LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا دورہ پاکستان ; دوطرفہ تجارت کی امیدیں

Share this to the Social Media

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ایرانی صدر مسعود پزشکیان آ ج 2 اگست کوہفتے کووزیر اعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان کا 2 روزہ سرکاری دورہ کررہےیں اسلامی جمہوریہ ایران کے اسلام آباد کےسفارتخانے کی ایکس پر ایک پوسٹ کے مطابق پاکستان ,ایران کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور وسعت دینے کے جذبے کے ساتھ صدر 2 اور 3 اگست کو پاکستان کا سرکاری دورہ کریں گے۔ دورے سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت ,برادارنہ تعلقات مزید مضبوط ہو نے کی امیدیں اورتوقعات ہیں, ایکس پر ایک پوسٹ میں ایرانی صدر کے سیاسی مشیر مہدی سنائی نے کہا کہ’ ڈاکٹر مسعود پزشکیان ہفتے کی شام 2اگست کو وزیر اعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کریں گے دورے کے دوران سرکاری ملاقاتیں اور ’ ثقافتی و تجارتی شخصیات سے گفتگو’ ایجنڈے کا حصہ ہوں گی۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں پر محیط ہیں اور اس دورے کے مقاصد میں صوبائی و سرحدی تعاون کو فروغ دینا اور دوطرفہ تجارت کو موجودہ 3 ارب ڈالر سے بڑھانا شامل ہے۔قبل ازیں ترجمان دفتر خارجہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان ہفتے کو پاکستان کا 2 روزہ سرکاری دورہ کریں گے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان وزیر اعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کررہے ہیں

دورے سے دونوں ممالک کے درمیان برادارنہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔مسعود پزشکیان گزشتہ دو برسوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے دوسرے ایرانی صدر ہوں گے، یہ دورہ دراصل جولائی کے آخری ہفتے کے لیے طے تھا۔ اپریل 2024 میں سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا، یہ دورہ ابراہم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات سے ایک ماہ قبل ہوا تھا، اس دورے کے دوران انہوں نے لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کیا تھا۔ ایرانی صدر کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی پاکستان تشریف لارہا ہے۔ پزشکیان کی صدارت کے ایک سال بعد مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، لوڈشیڈنگ جاری ہے اور سیاسی آزادیوں پر اب بھی پابندیاں ہیں۔ سفارتی، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے خلیج گہری ہو چکی ہے اگر ایران کی قیادت اپنا سفارتی راستہ نہیں بدلتی تو آئندہ بحران جنم لے گا۔یاد رکھیں کہ ایران، اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ ہوئی جب 13 جون 2025 کو اسرائیل نے پہلی بار براہِ راست ایرانی سرزمین پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جو کہ تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ ایران کے کئی شہروں پر شدید فضائی حملے کیے گئے جن میں بڑی تعداد میں عام شہری جان سے گئے۔ ایسے نازک وقت میں جب قوم کو قیادت اور حوصلے کی ضرورت تھی، پزشکیان ایک بااعتماد رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ماضی میں متعدد مواقع پر پاکستان پر ایران سے متعلق امریکہ کا بہت دباؤ رہتا تھا مگر اس کے باوجود اسلام آباد نے تہران سے تعلق کبھی ختم نہیں کیا۔ اسحٰق ڈار نے اس سے قبل ایرانی خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ صدر پزشکیان کا دورہ پاکستان طے شدہ ہے پاکستان خطے میں سفارت کاری اور دانشمندانہ رویہ اختیار کرنے کا حامی ہے اور ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور بات چیت کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتا ہے۔ پاکستان ایران کے حالیہ واقعات، خصوصاً ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ پاکستان نے اسرائیلی حکومت کی ایران کے خلاف جارحیت اور امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی مذمت کی تھی۔ پاکستان نے کہا تھا کہ’ موجودہ صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ سفارت کاری اور مکالمہ ہے، اور پاکستان دونوں فریقین کی حمایت جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے 27 مئی کو ایران کا دورہ کیا تھا، جو بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع کے دوران دوست ممالک کے شکریہ کے طور پر کیے جانے والے علاقائی دورے کا حصہ تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سمیت دیگر اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی تھی تاکہ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سے قبل، وہ مئی 2024 میں بھی ایران گئے تھے جہاں انہوں نے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی یادگاری تقریب میں شرکت اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ مسعود پزشکیان ایک ایرانی ہارٹ سرجن اور اصلاح پسند سیاست دان ہے جو اس وقت ایران کے منتخب صدر ہیں۔ اس سے پہلے، پزشکیان ایران کی پارلیمنٹ میں تبریز، اوسکو اور ازرشہر انتخابی ضلع کی نمائندگی کر رہے تھے اور 2016ء سے 2020ء تک اس کے پہلے ڈپٹی اسپیکر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ محمد خاتمی کی حکومت میں 2001ء اور 2005ء کے درمیان صحت اور طبی تعلیم کے وزیر رہے انھوں نے 2013ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا، لیکن دستبردار ہو گئے اور 2021ء کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا، لیکن انھیں مسترد کر دیا گیا۔ پزشکیان نے 2024ء میں کوالیفائی کیا اور 5 جولائی 2024ء کو صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا جبکہ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستان اور ایران نے 1950 میں ’فرینڈشپ ٹریٹی‘ پر دستخط کیے تھے اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1949 میں تہران جبکہ 1950 میں پاکستان بننے کے بعد شاہ آف ایران نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران ہر فورم پر کشمیر سمیت ان اہم معاملات پر پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتا آیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہمیت کے حامل ہیں۔1965 ,1971 اور 2025میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کا کُھل کر ساتھ دیا اور اسلام آباد کو تہران کی سفارتی حمایت حاصل رہی۔چند مواقع اور معاملات پر تناؤ اور مشکلات کے باوجود پاکستان اور ایران کے تعلقات عمومی طور پر دوستانہ ہی رہے ہیں ایران کی خارجہ اور اندروںی پالیسیوں میں آنے والے بڑی تبدیلیوں کے باوجود بھی اس کے پاکستان سے تعلقات بہتر ہی رہے۔ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا افتتاح مارچ 2013 میں پاکستان اور ایران کے صدور نے کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خدشے کے باعث کوئی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اس منصوبے میں رقم لگانے کے لیے تیار نہیں ایران پاکستان کا اس وقت بہت شکرگزار ہوا تھا جب پاکستان نے ایران میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیم جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو گرفتار کروانے میں اہم معلومات ایران کو فراہم کیں۔ یاد رکھیں کہ جولائی 2024 میں مسعود پزشکیان نے جب ایران کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز صدارتی محل میں قدم رکھا تو وہ صرف چند گھنٹوں بعد ہی حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ، جو ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے، ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے۔ اسماعیل ہنیہ پر یہ حملہ تہران کے قلب میں ہوا تھا۔ اس غیر معمولی واقعے نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ واقعہ اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کے سب سے غیر یقینی دور کی شروعات ثابت ہوامسعود پزشکیان ایک قومی سانحے کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ اُن کے پیش رو صدر ابراہیم رئیسی، ایران کے وزیر خارجہ کے ہمراہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہوئے تھے ان کے معتدل لہجے، حجاب کے نفاذ اور سماجی پابندیوں پر نرم رویے اور مغرب کے ساتھ تصادم کی بجائے بات چیت کا وعدہ ایک ایسے ملک کے لیے امید کی کرن بنے جو عالمی پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ لیکن صدارت کے چند ہی مہینوں میں اسرائیل نے ایران پر تباہ کن حملوں کی ایک لہر کا آغاز کیا جس کا اختتام امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری مراکز پر حملے پر ہوا۔ ان معاملات کے باعث ایران کی پہلے سے نازک معیشت مزید کمزور ہو گئی۔ ملک بھر میں توانائی اور پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ ایران میں صدر حکومت چلاتا ہے لیکن وہ حکمرانی نہیں کرتا۔ دوسرے بہت سے ممالک کے برعکس ایران کا صدر ملک کا سب سے طاقتور شخص نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوریہ کے آئین کے تحت اصل اختیار رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہے۔ سنہ 1989 سے یہ منصب آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس ہے جو فوج، عدلیہ، خفیہ اداروں اور خاص طور پر خارجہ پالیسی پر حتمی اختیار رکھتے ہیں۔

