LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) ریاستی بجٹ کھربوں میں، اور آفت کے وقت ہاتھ میں صرف رسی اور ٹائر

Share this to the Social Media

ریاستی بجٹ کھربوں میں، اور آفت کے وقت ہاتھ میں صرف رسی اور ٹائر!

تحقیقاتی رپورٹ
ملک زبیر اعوان

خیبر پختونخوا میں گزشتہ سات سالوں (2018 تا 2025) کے دوران صوبائی حکومتوں نے مجموعی طور پر 7 سے 8 ٹریلین روپے سے زائد کے بجٹ منظور کیے، جن میں قدرتی آفات سے نمٹنے، عوامی ترقی، بنیادی ڈھانچے اور صحت کے شعبے کے لیے مخصوص فنڈز بھی شامل تھے۔ مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جب آفت آتی ہے، سیلاب آتا ہے، زلزلہ یا طوفان آتا ہے، تو ریاست عوام کے دروازے پر پہنچتی ہے — ہاتھ میں صرف ایک رسی اور ایک ٹائر لے کر۔ کیا یہ 7 ٹریلین کے بجٹ کی ریاست ہے؟ یا یہ کرپشن، بدانتظامی، اور بےحسی کی وہ تصویر ہے جسے ہم برسوں سے نظرانداز کرتے آ رہے ہیں؟

سال 2018–19 میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کو 5.2 ارب روپے دیے گئے، جو 2020–21 میں 49.1 ارب تک جا پہنچے۔ NDMA، جو مرکزی سطح پر آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارہ ہے، نے بھی سیلابی امداد، بین الاقوامی تعاون، سیٹلائٹ مانیٹرنگ، اور طبی سہولتوں کی ترسیل میں کردار ادا کیا، مگر صوبائی سطح پر نہ صرف یہ فنڈز ضلعی دفاتر میں بلاک رہے بلکہ ان کا خاطر خواہ استعمال بھی نظر نہیں آیا۔ 2023 میں اپر کوہستان میں ایک 40 ارب روپے کے مالی گھپلے نے ریاستی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا، جہاں جعلی ٹھیکے، ہزاروں جعلی چیکس، اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کے ذریعے عوامی فنڈز کو لوٹا گیا۔ NAB اور AGP کی رپورٹس کے مطابق صرف 2023–24 میں 152.1 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا، اور اگلے سال یہ تعداد 200 ارب روپے سے تجاوز کر گئی۔ ان میں جعلی پروکیورمنٹ، فرضی اخراجات، اور سرکاری محصولات کی عدم وصولی جیسے معاملات شامل تھے۔ یہ وہی رقوم تھیں جو آفات سے نمٹنے، عوامی بہبود، اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے مختص کی گئی تھیں۔

طبی شعبے میں بھی کہانی مختلف نہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ 2024–25 کے دوران 1.9 سے 3.1 ارب روپے کی ناقص ادویات اور طبی سامان خریدنے میں بے ضابطگیاں ہوئیں، جن سے نہ صرف مالی نقصان ہوا بلکہ عوام کی صحت بھی داؤ پر لگ گئی۔ NDMA نے سیلابی سیزن میں Early Warning System کو فعال کیا، جو 277 سیٹلائٹس کے ذریعے پیشگی خبردار کرنے والا سسٹم چلاتا ہے، مگر جب وارننگ کے بعد بھی عوام کو خیمہ، خوراک، یا دوائی نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ کسی اور جگہ ہے: نیچے، ضلعی اور صوبائی سطح پر۔

سال 2023–24 میں کے پی حکومت نے 1.33 ٹریلین روپے کا بجٹ پیش کیا، جبکہ 2024–25 میں 1.654 ٹریلین روپے۔ ان میں 2.5 ارب روپے ہنگامی صورتحال اور بحالی کے لیے مخصوص کیے گئے، مگر ان کا عملی استعمال ایک سوالیہ نشان ہی رہا۔ اپریل 2024 میں 50 کروڑ روپے بارش متاثرین کے لیے جاری کیے گئے، جبکہ شمالی وزیرستان کے 17,000 خاندانوں کو 20،000 روپے فی کس کے حساب سے 350 کروڑ کی امداد دی گئی۔ لیکن بہت سے متاثرین آج بھی امداد نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں، اور اصل مستحقین تک فنڈز نہیں پہنچ پاتے۔

پشاور BRT منصوبے پر بھی 168 ارب روپے سے زائد خرچ کیے جا چکے ہیں، مگر اس پر شفافیت کے شدید سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کئی رپورٹس کے مطابق منصوبے میں مالی بے ضابطگیاں، ناقص پلاننگ، اور من پسند ٹھیکہ داری کا نظام غالب رہا ہے۔ اگر آفت کے وقت ریاست صرف وعدے، بیانات، یا میڈیا فوٹو سیشن لے کر آئے، تو اسے ریاست کہنا زیادتی ہو گی۔

NDMA جیسے ادارے وفاقی سطح پر بھرپور کوشش کرتے نظر آتے ہیں، مگر جب صوبائی حکومتیں اور ادارے ان کے منصوبوں کو زمین پر بروقت نافذ نہ کریں تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ PDMA، NDMA اور ضلعی محکموں کے درمیان ایک خودکار اور شفاف کوآرڈینیشن سسٹم بنایا جائے، جس میں تمام فنڈز، منصوبے، اور اخراجات کا ڈیٹا عوام کے سامنے ہو۔ بینک اکاؤنٹس، چیک رجسٹریشن، اور خریداری کے تمام مراحل کو ڈیجیٹل کیا جائے، تاکہ کسی جعلی کمپنی یا افسر کو رقوم لوٹنے کا موقع نہ ملے۔

عوامی سطح پر بھی ہمیں اپنی خاموشی ختم کرنی ہو گی۔ ہمیں سوال اٹھانا ہو گا کہ 7 ٹریلین روپے کے بجٹ کے بعد بھی اگر ہم رسی اور ٹائر پر گزارا کر رہے ہیں، تو ہمارا قصوروار کون ہے؟ وہ وزیر جس نے بجٹ پیش کیا؟ وہ افسر جس نے چیک جاری کیا؟ یا ہم، جنہوں نے ان سے کوئی حساب نہیں مانگا؟

حقیقی ریاست وہ ہے جو آفت کے وقت اپنے شہری کے ساتھ کھڑی ہو، اسے تحفظ دے، اور اس کے دکھ کو بانٹے — نہ کہ صرف بجٹ پیش کرے، تصویریں بنوائے، اور پھر غائب ہو جائے۔ اگر ہم آج بھی نہیں جاگے، تو اگلی آفت میں بھی ریاست صرف رسی اور ٹائر لے کر ہی آئے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *