LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) اُڑان پاکستان” مہم پاکستان کی ترقی, خوشحالی ،اتحادکےلیے علامہ اقبال کا تصور

Share this to the Social Media

(اصغر علی مبارک)

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) اُڑان پاکستان” مہم پاکستان کی ترقی, خوشحالی ،اتحادکےلیے علامہ اقبال کا تصور ہے .
موجودہ حکومت ملک میں معیشت کی بہتری کے لئے پرعزم ہے اور اس شعبے پر مکمل توجہ دے رہی ہے۔
ویژن 2025ء کے تحت پاکستان 25بہترین معیشتوں میں شامل ہونےکےلیے تیارہےعلم پر مبنی معیشت ویژن 2025 کی بنیاد ہے۔ پاکستان نے ترقی کی پاکستانی نوجوان آبادی کا 60 فیصد ہیں۔
ہمیں طلبا کو سائنسی تحقیق اور سائنسی جدت اور سائنسی رجحانات کےلئے تیار کرنا ہوگا بدلتی ہوئی دنیا میں تعلیم کو نئے رجحانات سے ہم آہنگ کرنا وقت کا تقاضا ہے،
اقبال کا تصور قومیت وہ بنیادی قوت تھی جس نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے متحد کیا۔
“آج بھی، اقبال کے وژن پر عمل کر کے ہم پاکستان کو اتحاد، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
ان کی فکر ہمیں سکھاتی ہے کہ ترقی کے لیے خودی کی پہچان، قومی یکجہتی، اور اجتہاد جیسے عناصر کو اپنانا ہوگا۔” تو شاہین ھے پرواز ھے کام تیرا ” “اُڑان پاکستان” مہم علامہ اقبال کے ترقیاتی وژن سے متاثر ہوکر تشکیل دی گئی ہے۔
“یہ مہم نوجوانوں کو خودی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کی دعوت دیتی ہے۔
ہمیں اپنی نئی نسل کو اقبال کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے تعلیمی نصاب کو ان کے پیغام کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا، تاکہ وہ ایک جدید، ترقی پسند اور خودمختار پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال کے ترقیاتی فلسفے کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے مسلمانوں کی سیاسی بیداری میں علامہ اقبال کی شاعری کی ایک کلیدی حیثیت ہے جس سے کوئی انکار نہیں ۔
علامہ اقبال کی یہی ولولہ انگیز شاعری تھی جس نے مسلمانوں میں آزادی کی چنگاری کو شعلہ جوالا کا روپ دیا۔ علامہ اقبال کا پیام جو ان کے کلام میں موجود تھا وہ تحریک پاکستان کے راہنماوں کیلئے اور مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوا اور ان کا خواب ایک زندہ حقیقت بن کردنیا کے سامنے آیا۔علامہ اقبال نے اپنامخاطب نوجوانوں کوبنایا,کیونکہ نوجوان ہی قوم کی تقدیر بناتے ہیں ۔علامہ اقبال نے مسلمان نوجوان کیلئے ’’شاہین‘‘ کااستعارہ استعمال کرتے ہوئے اسے اونچی اُڑان بھرنے کی تلقین کی۔ وہ شاہین جو آشیانہ پہاڑوں کی چٹانوں میں بناتا ہے اور قناعت ، خودی اور خودداری کادرس دیتا ہے،علامہ اقبال فرماتے ہیں:تو شاہین ھے پرواز ھے کام تیرا , تیرے سامنے آسما ں اوربھی ہیں,
علامہ اقبال نوجوانوں کوشاہین اورکرگس کافرق بتاتے ہوئے اس بات کااحسا س دلاتے ہیں کہ خودی وخودداری ہی ان کااصل سرمایہ ہے۔وہ قوم شمشیرکی حاجت مندنہیں جس کے نوجوانوں میں خودی فولادکی صورت اختیارکرلے۔جو اپنے راستے خود تلاش کریں اور اپنے لیے نئے جہان آباد کریں۔اس ضمن میں علامہ اقبال فرماتے ہیں : پروازہے دونوں کی اسی ایک فضامیں, شاہیں کاجہاں اورہے کرگس کاجہاں اور
