیاتھا کہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔
پاک فوج کے جوان تھوڑی ہی دیر میں سکول پہنچے اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے تمام حملہ آوروں کو جہنم واصل کر دیا، اس کرب ناک دن کے اختتام پر پشاور کی ہر گلی سے جنازہ اٹھا، ڈیڑھ سو کے قریب شہادتوں نے پھولوں کے شہر کو آہوں اور سسکیوں میں ڈبو دیاتھا۔
اسی دن نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی بنیاد رکھی اور ملک بھر میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا، دہشتگرد مسلسل افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے معصوم شہریوں کونشانہ بناتے ہیں۔
آج بھی پاکستان کی افواج اور عوام افغان دہشتگردوں سے نبرد آزما ہیں، ایک بار پھر پوری قوم کو مل کر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ پاک سرزمین کو سب کیلئے محفوظ اور جنت نظیر بنایا جا سکے۔
دہشت گردوں کو افغانستان میں ٹریننگ دی گئی تھی، جو کہ آتشیں ہتھیار بھی افغانستان سے لے کر آئے تھے، 16 دسمبر 2014ء کو سفاک دہشت گرد صبح 11 بجے سکول میں داخل ہوئے اور معصوم بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، خوارج نے بچوں کو چن چن کر قتل کیا۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے گھناؤنے دہشت گرد حملے کی برسی کے موقع پر پاکستان ان معصوم بچوں اور اساتذہ کو یاد کرتا ہے جو سراسر غیر انسانی فعل میں شہید ہوئے تھے۔
شہداء کی قربانیاں دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں شکست دینے اور اس کا مقابلہ کرنے کے قوم کے عزم کی لازوال علامت کے طور پر کھڑی ہیں۔
جیسا کہ ہم شہداء کو یاد کرتے ہیں، یہ المناک برسی دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کی مسلسل عجلت کو واضح کرتی ہے,
پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، جس نے 90,000 سے زیادہ جانیں گنوائی ہیں اور بے پناہ معاشی اور سماجی اخراجات برداشت کیے ہیں۔
یہ قربانیاں پاکستان کے فرنٹ لائن کردار اور انسداد دہشت گردی کے لیے غیر متزلزل عزم کی لازوال یاد دہانی بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے نہ صرف پاکستانیوں کی بلکہ خطے اور اس سے باہر کے لوگوں کی بھی لاتعداد قیمتی جانیں بچائی ہیں ۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن اور موثر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو سرحد پار سے سرگرم دہشت گرد عناصر سے مسلسل خطرے کا سامنا ہے، جس میں ہمارے مخالفین کی مسلسل حمایت ہے۔ ہم نے اس چیلنج کی طرف مسلسل توجہ مبذول کرائی ہے اور دہشت گردی کو اپنی سرزمین میں پھیلنے سے روکنے کے لیے پرعزم اقدامات کیے ہیں۔
پاکستان نے اپنی سرحدوں سے باہر دہشت گردی کے پھیلاؤ کے خلاف ایک مضبوط کردار کے طور پر کام کیا ہے، جس نے وسیع خطے اور اس سے باہر کی سلامتی اور استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے اور پاکستان کو نشانہ بنانے والوں سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کی ہر قسم کی حمایت کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس کارروائی کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے۔
جیسا کہ پاکستانی اے پی ایس کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، پاکستان اپنے لوگوں کے تحفظ، اپنی خودمختاری کے دفاع، اور اتحاد، لچک اور دہشت گردی کے خلاف غیر سمجھوتہ کرنے والے موقف کے ذریعے دیرپا امن کے اپنے وژن کو آگے بڑھانے کے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتا ہے، چاہے اس کی اصل کوئی بھی ہو,