اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) قدرتی آفات دنیا کے ہر خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ پاکستان، خصوصاً جنوبی پنجاب، ان علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں بار بار سیلاب اور طوفانی بارشوں کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کبھی دریاؤں کی طغیانی اور کبھی ندی نالوں کی بپھری ہوئی لہریں یہاں کی زندگی کو مفلوج کر دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان آفات کے وقت ریاستی ادارے اور انتظامی مشینری کس حد تک بروقت اور مؤثر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
حال ہی میں جلالپور پیروالہ کے نواحی علاقوں میں آنے والی سیلابی صورتحال نے ایک بار پھر یہ سوال اجاگر کر دیا۔ کئی دیہات زیرِ آب آ گئے، سینکڑوں خاندان بے گھر ہوئے اور روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ایسے میں یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ ملتان کے کمشنر رانا عامر کریم خاں، ڈپٹی کمشنر ملتان، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اعلیٰ حکام اور پولیس افسران رات بھر فیلڈ میں موجود رہے۔ امدادی کارروائیاں جاری رہیں، لوگ محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے اور ریلیف کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے: کیا یہ انفرادی قیادت کا نتیجہ ہے یا ہمارے نظام میں واقعی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر آنے والی آفات سے نمٹ سکے؟
یہ خطہ زرخیز زمینوں اور دریاؤں کا علاقہ ہے، مگر یہی دریاؤں کی قربت اکثر خطرہ بھی بن جاتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں جنوبی پنجاب میں آنے والے سیلاب لاکھوں افراد کو متاثر کر چکے ہیں۔ مکانات تباہ ہوئے، کھڑی فصلیں برباد ہوئیں اور بنیادی ڈھانچہ شدید نقصان کا شکار ہوا۔ ان تجربات کے باوجود آج بھی یہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا ریاست نے ماضی سے سبق سیکھا ہے یا نہیں۔
حالیہ سیلاب کو مقامی آبادی نے 2010 کے بعد سب سے سنگین صورتحال قرار دیا۔ متاثرین کے مطابق پانی تیزی سے بڑھنے کے باعث ابتدائی گھنٹے سب سے کٹھن تھے۔ ریسکیو 1122 اور انتظامیہ کی ٹیموں نے کشتیوں اور دیگر ذرائع کے ذریعے لوگوں کو نکالا۔ بچوں اور بزرگوں کو کندھوں پر اٹھا کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔ عوام نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ادارے بحران کے وقت اتنی تیزی سے حرکت میں آ سکتے ہیں تو عام دنوں میں یہی نظام سست روی اور مسائل کا شکار کیوں رہتا ہے۔
قدرتی آفات کے دوران قیادت کی موجودگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کمشنر ملتان رانا عامر کریم خاں متاثرہ علاقوں میں موجود رہے اور براہِ راست امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔ ان کی موجودگی نہ صرف انتظامیہ کے لیے دباؤ کا باعث تھی بلکہ عوام کے اعتماد میں اضافے کا سبب بھی بنی۔ کئی متاثرہ خاندانوں نے کہا کہ ایک اعلیٰ افسر کا اس طرح ان کے درمیان کھڑا ہونا ان کے لیے حوصلے اور اعتماد کی علامت تھا۔ اس سوال کی گنجائش مگر اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا یہ رویہ ہمارے نظام کا مستقل حصہ ہے یا محض ایک افسر کی ذاتی وابستگی؟
2005 کے زلزلے کے بعد پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی سطح کے ادارے قائم کیے گئے تاکہ آفات کے وقت ایک مربوط اور منظم ردعمل سامنے آ سکے۔ کاغذی طور پر یہ نظام مؤثر دکھائی دیتا ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اکثر ادارے وسائل کی کمی، افرادی قوت کی کمی اور بروقت منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث پوری صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کر پاتے۔ متاثرین کی بڑی شکایت یہی رہی کہ ابتدائی ریلیف میں تاخیر ہوئی اور کئی خاندان گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں تک امداد کے منتظر رہے۔
اس کے برعکس خطے کے دیگر ممالک نے اس شعبے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ بنگلہ دیش نے مقامی سطح پر کمیونٹی بیسڈ ریلیف ٹیمیں قائم کی ہیں اور الرٹ سسٹم کو اتنا مؤثر بنایا ہے کہ خطرے کی صورت میں بروقت نقل مکانی ممکن ہو جاتی ہے۔ بھارت نے نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کے ذریعے ایک تربیت یافتہ ادارہ قائم کیا ہے جو سیلاب، زلزلہ اور دیگر آفات میں فوری حرکت میں آتا ہے۔ پاکستان میں اکثر اقدامات وقتی ردعمل پر مبنی ہوتے ہیں۔ بحران کے وقت سرگرمیاں تیز نظر آتی ہیں، لیکن جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں، منصوبے اور وعدے پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
قدرتی آفات کے دوران عوامی اعتماد سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ جلالپور پیروالہ میں متاثرین نے انتظامیہ کی موجودگی کو تسلی بخش قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ عارضی امداد کافی نہیں۔ اصل ضرورت طویل المدتی منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی ہے تاکہ ہر سال یہی آزمائش دوبارہ نہ دہرائی جائے۔
پاکستان کے نظام کو کئی بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے پہلے وسائل کی کمی ہے، آلات، کشتیاں، ایمبولینسیں اور دیگر فوری سہولتیں ناکافی ہیں۔ دوسرا چیلنج اداروں کے درمیان مربوط رابطے کا فقدان ہے، جس کے باعث کئی بار امدادی کاموں میں تاخیر ہوتی ہے۔ تیسرا مسئلہ عوامی آگاہی کی کمی ہے۔ اکثر دیہات اور قصبات کے باسیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہنگامی حالات میں کہاں جانا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے۔ چوتھا اور سب سے حساس مسئلہ امداد کی تقسیم میں سیاسی اثرات کا عمل دخل ہے، جو عوامی اعتماد کو مزید مجروح کرتا ہے۔
یہ تمام عوامل اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ کیا پاکستان کا موجودہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام مستقبل کے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگرچہ انفرادی قیادت کی مثالیں، جیسے کہ رانا عامر کریم خاں کا موجودہ کردار، حوصلہ افزا ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نظامی سطح پر اصلاحات کے بغیر یہ کوششیں دیرپا اثرات مرتب نہیں کر سکتیں۔
قدرتی آفات کے خلاف جنگ محض چند افسران یا اداروں کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ جلالپور پیروالہ کا واقعہ یہ دکھاتا ہے کہ قیادت اور ریاستی ادارے جب فیلڈ میں موجود ہوں تو عوامی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طویل المدتی اصلاحات اور منصوبہ بندی کے بغیر ایسے اقدامات صرف وقتی ریلیف فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ فوری ردعمل کو ایک پائیدار اور مؤثر نظام میں بدل سکے، تاکہ ہر قدرتی آفت کے بعد یہی سوال دوبارہ نہ اٹھے کہ ہم نے ماضی سے کیا سیکھا۔