اس قوم کوشمشیر کی حاجت نہیں رہتی,ہو جس کے جوانوں میں خودی صورت فولاد علامہ اقبال فرماتے ہیں مسلمان نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اسے بتاتے ہیں کہ ان کی منزل آسمانوں سے بھی پرے ہے، سواونچی پرواز ان کا وتیرہ ہوناچاہیے۔نوجوانوں کو ہمیشہ اپنی سوچ کی اڑان کو بلند تر رکھنا چاہیے اوربڑی منزلوں کا تعین کرنا چاہیے اورپھر ان کے حصول کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دینی چاہیے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی,ستارے جس کی گردراہ ہوں وہ کارواں توہے دورحاضرکانوجوان متنوع جذباتی، روحانی، سماجی، معاشرتی ومعاشی مسائل کاشکارہے ایسے مشکل دورمیں علامہ اقبال کا فکروفلسفہ ان نوجوانوں میں نئی روح دوڑانے کو موجب بن سکتا ہے۔ ایسے کڑے وقت میں اقبالؒ کاکلام نوجوانوں کو رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں, نہ ہونومید،نومیدی زوال علم وعرفاں ہے;امیدمردمومن ہے،خداکے رازدانوں میں علامہ اقبال مشکل حالات میں بھی نوجوان سے مایوس نہیں ہوتے جوابھی دوسروں کی تہذیب میں پناہ ڈھونڈرہاہے اوراپنے اسلاف کے علم کے موتی چننے کی بجائے غیروں کاخوشہ چیں ہے ۔ان کی دُوراندیشی انہیں احساس دلاتی ہے کہ آنے والادوراسی نوجوان کاہے، علامہ اقبال فرماتے ہیں! نہیں ہے ناامیداقبالؒ اپنی کشت ویراں سے ;ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی; سبق پھرپڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا;لیاجائے گاتجھ سے کام دنیاکی امامت کا ,یہی نوجوان جب علامہ اقبال کے فلسفے کومشعل راہ بناتاہے تو وہ اسے زمانے کااستادہونے کی بشارت سناتے ہیں۔علامہ اقبال کے نزدیک نوجوان ہی مستقبل کے شہ سوار ہیں اس لیے ملک و ملت کی باگ ڈور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان بھی تعمیر ملت کے عمل میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بزرگ بھی ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو نئی ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے تذبذب یا ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں، کیوںکہ بدلتے زمانے کے ساتھ انسان کوخود بھی بدلنا چاہیے اور اس عمل میں سب سے اہم عامل نوجوان ہیں جنھوں نے معاشرے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا ہوتا ہے، علامہ اقبال فرماتے ہیں! زمانے کے انداز بدلے گئے
;نیا راگ ہے ساز بدلے گئے;خرد کو غلامی سے آزاد کر;جوانوں کو پیروں کا استاد کر,علامہ اقبال پھر کہتے ہیں: آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
;منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں علامہ اقبالؒ جوانوں سے جو محبت رکھتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔وہ جوانوں کو متحرک اورتوانا دیکھنے کے خواہش مند ہیں تاکہ جن ہاتھوں میں وہ قوم کی زمام دے کے جائیں ان میں وہ اوصاف بھی ہو جو ترقی یافتہ قوموں کا وتیرہ ہیں۔ علامہ اقبال ان کی تعلیم و تربیت پر بھی زوردیتے ہیں اور خدائے لم یزل کے حضورسجدہ ریز ہو کر چشم خوں ناب سے ٹپکتے آنسؤوں کی جھڑی کے ساتھ ان کیلئے دُعاگوبھی ہیں علامہ اقبال فرماتے ہیں:جوانوں کو میری آہ سحر دے;پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
;خدایا آرزو میری یہی ہے;میرا نور بصیرت عام کردے;جوانوں کو سوز جگر بخش دے;مرا عشق ، میری نظر بخش دےعلامہ اقبال کے کلام میں آج کے نوجوان کیلئے بھرپوررہنمائی موجودہے،ضرورت اس امرکی ہے کہ دور حاضر کا نوجوان اس مفکروفلسفی شاعر کے افکارسے فائدہ اٹھائے۔وہ یقینا اپنی منزل آسمانوں میں پائے گا۔ علامہ اقبال کا کلام روز اوّل کی طرح تازہ ہے اور اس میں وہی کشش ہے جو نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔اب یہ ہمارافرض ہے کہ کلام اقبالؒ کو اگلی منزل کی طرف گامزن کیا جائے اور نوجوانوں , بالخصوص طالب علموں کے ذہنوں میں اسے اس طرح منتقل کیا جائے کہ وہ ان کے کردار کا حصہ بن جائے اور وہ ان کو اس’’ شاہین‘‘ مردمومن کے قالب میں ڈھال دے جس طرح انہیں علامہ اقبال نوجوانوں کودیکھنا چاہتے تھے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *