تحریر عائشہ ملک
روشنی کا مسافر —
اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) گاؤں کی کچی گلیوں میں سورج ڈھل رہا تھا۔ مٹی کی خوشبو ہوا میں تیر رہی تھی اور کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ چبوترے پر بیٹھی بوڑھی اماں اپنی جھریوں بھری آنکھوں سے سڑک کی طرف دیکھ رہی تھی، جیسے کسی کا انتظار ہو۔ چند لمحوں بعد تحصیل کا سفید کاغذ ہاتھ میں پکڑے ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا، اور اماں کے سامنے رک گیا۔
“اماں! یہ تمہارا حصہ ہے… تحصیلدار صاحب نے کہا ہے کہ اب یہ زمین تمہاری ہے، کوئی تمہیں نہیں روک سکتا۔”
اماں نے کاغذ کو اپنے ہاتھوں میں تھاما، جیسے کوئی ماں برسوں بعد اپنے بچے کو گود میں لے۔ ان کی آنکھوں میں نمی تھی، لبوں پر دعا، اور دل میں سکون۔
یہ صرف اماں کی کہانی نہیں تھی۔ یہ سینکڑوں بہنوں، بیٹیوں، اور بیواؤں کی کہانی تھی جو برسوں اپنے حق سے محروم رہیں۔ ان کے لیے چوہدری شفقت محمود کسی سرکاری افسر سے بڑھ کر ایک روشنی کے مسافر بن گئے۔ ان کی کرسی کاغذوں کی طاقت کا نہیں، انصاف کی خدمت کا استعارہ تھی۔
گاؤں کے پرانے چوک میں اکثر لوگ کہتے، “بھائی، اب دفتر جانے میں ڈر نہیں لگتا۔ کام وقت پر ہو جاتا ہے، پیسے کی بات کوئی نہیں کرتا۔”
یہ جملہ آسان لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے وہ انقلاب چھپا تھا جو انہوں نے زمین کے انتقالات کے نظام میں برپا کیا۔ مہینوں کا سفر دنوں میں سمٹ گیا، رشوت کے دروازے بند ہوئے، اور کاغذی الجھنیں ایسے سلجھی جیسے برسوں سے بند گانٹھ ایک جھٹکے میں کھل جائے۔
دفتر کا منظر بھی بدل گیا تھا۔ وہ کمرہ جہاں کبھی لوگ سفارش کی پرچیاں ہاتھ میں پکڑے انتظار کرتے تھے، اب ایک ایسا مقام تھا جہاں قانون سب پر یکساں لاگو ہوتا۔ کسی کے لیے تیز راستہ نہیں، کسی کے لیے طویل راہ نہیں۔ ایک کسان کی فائل اور ایک زمیندار کی فائل ایک ہی قطار میں چلتی۔
کرپشن کے خلاف ان کا رویہ تیز ہوا کے جھونکے کی طرح تھا جو بند کمروں کو کھول دیتا ہے۔ ایک روز ایک بزرگ دفتر آئے اور کہا، “بیٹا، میں نے زندگی میں پہلی بار تحصیل کے دفتر میں آ کر سکون محسوس کیا ہے۔” یہ جملہ ان کے لیے کسی ایوارڈ سے کم نہ تھا۔
پھر وہ دن بھی آتا جب وہ خود کھیتوں میں اترتے، دھوپ میں چلتے، گاؤں کی چوپال میں بیٹھتے، اور کسی خاتون کو اس کا حق دیتے ہوئے کہتے، “یہ زمین تمہارا حق ہے… قانون نے دیا، دین نے دیا، اور آج یہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔” ان لمحوں میں انصاف صرف فیصلہ نہیں ہوتا، ایک احساس بن جاتا ہے — ایسا احساس جو دل کی گہرائی میں جگہ بنائے۔
ونڈا جات کے برسوں پرانے مقدمات، جو رشتوں کو کاٹتے اور خاندانوں کو تقسیم کرتے تھے، ان کے فیصلوں سے سلجھ گئے۔ کہیں بھائی بھائی سے گلے ملے، کہیں جھگڑے ختم ہوئے، اور کہیں ماں کے چہرے پر برسوں بعد مسکراہٹ آئی۔ یہ فیصلے عدالت کے رجسٹروں میں بھی درج ہوئے، اور گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں بھی۔
چوہدری شفقت محمود کا قصہ صرف ایک سرکاری افسر کی کامیابی کا بیان نہیں، یہ ایک چراغ کی کہانی ہے جو اندھیروں میں جلتا رہا، تھکا نہیں، بجھا نہیں، اور روشنی بانٹتا رہا۔ شاید آنے والے وقت میں وہ یہاں نہ ہوں، مگر گلیوں کی فضا میں ان کے فیصلوں کی خوشبو، چوپال کی دیواروں پر ان کے الفاظ کی گونج، اور لوگوں کی دعاؤں میں ان کا ذکر ہمیشہ باقی رہے گا۔
اور ایک دن، جب کوئی بچہ اپنی ماں سے پوچھے گا، “اماں، کبھی ایسا وقت بھی آیا تھا جب تحصیل میں انصاف ملتا تھا؟”
ماں مسکرا کر کہے گی، “ہاں بیٹا، ایک شخص آیا تھا… وہ حاکم نہیں، خادم تھا… اس کا نام تھا چوہدری شفقت محمود۔”