اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) قدرتی آفات میں این ڈی ایم اے کردار ادا نہیں کر پا رہا ہے چین نے موسم کی پیش گوئی کے طریقہ کار اور اس حوالے سے عوامی آگاہی کو بہتر بنا کر قدرتی آفات کے خلاف واضح کامیابی حاصل کی ہے، چین کو اب بھی سیلاب کا سامنا ہے لیکن نقصانات بتدریج کم ہو رہے ہیں،
یہ یاد رکھیں کہ پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو قدرتی آفات کے دوران اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں ناکافی فنڈنگ، دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ ناکافی ہم آہنگی، اور طویل مدتی آفات کے خطرے میں کمی پر توجہ نہ دینا شامل ہیں۔
این ڈی ایم اے کا بجٹ اکثر قدرتی آفات کے پیش نظر پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری اور ردعمل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے بیرونی فنڈنگ پر انحصار عطیہ دہندگان کی ترجیحات کا باعث بن سکتا ہے اور طویل مدتی، پائیدار ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی حکمت عملیوں کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
ایسی مثالیں ہیں جہاں این ڈی ایم اے کے قائم کردہ نظام اور مواصلاتی چینلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آفات کے ردعمل کے دوران موثر رابطہ کاری کا فقدان ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ خیبر پختونخوا میں حالیہ ہلاکت خیز بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث پیر تک کم از کم 325 افراد جاں بحق اور 156 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ ملک بھر میں جون کے اواخر سے بارشوں سے متعلقہ واقعات میں اموات کی تعداد 657 تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری طرف قدرتی آفات کے وقت قوم کی پکار پر لبیک کہنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان ایئر فورس نے خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاری امدادی کارروائیوں میں اہم مدد فراہم کی ہے
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق ایک این جی او کی جانب سے 48 ٹن امدادی سامان ایئر ایگل B-737 طیارے کے ذریعے کراچی سے پشاور پہنچایا ہے اس حوالے سےایک ہوائی پل قائم کرکے، پی اے ایف نے بونیر اور شانگلہ کے سیلاب زدہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں میں مدد کے لیے فوری طور پر درکار سامان کی تیز رفتار نقل و حمل کو یقینی بنایا ہے تاکہ ضروری خشک راشن پر مشتمل کھیپ متاثرہ خاندانوں میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ قریبی تال میل میں تقسیم کی جائے گی یہ انسانی ہمدردی کا مشن پاکستان ایئر فورس کے قوم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے مستقل عزم کی عکاسی کرتا ہے، جوکہ نہ صرف ملک کی فضائی سرحدوں کی حفاظت میں بلکہ بحران کے وقت ہم وطنوں کو بروقت مدد فراہم کرنے میں بھی آگےہے
یہ یاد رکھیں کہ اس سے پہلےلیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ مون سون کے اثرات اگست کے آخر تک خطرناک رہیں گے اور صورت حال ستمبر کے آخر تک معمول پر آنے کی توقع ہے ملک کو مزید شدید بارشوں کے 2 سے 3 اسپیلز کا سامنا ہوسکتا ہے، جو 10 ستمبر تک جاری رہ سکتے ہیں۔ لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے، اور اگر نہ ملے تو ان کے نام بھی سرکاری اموات میں شامل کیے جائیں گے۔ 425 سے زائد ریلیف کیمپ قائم کیے جاچکے ہیں جہاں بنیادی ضروریات اور طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ بے گھر خاندانوں کو سرکاری عمارتوں، بشمول اسکولوں میں بھی پناہ دی گئی ہے۔ وزیراعظم کے راشن پروگرام کے تحت کھانے کی تقسیم بھی جاری ہے، جو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کی جا رہی ہے۔ پاک فوج کے خصوصی یونٹس کو آرمی چیف کی ہدایت پر تعینات کیا گیا ہے، اور شدید زخمی افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ فیلڈ ایمبولینسز مریضوں کو منتقل کر رہی ہیں اور بڑے اسپتال پوری طرح متحرک ہیں۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی ) ہائی الرٹ پر ہے اور ریلیف سرگرمیوں کے لیے مسلسل ڈیٹا فراہم کر رہا ہے۔ پاک فوج کی ایوی ایشن بیسز نے بھی ایمرجنسی انخلا کے لیے ریزرو سسٹم فعال کر دیے ہیں تاکہ جاری مون سون ایمرجنسی کے دوران بروقت مدد فراہم کی جا سکے۔
مزید یہ کہ خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلابی ریلوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کے بعد صوبائی حکومت نے متاثرہ اضلاع کے لیے 80 کروڑ روپے کے امدادی فنڈز جاری کیے، سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر کے لیے اضافی 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ بونیر کے لیے الگ سے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جہاں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق بونیر میں 217 افراد جاں بحق اور 120 زخمی ہوئے۔ بونیر کے بعد سب سے زیادہ نقصان شانگلہ میں ہوا، جہاں 15 اگست سے اب تک سیلاب اور چھتیں گرنے کے واقعات میں 36 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں کم از کم 95 مکانات کو نقصان پہنچا، جن میں سے 55 مکمل طور پر تباہ ہوگئے، جبکہ کئی اسکول بھی جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ مانسہرہ اور باجوڑ میں بالترتیب 24 اور 21 اموات اور 5،5 زخمیوں کی اطلاع ملی۔ سوات میں 17 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوئے، تاہم انفرااسٹرکچر کو سب سے زیادہ نقصان سوات ہی میں ہوا، جہاں 219 مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ اور 163 مویشی ہلاک ہوئے۔ لوئر دیر میں سیلاب اور آسمانی بجلی گرنے سے 5 افراد جاں بحق اور 3 زخمی جبکہ 100 مویشی ہلاک ہوئے۔ بٹگرام میں 3 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ نوشہرہ میں چھت گرنے سے 2 افراد کی جان گئی۔یہ یاد رکھیں کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر این ڈی ایم اے کے ہیڈ کوارٹر میں قومی و بین الاقوامی میڈیا کو خیبر پختون خواہ میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کر نے کیلئے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا بریفنگ میں جو اعدادشمار دکھائے گئے وہ اوورآل اپ ڈیٹڈ نہ تھےقابل غور حقیقت یہ ہے کہ چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے خود میڈیا کا سامنا کرنامناسب نہ سمجھا بلکہ ایکسپرٹ از خودایک دوسرے کی تصحیح کی خاطر پروٹوکول بھی بھول گے میڈیا بریفنگ کے دوران پی پی آئی ڈی کے سینئر افسر نے نہایت پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سوال جواب کا سیشن کنڈکٹ کرنے کی کوشش کی مگر گرین شرٹ اور پینٹ کورٹ میں ملبوس افسر باربار اپنی اہمیت جتلانے کی خاطر مداخلت کرتے نظر آئے ان کے ساتھ ایک بلیو کورٹ بلیو ٹائی اور بلیو شرٹ میں ملبوس نے ایک موقع پر مائیک ھم نیوز کے رپورٹر کے ہاتھ سے اس وقت لے لیا جب پی آئی ڈی کے افسر سوال کیلئے ر صحافی کا نام پکار چکے تھے ایک سینئر صحافی نے جب سوال کیا کہ کتنےفیصد پاکستان کا حصہ مون سون بارشوں کے سیلاب سے متاثر ہوا تو این ڈی ایم اے کے ذمہ دار ایک دوسرے کو دیکھنے لگ پھر بڑی سکرین پر حالیہ مون سون بارشوں کی تباہ کاریوں کا چارٹ دکھایا گیا تو صرف آزاد کشمیر اور کے پی کے کا ادھورا اعداد وشمار تھا جبکہ اتوار کی صبح تک خیبر پختون خواہ کے تمام اضلاع میں اموات اور تباہ کاریوں کی تفصیل میڈیا پر نمایاں کی جاچکی تھی, محکمہ موسمیات، سپارکو جیسے ادارے کے ذمہ داروں کی کمی بھی محسوس کی قارئین کرام جانتے ہیں کہ حالیہ مون سون بارشوں کے دوران اسلام آباد کے پوش علاقے میں سیلابی ریلے میں اباپ بیٹی کار سمیت ڈوب گئے جس کے کئی روز تلاش کے باوجود لڑکی کی نعش تاحال نہ مل سکی مزید یہ کہ نالہ کورنگ اور مضافاتی علاقے میں 2 نوجوان موٹر-سائیکل سیمت ڈبوے اور کئی بچوں کے ڈبونے کی خبر میڈیا نے رپورٹ کیں مگر پنجاب،سندھ بلوچستان اور اسلام آباد کو اعداد وشمار میں صفر دکھلایا گیااس دوران کسی بھی صحافی کا سوال کو آن ائیر نہیں کیا گیا جب آخر میں سینئر صحافی چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے گرد جمع ہوئے تو انہیں میڈیا سے دور کردیا گیاتجربہ بتاتا ہے کہ میڈیا کا نہ صرف آفات کے دوران بلکہ پہلے اور بعد کے مراحل میں بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک اچھی طرح سے قائم شدہ حقیقت ہے کہ ماس کمیونیکیشن سسٹمز خود کو مارکیٹ کے نظم و ضبط کے تحت منظم کرتے ہیں۔وہ خبروں کی اشیاء، مضامین، اداریے، فیچرز وغیرہ تیار کرتے ہیں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ میڈیا کو عوامی تحفظات اور مفادات کو سامنے رکھ کر عوامی مفاد کے ادارے کے طور پر کام کرنا ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کوششوں کے ساتھ میڈیا کے ہم آہنگی کو کمیونٹیز کو آگاہی اور بااختیار بنانے کے اقدامات پر مبنی ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ متعلقہ معلومات کے ساتھ عوامی کارروائی اور آفات کی تیاری اور تخفیف کی پالیسی پر اثر انداز ہوں, پاکستان میں سیلاب کی تباہی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کو جنگی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے، کیونکہ آفات سے نمٹنے کے لیے بروقت کارروائی کرنا ضروری ہے موجودہ آفت کی شدت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کرنا چاہیے۔ ٹارگٹڈ فنڈ ریزنگ کے لیے غیر ملکی سفارت خانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے اسی سلسلے میں یہ تجویز ہے کہ ڈیم فنڈ کے لیے جمع ہونے والے فنڈز ریلیف اور بحالی کے لیے جاری کیے جائیں۔ مختلف تنظیموں کے ذریعہ تمام خطرات کی نقشہ جات عوامی ڈومین میں ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ضرورتوں کی جانچ اور مستحقین کی شناخت کے لیے ضلعی سطح کی ٹیموں کو فعال بنایا جانا چاہیے۔متاثرین کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ایک رد عمل سے فعال انداز میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ آفات سے نمٹنے کے لیے غالب نقطہ نظر، جو کمیونٹی پر مبنی اقدامات کے لیے کوئی جگہ پیش نہیں کرتا – چونکہ یہ متاثرین کو مسئلے کے حصے کے طور پر دیکھتا ہے جس کے لیے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے – اس لیے تباہی سے نمٹنے کے لیےدرمیانی اور طویل مدتی تیاری بہترین ردعمل ہے۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے اس پر دھیان دینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہےپاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے موجودہ نظام کی جڑیں 2005 کے زلزلے کے ردعمل میں ہیں جس میں پرائیویٹ سیکٹر، سول سوسائٹی اور حکومتی ادارے شامل تھے۔ زلزلے کے بعد، پاکستانی حکومت نے قومی، صوبائی اور مقامی سطحوں پر آفات کی تیاری اور ردعمل کے لیے ذمہ دار ادارے بنائے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا مقصد قومی سطح پر پالیسی سازی اور رابطہ کاری کے لیے ذمہ دار ہونا تھا۔ صوبائی سطح پر، متعلقہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو ایک ایسا نظام قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو آفات اور آفات کے بعد فوری طور پر عمل میں آئے – آفات کے بارے میں روایتی نتیجے میں قدرتی سائنس اور لاگو سائنس کے نقطہ نظر سے متاثر ہوتا ہے۔ قدرتی سائنس کا نقطہ نظر خطرات اور خطرناک واقعات کو مساوی قرار دیتا ہے اور آفات کو بھی خطرات کے مترادف سمجھتا ہے۔ یہ جیو فزیکل اور ہائیڈرو میٹرولوجیکل عمل کی تحقیق پر زور دیتا ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی سرگرمیاں خطرات کی نگرانی اور خطرناک واقعات کی پیشین گوئی پر مرکوز ہیں۔یہ نقطہ نظر واضح ہے کہ خطرات قدرتی ہیں لیکن آفات نہیں, ۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی سرگرمیوں کے تمام سپیکٹرم سے نمٹنے کے لیے وفاقی سطح پر لیڈ ایجنسی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کا ایگزیکٹو ونگ ہے جسے وزیر اعظم کی سربراہی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے میں اعلیٰ ترین پالیسی ساز ادارے کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔ کسی آفت کی صورت میں، تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومتی وزارتیں/محکمے/تنظیمیں، مسلح افواج،این جی اوز ، اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ایک ونڈو آپریشن کرنے کے لیےاین ڈی ایم اے کے ذریعے کام کرتی ہیں , این ڈی ایم اے کا مقصد پائیدار آپریشنل صلاحیت اور پیشہ ورانہ اہلیت کو فروغ دینا ہے تاکہ قومی سطح پر ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کا مکمل سپیکٹرم۔ ملک میں تمام خطرات کا نقشہ بنانااور مستقل بنیادوں پر خطرے کا تجزیہ کرنا۔ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ میں ان کے کردار کے حوالے سے قومی اور صوبائی اسٹیک ہولڈرز کے لیے رہنما اصول اور معیارات تیار کرنا۔ خطرے سے دوچار علاقوں میں صوبائی، ضلعی اور میونسپل سطح پر ڈی ایم اتھارٹیز اور ایمرجنسی آپریشن سینٹرز کے قیام کو یقینی بنانا,ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے اقدامات کے لیے وفاقی وزارتوں، محکموں اور صوبائی ڈی ایم حکام کو تکنیکی مدد فراہم کرنا۔ اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے تربیت اور بیداری پیدا کرنے کی سرگرمیوں کا اہتمام کرنا تمام خطرات کے انتظام کے نقطہ نظر میں درکار بین شعبہ جاتی معلومات کو اکٹھا کرنا، تجزیہ کرنا اور پھیلانا, اس بات کو یقینی بنانا کہ ڈیزاسٹر ریسپانس رضاکار ٹیمیں تیار کرنے کے لیے مناسب ضابطے بنانا۔ DRM سرگرمیوں میں میڈیا کی شرکت کے لیے مطلوبہ ماحول پیدا کرنا,این جی اوز کے لیے لیڈ ایجنسی کے طور پر کام کرنا تاکہ ان کی کارکردگی کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں، جیسے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ذریعے قومی سطح کی تباہی کی صورت میں وفاقی حکومت کے ہنگامی ردعمل کو مربوط کرنا ہے۔ دوسری طرف سینیٹ اجلاس کے دوران سیلاب کے دوران این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر بحث ہوئی اور سینیٹ اجلاس میں سیلاب سے جاں بحق ہونےو الوں کے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔ سیلاب کی صورتحال کے حوالے سےسینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کے 63 اضلاع اس وقت خوفناک سیلاب کی وجہ سے کشمکش میں ہیں اگر ہاؤس متفق ہو تو ایک ہفتہ کی تنخواہیں سینیٹرز عطیہ کردیں۔ سیلابی صورتحال پر سینیٹ میں این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر بحث کےدوران سینیٹر محسن عزیز نے بحث پر تحریک پیش کی۔ سیلابی صورتحال میں وفاقی حکومت کی خاموشی چبھ رہی ہے، پورے پاکستان کو دل کھول کر سیلابی متاثرین کی امداد کرنی چاہیے، پاکستان میں فلیش فلڈز کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 400 سے زیادہ لوگ سیلاب میں جاں بحق ہوگئے، لوگوں کی جان و مال کا نقصان ہوا اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ ایسی صورتحال میں کم سے کم نقصان کےلئے اقدمات اٹھانے چاہیئں، بلڈنگ کوڈز سمیت دیگر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ قدرت کے ساتھ لڑائی نہیں لڑی جاسکتی، دریائی راستوں پر عمارتیں اور آبادیاں بنائی گئیں۔سینیٹر محسن عزیز نےکہا کہ این ڈی ایم اے کا احتساب نہیں ہوتا، سیلاب میں دی گئی امداد کا غلط استعمال ہوتا ہے عالمی طور پر امداد کے وعدے پورے نہیں ہوتے یا وہ قرضہ کی شکل میں آتے ہیں، این ڈی ایم اے 20 سال پہلے بنا مگر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔ دریائے سندھ کے کئی علاقوں پر قبضہ ہوچکا ہے، نالہ لئی،کورنگی سمیت کئی نالوں پر قبضے ہوچکے ہیں، دریاؤں اور نالوں پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جائے، اگر ان آپریشنز میں مقامی حکومتیں سپورٹ نہیں کرتیں تو فوج کو بلائیں سینیٹر روبینہ خالد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کےسیلابوں سے کیا سبق سیکھا؟ ماضی میں مالاکنڈ ڈویژن میں بھی سیلاب آیا، سیاحت کے نام پر دریا کی زمینوں پر ہوٹلز بنائے گئے اور ان ہوٹلز کو این او سی دیے گئے۔ قومی ایمرجنسی ڈیکلئیر کی جائے ہمارے بس کی بات نہیں۔ کہتے ہیں درخت لگائے، شاید جڑی بوٹیاں تھی، اب ٹمبر مافیا جنگلات کاٹ رہا ہے۔سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر مفصل بات ہونی چاہیے، صوبے میں اس وقت پیسوں کی بھی کمی ہے، حکومت کو چاہییے اس پر توجہ دیں۔ سینیٹرز کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ خیبر پختونخواہ صوبے میں آئیں اور وہاں کے حالات دیکھیں۔ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست ہے کہ صوبے کی عوام کی امداد کے لیے کام کیا جائے۔سینیٹر ایمل ولی خان نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آفات کا گڑھ بن چکا ہے، کلاؤڈ برسٹ یہ آفت ہے این ڈی ایم اے،پی ڈی ایم اے کیوں بنائے گئے؟ وفاقی حکومت نے ریسکیو کےپی کے کے اثاثے کیوں قبضہ کیے ہوئے ہیں؟ ہم سیلاب سے نہیں بچ پاتے تو کلاؤڈ برسٹ سے کیسے بچیں گے؟ انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے،پی ڈی ایم اے ناکام ہوچکے ہیں۔