پزشکیان صدر تو ہیں لیکن اُن کی طاقت ہمیشہ نظام کے غیر منتخب طاقتور مراکز جیسے پاسدارانِ انقلاب، رہبری شوریٰ اور رہبرِ اعلیٰ کے دفتر کے دائرے میں محدود ہیں۔ اور جب بات سفارتکاری کی ہو، چاہے جوہری پروگرام ہو یا خطے میں کشیدگی کا جواب، پزشکیان اکثر فیصلہ ساز کی بجائے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے فیصلے پیش کرتے ہیں جو کہیں اور لیے گئے ہوں۔پہلے دورِ صدارت میں ہی ٹرمپ نے ایران اور امریکہ کے تعلقات کو شدید تناؤ کی نہج پر لا کھڑا کیا انھوں نے یکطرفہ طور پر برسوں کی محنت سے طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی، سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور ایران کے بااثر ترین فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا۔جلد ہی اسرائیل نے خطے میں ایران کے اتحادی گروپوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی: غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی گروہ نشانے پر آ گئے۔اس کے بعد پورے سال کشیدگی اور محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رہا۔ایسے وقت میں پزشکیان نے بطور صدر عہدہ سنبھالا۔ ایک معتدل رہنما جو ایک بڑے تنازع کے درمیان صدر بن کر آ گیا تھا مگر اس کے پاس حالات کا رُخ موڑنے کا کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔ایران نے امریکا کی جانب سے عائد کی گئی نئی پابندیوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے غیرقانونی، ظالمانہ اور ایرانی قوم کے خلاف کھلی دشمنی پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکی پابندیوں کا مقصد ایران کو کمزور کرنا، ایرانی عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرنا ہے۔ یا د رہےکہ امریکہ نے پاکستان میں ایران کے موجودہ سفیر رضا امیری مقدم پر اپنے خصوصی ایجنٹ کے اغوا کا الزام لگاتے ہوئے انہیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے رضا امیری مقدم اور دیگر دو ایرانی اہلکاروں پر 2007 میں ایران کے جزیرہ کیش سے ایک امریکی ریٹائرڈ خصوصی ایجنٹ کے اغوا میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X